ایشیاء میں ترقی کے مواقع 

Published on March 15, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 307)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصودانجمم کمبوہ
یورپی اداروں کو تیزی سے اس حقیقت کا احساس ہوتا جا رہا ہے کہ ایشیائی ملکوں سے تعاون بہت فائدہ مند ہے۔جرمنی بطور خاص ایشیاء میں دلچسپی رکھتا ہے،نہ صرف بڑی کارپوریشنیں اور بڑے کاروباری ادارے بلکہ نجی شعبے کی چھوٹی چھوٹی کمپنیاں اور فرمیں بھی ایشیائی ممالک کی منڈیوں میں کاروبار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔صنعتی شعبے نے جو نئی تنظیم قائم کی ہے وہ ایشیاء میں جرمن اداروں کا کاروبار بڑھانے میں مدد دے رہی ہے۔حالیہ چند برسوں میں جرمن اخبار وں،ریڈیو،ٹیلی وژن کی خبروں سے یہ تاثرابھرا،جیسے دنیا میں کوئی ’’براعظم‘‘دریافت ہوا ہے،مثلامشہور جرمن اخبارفرینکفور ٹر ا لگیمائیے رائیٹنگ کی سرخی یہ تھی کہ’’ ایشیاء میں ترقی کے مواقع منتظر ہیں‘‘۔میونخ کے اخبار سوئے ڈونچے رائیٹنگ نے ایک مضمون شائع کیا ہے جس کا عنوان تھا،ہیمبرگ ہفت روزہ دی رائیٹ کی سرخی تھی ’’مستقبل قریب کے لیے مشرق بعید ‘‘ڈسلڈورف کے تجارتی اخبار ہیڈسبلاسٹ نے سرخی جمائی کہ ’’جرمنی ایشیائی خطے میں ٹھوس بنیادوں پرتعاون کرے گا‘‘اخبار نے لکھا کہ چین اور جنوبی کوریا کی طرف سے رجحان کے جنون کی باتیں کی جارہی ہیں اور اب ہمیشہ کہیں زیادہ جھکاؤ مشرق کی طرف ہے‘‘۔498ء میں واسکوڈی گامانے پہلی بار ہندوستان کا بحری راستہ دریافت کرنے کی کوشش کی،جس کے بعد پوری اقوام کے لیے ایشیاکی پرکشش منڈیوں کی راہ کھل گئی لیکن حقیقت کا صحیح ادراک اب ہوا ہے کہ براعظم ایشیاء میں دراصل کتنے زبردست مواقع موجود ہیں۔1993ء میں جرمنی کے وفاقی چانسلر ہلموہٹ کوہل نے بھارت، سنگاپور،انڈونیشیا، جاپان اور جنوبی کوریا کا سرکاری دورہ کیا۔ان ممالک کے علاوہ انہوں نے ہانگ کانگ اور عوامی جمہوریہ چین میں بھی سیاسی مذاکرات کیے،اس دورے کے بعد جرمن حکومت کے سربراہ مسلسل پوری قوت سے اس بات پر زور دیتے رہے کہ ایشیاء میں جرمنی کی موجودگی مستحکم بنائی جائے،اقتصادیات کے ماہرین بھی ایشیائی منڈیوں سے مسحور ہیں۔جرمن کے چھوٹے بڑے صنعتی ،تجارتی اور اقتصادی ادارے سب کے سب ایشیائی منڈیوں میں اپنے روابط اس قدرمستحکم بنا چکے ہیں کہ اب انہیں زیادہ محنت کی ضرورت نہیں رہی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ جرمن حکمرانوں میں کوئی ایک بھی ایسا فرد نہیں جو کمیشن کے چکر میں دلچسپی رکھتا ہو،اسی لیے ملکی ترقی کا گراف روز بروزبڑھتا جا رہا ہے،یہاں تک کہ اداروں کے سربراہوں میں بھی کوئی آفیسر ایسا نہیں جو ایسی’’ چخ‘‘مارتا ہو۔جرمن اقتصادی ماہرین نے صدیوں پہلے اندازہ کرلیا تھا کہ اکیسویں صدی ایشیاء کی ترقی و خوشحالی کی صدی ہے،اس لئے کہ جرمن اوردیگر پورپین ممالک نے ٹھوس منصوبہ بندی کرلی تھی،مسئلہ یہ ہواکہ امریکی پالیسی سازوں کے سینے پر سانپ رینگنے لگے،انہوں نے پورپی برادری کو ایشیاء جانے والے راستوں میں ایسے خار بچھائے ہیں کہ جن کے باعث ایشیاء کی ترقی و خوشحالی کے خواب ادھورے رہ گئے ہیں،افغانستان میں ایک سازش کے تحت فوجیں اتاری گئیں اور اس قدر گولہ بارود کے ذریعے افغانستان کے سارے تجارتی ،اقتصادی راستے بند کردئیے،علاوہ ازیں دہشت گردی کے نیٹ ورک کو جان بوجھ کر بڑھاوا دیا گیاکہ اب امن کے سب راستے بھی زخمی ہوچکے ہیں۔ طالبان کے ساتھ 
