فرانسیسی صدر ،مسلمانوں سے دشمنی مہنگی پڑے گی

Published on November 1, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 287)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
جرمنی کے سابق وفاقی صدر رومن ہر زوگ نے جرمنی اور دنیا بھر میں جرمنوں اور غیر ملکیوں کے درمیان مفاہمت بڑھانے کی غرض سے تمام ممکن اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا انہوں نے بون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ جرمنی میں رہنے والے مسلمانوں کے ممتاز نمائیدوں سے ملیں گے صدر نے سیاست ، تجارت ، ثقافت اور معاشرے کے دیگر طبقات کے ساتھ نمائیندوں کو مراسلے کیے ۔ اور ان سے مختلف ثقافتوں کے درمیان مکالمہ اور گفت و شنید آنے والے عشروں میں ایک اہم ترین چیلنج ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو دوسری ثقافتوں کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا چاہئیے صدر رومن ہرزوگ اسلام سے مکالمے میں خاص طور پر گہری دلچسپی رکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ اسلام کو دشمن نہیں سمجھنا چاہئیے انہوں نے کہا میں نے صدارت سنبھالتے وقت رسمی دوروں کا جو پراگرام بنایا تھا اسکی تکمیل کے علاوہ 1995ءمیں دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے 50سال مکمل ہونے کی تقریب نمٹ چکی اس لئے اب میں اپنی ساری توجہ اس مسئلے پر مر کوز کر سکوں گا انہوں نے اس بات کی پُر زور تردید کی کہ عالمی سطح پر ثقافتی کشمکش پائی جاتی ہے تاہم اگر ہم نے ثقافتوں کے کشمکش کی باتیں کرنے اور سرد جنگ کے بعد اس مسئلے کو لوگوں کے ذہنوں میں جڑ پکڑنے کا موقع دیا تو اس کے انجام کے بارے میں کسی پیش گوئی کی ضرورت نہیں ہوگی انہوں نے کہا کہ بہت دوسرے عالمی لیڈروں کی طرح میں ابھی اس تصور کا حامی ہوں اور پچھلے دنوں فرانس کے صدر شیراک سے طویل گفتگو میں بھی یہ بات واضح ہوگئی تھی۔
جرمنی کے سابق صدر رومن ہر زوگ نے کہا کہ اسلام کو سمجھنے کی ضرورت ہے یہ ایک ایسا مذہب ہے جو انسانوں کو حقیقی انسان بناتا ہے لہٰذا اس داعیوں سے کسی بھی قسم کی تنازعات پیدا کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے ۔دانشوروں اور صاحب علم لوگوں کی زندگی امن و مصالحت کو فروغ دینے میں کتنا اہم کردار ادا کر سکتی ہے کچھ ایسی ہی صورت حال اسلام سے ہمارے موجودہ تعلقات کی بھی ہے یہ دعویٰ کرنا کہ جرمن عوام سے نا انصافی نہیں ہوگی کہ تعز یری خواتین ، مذہبی عوام رواداری ، خواتین کا استحصال اور جارحانہ بنیاد پرستی جیسی اصلاحات اور اسلام کو ہم بے معنی سمجھتے ہیں ہمیں تنگ نظری پر مبنی اس نقطہ نظر کی اصلاح کرنی ہے ۔ موجودہ صدر ایما نویل میکرون نے تو حد مکا دی ہے انہوں نے مسلمانوں کے آخری نبی ﷺ±کے بارے میں ذلت آمیز روئیے اور نطر ئیے قائم کر رکھے ہیں اور نفرت کی آگ کو بھڑکانے سے ان کے مسلمان مخالف جذبات کبھی ٹھنڈے نہیں ہونگے اس نفرت سے پورے یورپ میں آگ کے شعلے بھڑکیں گے بہتر تو یہ ہے کہ وہ اسلام کے عقائد و نظریات کا مطالعہ کریں پھر ان کو حقیقت کا پتہ چلے گا جیسے جرمن کے دانشور اور حکمران اسلام سے محبت کے جذبات رکھتے ہیں اور مسلمان برادری کا احترام کرتے ہیں میں ایک طویل عرصہ سے فرانس ،جرمن اور یورپ کے مختلف ممالک میں مذہب اسلام بڑی تیزی سے پھیلتا دیکھ رہا ہوں اس ضمن میں کسی نے مخالفت کی اور نہ ہی رکاوٹیں ڈالی ہیں نہ جانے فرانس کے موجودہ صدر کو کون سی بر ائی نظر آنے لگی ہے ۔ بنیاد پرستی کی چھاپ اب فرانس کے حکمرانوں پر چڑھتی دکھائی دیتی ہے اور یہ بہت خوفناک معلوم ہوتی ہے جس سے پورے یورپ میں نفرتوں کی آگ بھڑکے گی اور یہ اچھی بات نہ ہوگی ہم چاروں مذہبی کتابوں کا احترام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ چھہ سات سو سال پہلے یہ اسلامی علم و آگہی اور روشن خیال تھی جس کے ذریعے مغرب کو گرانقدر کلاسیکی علم حاصل ہوا اور بدلے میں اسلام کو مغربی سوچ کی م
مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جو بنیاد پرستی اور عدم رواداری پر مبنی تھی انہوں نے کہا کہ عالم اسلام بھی کوئی واحد بلاک نہیں ہے اسی طرح تمام مسلمان ممالک بنیاد پرست بھی نہیں ہیں ۔ مثلاً مسلک کے اعتبار سے انڈونیشیا اور ایران ایک دوسرے سے مختلف ہیں انڈونیشیا بہر حال اس وقت دنیا میں سب سے بڑا مسلمان ملک ہے اور ایک مثال ترکی کی ہے اسلام کے بارے میں ہمارے روئیے کے متعلق نقطہ نظر ہمیشہ اختلاف رہا ہے تاہم کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ اس کے باوجود مختلف ثقافتوں کے درمیان مکالمہ اور بات چیت با آسانی ممکن ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فرانس جہاں لاکھوں مسلمان بھائیوں کی طرح رہائش پذیر ہیں جس کے بارے میں سابق صدر متراں اور شیراک کے جذبات قابل قدر ہیں ۔۔۔۔۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog