ہومیو ادویا ت کے کر شمات

Published on September 23, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 382)      No Comments

تحریر۔۔۔مقصود انجم کمبوہ
ہومیو پیتھک طریقہ علاج جرمن ڈاکٹر ہانیمن کی دریافت ہے گو وہ ایک ایلو پیتھی ڈاکٹر تھے مگر انہوں نے ایک انوکھا طریقہ علاج دریافت کر کے دنیا میں انقلاب بر پا کیا اس طریقہ علاج سے پچیدہ اور موذی امراض کا علاج آسان بنا کر اس طریقہ علاج کو مقبول بنا دیا دنیا میں اس وقت اس طریقہ علاج کو کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے یورپ کے علاوہ دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ہومیو پیتھی کوکافی فروغ ملا ہے صحیح علامات کے تحت ہومیو پیتھی کی ادویات استعمال کرنے پر انقلابی نتائج حاصل ہوتے ہیں کا ر بو یج ایک ایسی دوا ہے جس کا شمار زندگی بچانے والی چوٹی کی دواﺅں میں کےآ جاتا ہے جب کسی بیماری کے بہت بڑھ جانے کے نتیجہ میں زندگی کی رمق کا لعدم ہوجائے تو ان نازک لمحات میں کاربو یج ڈوبتی ہوئی زندگی کو واپس کھینچ لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے کاربویج کے ان غیر معمولی اثرات کی تہہ تک پہنچنا تو مشکل امر ہے مگر بار ہا تجربوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جب زندگی بالکل ختم ہونے کے قریب ہو تو کاربوریج فوراً اثر کرتی ہے اور جسم کی حرارت بحال کردیتی ہے اس خاص اثر سے ڈاکٹر کینٹ نے یہ اندازہ لگایا کہ کاربوریج گرتے ہوئے بلڈ پریشر کو بھی اُونچا کرتی ہوگی جب ڈاکٹر کینٹ نے اس پر تجربہ کیا تو واقعتا یہ اثر نمایاں نظر آیا لیکن یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ یہ بے وجہ بلڈ پریشر کو زیادہ نہیں کرتی یعنی خطرہ نہیں ہے کہ کاربویج کھانے سے بلڈ پریشر ضرورت سے زیادہ ہو جائے گا بلکہ اگر خون کا دباﺅ معمول سے زیادہ گر گیا ہو تو یہ اُسے نارمل کر دیتی ہے مریض جب آخری دموں پر ہو تو خون کا دباﺅ اکثر گر جاتا ہے کاربویج کی ایک خوراک سے یہ اچانک گرمی پیدا ہونے لگتی ہے ڈاکٹر بی اے خرم کے ذاتی مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ایک دفع دل کا شدید حملہ ہوا جب وہ وہاں پہنچا تو مریض بظاہر بے جان ہو چکا تھا ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ تھا اور سانس بند ہونے کو تھا ڈاکٹر بی اے خرم نے دو تین قطرے مریض کے منہ میں ٹپکا دئیے تھوڑی دیر میں مریض کا سانس بحال ہو گیا ماتھے کا پسینہ ختم ہو گیا اور جسم میں آہستہ آہستہ گرمی پیدا ہونے لگی مریض کی حالت سنبھلنے پر ڈاکٹر بی اے خرم نے مریض کو دل کی طاقت کی دوائیں دیں اسے مزید علاج کے قابل بنانے میں کاربویج نے حیرت انگیز اثر دکھایا علاوہ ازیں ڈاکٹر نے اور بھی بہت سے مریضوں پر اس قسم کے تجربات کئے اور ہمیشہ اس کو موثر پایا اس لئے زندگی بچانے کی دوا کے طور پر اسے ہمیشہ اپنے کلینک کی زینت بنا کر رکھنا چاہئیے ۔ لاہور کے مشہور ڈاکٹر ایم اے بھٹی کا کہنا ہے کہ کاربویج کا گہرا تعلق دمہ سے بھی ہے دمہ میں یہ عمو ماً ایسے مریضوں کے کام آتی ہے جن کا جسم سخت ٹھنڈا اور پسینہ سے شرابور ہو جائے اور کمزوری کا یہ عالم ہو کہ بلغم باہر نکالنے کی طاقت بھی نہ ہو ایسے مریض عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو مونیم ٹارٹ کی علامات رکھتے ہیں انکی علامتیں اینٹی مونیم ٹارٹ کی سطح تک پہنچنے سے پہلے ایپی کاک سے ملتی ہیں جب ایپی کاک کی علامتیں زیادہ بگڑ جائیں تو پہلے اینٹی مونیم کروڑ کی علامات پیدا ہوجاتی ہیں ساتھ ہی معدے کی تکالیف بھی شروع ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے زبان پر بہت گہری سفید رنگ کی تہہ جم جاتی ہے اگر ایسے مریض کی حالت زیادہ خراب ہو جائے سینہ بلغم سے بھرا ہو اور مریض سخت کمزور ہو چکا ہو تو اینٹی مونیم ٹارٹ مرتے ہوئے مریض کو سنبھالا دیتی ہے اور اس خطرناک مرحلہ سے اُسے باہر نکال لاتی ہے لیکن یہ دمہ کا مستقل علاج نہیں ہے کاربویج بھی اینٹی مونیم ٹارٹ سے ملتی جلتی دوا ہے دمہ کا ایک مریض اسی کیفیت سے دو چار تھا اور حالت بہت تشویش ناک تھی ڈاکٹر جلیل حسین نے اس مریض کو کاربویج سے جس سے فوراً مریض کے جسم میں طاقت پیدا ہوگئی بلغم باہر نکل گئی سانس جو بند ہورہی تھی دوبارہ جاری ہوگئی اس کے بعد دمہ کا علاج کیا گیا اور مریض کو صحت کاملہ مل گئی ۔ میرے ذاتی مشاہدہ کے مطابق کاربویج ایک نہایت موثر دوا ہے جو نازک لمحات میں کام آنے والی دوا ہے اس دوا کی خاص علامت ٹھنڈے پسینے آنا ہے اور مریض کا بدن بھیگ جاتا ہے اور پھرہوا کا مطالبہ کرتا ہے چناچہ بعض دفعہ اس کے چہرے پر تیزی سے پنکھا جھلنا پڑتا ہے اس کے بر عکس آر سینک کا مریض بالکل خشک ہوتا ہے اور اس کے سینے میں بلغم بھی نہیں کھڑ کھڑ اتی میرے ذاتی مشاہدے میں آیا ہے کہ کاربویج کی بیماریوں میں جہاں دل کے اعصاب جواب دے رہے ہوں بہت مفید ہے اور معدہ میں ہوا یا گیس کا دباﺅ اوپر کی طرف ہو تو کاربویج فوراً اثر کرتی ہے اور مریض کو سکون مل جاتا ہے ۔ معدہ میں پیدا ہونے والی گیس جب اُوپر کی طرف زور دے تو کاربویج دیں اور جب پیٹ میں کھلبلی مچائیں تو چائینہ 30دیں اور جب نیچے کی طرف یعنی ٹانگوں کی طرف دوڑے تو لائکو پو ڈیم دیں ان تینوں ادویات کو ملا کر دیا جائے تو معدہ سے پیدا ہوکر اِ دھر اُدھر مشکلات پیدا کرنے کے مضر اثرات زائل کئے جاسکتے ہیں ایم بی بی ایس ڈاکٹر احمد بھٹی کو میرا مو دبانہ مشورہ ہے کہ وہ ہومیو پیتھک کو پچیدہ اور موذی امراض کے علاج کے لئے ضرور استعمال میں لائیں ضد چھوڑ دیں حسد نہ کریں بلکہ انسانیت کی بہتر خدمت کر نے سے نہ صرف عزت و وقار میں اضافہ ہو گا بلکہ روحانی خوشی بھی حاصل ہو گی ہومیو پیتھی کو ایسے ہی نکمی سمجھ کر نظر انداز کر نے سے کچھ حاصل نہ ہوگا حکومت سے بھی میری اپیل ہے کہ وہ اس طریقہ علاج کو حکومتی سطح پر فروغ دے بین الاقوامی سطح کی لیبارٹریاں تعمیر کروائے ہومیو پیتھی کی تعلیم کو ترجیحاً عام کرے اس کے درجات بلند کرے ملک کے نامور معالجوں کو یورپ و دیگر ممالک میں تربیت کے لئے بھجوائیں تاکہ وہ بین الاقوامی تجربات و مشاہدات سے سر شار ہو کر آئیں اسی میں ہم سب کی فلاح اور بہتری ہے ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Theme