سند ھ پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے ۔لفظ ’’سندھ‘‘ دراصل دریائے سندھ ہی سے مستعار ہے، جو سنسکرت لفظ ’’سندھو‘‘ کی موجودہ شکل ہے۔جو’’ کل رقبہ140,914، کلومیٹر2،آبادی 55,245,497، اضلاع27،قصبہ جا ت119،یونین کونسلیں1108‘‘پر مشتمل ہے ۔جو برصغیر کے قدیم ترین تہذیبی ورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔موجودہ سندھ، انتظامی لحاظ سے مندرجہ ذیل 23 ضلعوں ’’بدین،ٹھٹہ،حیدرآباد،جیکب آباد،خیر پور،دادو،ٹنڈو الہ یار،ٹنڈو محمد،خان،سانگھڑ،شکارپور،سکھر،عمرکوٹ،قمبر علی خان،کراچی،کشمور،گھوٹکی،لاڑکانہ ، مِٹیاری، میرپورخاص، نوشیروفیروز، نوابشاہ ‘‘ منقسم ہے۔
حالیہ الیکشن میں روایتی سیاسی پارٹیوں کے نامزد امیدواورں کو جہاں ایک دوسرے سے مقابلے کا سامنا تھا وہاں سیاسی پارٹیوں کے ساڑھے 13ہزار امیدواروں کے مقابلے میں مذہبی جماعتوں کے 1800 امیدوار بھی میدان میں آئے۔ جن کی پاکستان کے مختلف قومی اور صوبائی اسمبلی حلقوں میں سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں سے ون ٹو ون مقابلہ ہوا۔
آپ کو یاد ہو گا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ عوامی خدمت میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کا کردار دوسری پارٹیوں کیلئے مشعل راہ ہونا چاہئے،تھر میں کوئلے کے ذخائر سے آئندہ 300 سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکے گی جس سے صوبے میں خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ تھر میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری‘ قائم علی شاہ‘ عبدالمالک‘ آغا سراج درانی اور چیئرمین اینگرو کارپوریشن حسین داؤد سمیت وفاقی اور صوبائی وزراء کا شکریہ ادا کیا ۔
خشک سالی کے باعث تھر میں جنم لینے والے حالات کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے، اس المیہ نے پوری قوم کو حکمرانوں کی بے حسی اور کارکردگی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔تھر کی قحط سالی کی کہانی نے دکھ کے جذبے کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، ماں نے کس دل سے اپنے بچوں کو خالی پیٹ نیند کی تھپکیاں دی ہوں گی، کس طرح اپنے لخت جگر کو شہر خموشاں کی جانب بھیجا ہوگا۔بھوک سے نڈھال بچو ں کی سسکتی ہوئی آوازیں دل کو دہلا دیتی ہے۔امداد سرگرمیاں جاری، مگر امداد صرف شہری علاقوں تک ہی محدود ہے،دیہی علاقوں کے باسی اب تک صوبائی حکومت کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔تپتی دھوپ اور کچی جھونپڑیوں میں زندگی گزارنے والے متاثرین کی آنکھوں میں امید کی کرنیں بجھتی نظر آرہی ہیں، تھر کی خشک سالی کی سنگین صورتحال نے معصوم لوگوں کو جس اذیت میں مبتلا کردیا ہے، اس کے ذمے دار اپنا احتساب کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ اس المیہ نے پوری قوم کو حکمرانوں کی بے حسی اور کارکردگی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔
وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ ظاہر ہے جب ماں غذائی قلت کی وجہ سے کمزور ہوگی تو بچہ بھی کمزور ہوگا۔ تھر میں حالیہ قحط سالی افسوسناک ہے جس کی بنیادی وجہ خشک سالی ہے۔لیکن اس صورتحال کو کہیں زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ کچھ کوتاہیاں حکومت کی جانب سے بھی ہوئی ہیں اور بہت جلد اس کی تحقیقات کرائی جائیں گی۔حساب روایت سابق دور کی طرح وزیر اعلیٰ سند ھ قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ میڈیا میں 121 بچوں کی ہلاکت کی خبریں آرہی ہیں لیکن وہ کسی تنازعے میں نہیں جانا چاہتے جو بھی جانی نقصان ہوا ہے اس پر انہیں افسوس ہے۔حکومت کی اولین ترجیح صحت کے مسائل پر قابو پانا ہے، جس کے لیے 14 موبائل ڈسپینسری یونٹ دن رات کام کر رہی ہیں اور ادوایات کے دو ٹرک پہلے ہی تھر میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ متاثرہ خاندانوں کو گندم کی فراہمی پچیس کلو گرام سے بڑھاکر پچاس کلو گرام کردی گئی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کو یاد ہو گا کہ محکمہ صحت کی مبینہ غفلت و لاپرواہی اور ای پی آئی پروگرام میں ہونے والی مبینہ کریشن اور لیڈی ہیلتھ ورکرز سمیت دیگر حفاظتی ٹیکہ پروگرام میں شامل ملازمین کو کئی کئی ماہ کے بعد تنخواہیں دیئے جانے کی وجہ سے ہر سال کی طرح رواں سال بھی صوبے میں پولیو کے3ہراز کیسز میں سے صرف40،35کیس رپورٹ ہوئے۔
فرق صرف سوچ کا ہے ۔یہ تمام بیانات اپنی جگہ درست ہیں کہ پاکستانی حکمران میڈیا کے ذریعے عالمی سطح پر پاکستانی عوام کی بہت خدمت کررہے ہیں ۔’’اب اس بات کا کس طرح پتہ چلے گا کہ جھوٹ کون بول رہاہے اور کسی کے لئے‘‘ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان لو گوں یادہی نہیں کہ پاکستان کا آئین کیا ہے کہ حلف لے کرقوم کی نمائندگی کررہے ہیں۔