ہونے والے مذاکرات میں بھی منافقت سے کام لیا جارہا ہے مجھے تو امید نہیں کہ امریکہ سے طالبان کے مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں گے،امریکی پینٹاگون کا اپنا معاملہ ہے وہ افغانستان چھوڑنے پر راضی نہیں ہے وہ ہر صورت میں افغانستان میں فوجی قوت کا وجود قائم رکھنے پر مصر ہے جبکہ حکومتی شخصیات افغانستان کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہنے پر تلی ہوئی ہیں۔جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتدار آئے ہیں امن کی کوششیں سست روی کا شکار ہیں،دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم مودی نے علاقے کے امن کو تہہ بالا کر رکھا ہے،اصل معاملہ سی پیک کا ہے جو دونوں کے اعصاب شل کئے ہوئے ہے ،دن رات ان کے اعصاب پر سوار یہی ایک اہم مسئلہ ہے،مودی سرکار نے تو کہہ دیا ہے کہ ’’پاکستان اس کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے،سارا سکون اسی کی وجہ سے برباد ہے‘‘۔وہ پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے منصوبے پر شب وروز کام کر رہا ہے،بلوچستان کی علیحدگی کے لیے اس نے اربوں روپے کا بجٹ قائم کررکھا ہے،دوسری طرف ہمارے ڈیموں کی تعمیروتنصیب پر بھی اس کی نظر بد ہے اور اس کی تعمیر کے معاملے میں بھی ہمارے حرام خور سیاستدانوں کی جھولیاں تر کر تا آ رہا ہے،صد افسوس کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مودی کا دوست ہے جو علاقے کے امن کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے،افغانستان کی بدامنی نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ،امریکہ چاہتا ہے کہ وہ یہاں بیٹھ کر چین اور روس پر نظر رکھے جبکہ بھارتی منصوبہ ساز پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔جرمن اور یورپی ممالک کے ترقی و خوشحالی کے خواب ریزہ ریزہ ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ایک ایسی قوت ہے جو ہم کو ان ظالموں کے شکنجے سے آزادی دلا دے ورنہ ان کو ہماری ترقی و خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی،ایران جسے ہم برادر ملک کہتے آرہے ہیں وہ بھی ہماری عسکری ترقی سے خائف نظر آتا ہے،اس کی بھارت سے دوستیاں صاف بتاتی ہیں کہ وہ پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتاحالانکہ ہماری پالیسیاں ایرانی مفاد میں رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔1965 ء کی جنگ میں ترکی اور ایران نے ہماری دل کھول کر مدد کی تھی،ہمارے جنگی جہاز ایران سے اڑتے تھے اور ترکی کی رانی توپیں بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجارہی تھیں،لگتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی خراب حالت میں ہے، افسوس کہ سابق حکومت نے توخارجہ پالیسی کو جان بوجھ کرکوڑے کرکٹ کے ڈھیر وں میں چھپا رکھا تھا ،یہ کہنا درست ہوگا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جو میری نظر میں ’’نکما‘‘ وزیر اعظم تھا ،خطے میں کوئی ایسا کردار ادا نہیں کرسکاکہ، نہ صرف کشمیر کی کی آزادی کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرتابلکہ ملکی ترقی وخوشحالی کے منصوبوں کے لیے کوئی جامعہ اور ٹھوس کام نہیں کرسکا۔ اس کے دور میں ترقی یہ ہوئی کہ بے روزگاری ،مہنگائی ،چور بازاری ،حرام خوری ،غنڈہ گردی ،جیسے دوسرے لفظوں میں’’جمہوریت کا حسن‘‘کہا جاتا رہاہے ،انصاف نام کی کوئی چیز نہ تھی اور نہ ہی قومی اداروں کی ترقی کے لیے ٹھوس کام کیا گیا،اپنے دوستوں،رشتہ داروں اور بھائی بندوں کو سربراہی سونپ کر اداروں کا کچومر نکالا گیا،یہ تھا جمہوری دور ،خوشحالی دور،ترقی کا دور۔۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress主题