مجسمہ وفاو حیاعورت کے لیے صرف ایک دن ؟؟؟

Published on March 14, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 380)      No Comments

تحریر:سدرہ غفار۔لیاقت پور
جو دیکھنا چاہو گے تو ہے چار سو اجالا
یہ بات برحق ہے کہ عورت کا ہر روپ نرالا
یہ زبان کتنا بولتی ہے ہر وقت بولتی، جہاں نہیں بولنا وہاں بھی بولتی، جہاں بولنا وہاں نہیں بولتی، حق و سچ ہو تو کچھ کی بولتی کچھ کی بند ہو جاتی بولتی، یہ کیسی خود غرضی کی ہے بولی جو ہے ہر لمحہ بولتی۔۔ افسوس صد افسوس۔۔
ایسا کیوں ہے کہ عورت سے ہمدردی اسکی بہادری اسکی عظمت اسکی جانثاری کے لیے بس ایک مخصوص دن ہے۔۔یہ کہاں کا انصاف ہے بھلا۔۔
ایک سال میں ایک دن بس عورت کے نام۔۔واااہ۔۔۔
اس عورت کی محبت کا ایک دن میں کیسے صلہ دیا جا سکتا ہے جو اپنی زندگی کا ہر ایک لمحہ اپنی اولاد کی پرورش میں لگا دیتی ہے۔
جو اپنی زندگی کا سکون اپنی اولاد کی جھولی میں ڈال دیتی ہے کیا اسکی محبت اسکی قربانی بس ایک دن کی ہی تھی؟
اس عورت کے جسم پہ پڑے نیل،تشدد کے نشانات پر مرہم صرف ایک دن ہی لگاو گے کیا وہ زخم بھر جائیں گے؟
اس بہن کے دل میں کچھ بننے،پڑھنے،کمانے اور افسر بننے والی اٹھتی خواہشات کا گلا گھونٹ کر دوسروں کی بہنوں کو جاگیر سمجھنا کیا اس ایک دن میں اسکے دکھ کا مداوا کر دے گا؟
ایسا کیوں ہے آخر کہ ہم انسان وہاں حدود کو یاد نہیں رکھتے جہاں ضرورت ہوتی ہے مگر جب حق سچ کی بات ہو تو پھر سب حدود آنکھوں کے آگے آ جاتی ہیں پھر سال میں ایک دن گلے میں پہنے پھندے نما پھول کی طرح گدگدانے لگتا ہے۔اور بس اس ایک دن ہم ملنگ،مست،ولی بن کر اچھائی کی باتیں کرتے ہیں تب ہمیں اسلام یاد آجاتا ہے اور باقی دنوں میں ہم اپنے اعمال پر نادم تک نہیں ہوتے۔۔
عورت کی عظمت کی سلامتی کے لیے ایک دن کافی نہیں ہے۔۔۔
یہ دنوں،تاریخ اور منٹوں کی قید آخر کیوں ہے۔۔۔
عورت کا تو ہر روپ نرالا ہے مگر اسے سمجھتا وہی ہے جو سمجھنا چاہے ورنہ عورت کو بس ایک گالی بنا کر رکھ دیا ہے معاشرے نے۔۔
قصور اس معاشرے کی سوچ کا ہے جس نے عورت کو لاوارث بنا کہ رکھ دیا ہے۔۔اگر ہم بول رہے ہوتے تو شاید ہماری آواز کب کی دم توڑ چکی ہوتی۔ کتنے دکھ کی بات ہے نہ کہ جو عورت نو ماہ ایک بچہد کو اپنی کوکھ میں پالتی ہے دنیا کی تکالیف برداشت کرتی ہے وہی جب دنیا کو سمجھتا ہے تو اسی عورت کو گھر سے باہر پھینک دیتا ہے۔۔یعنی عورت کا ماں کے روپ میں گھر نہیں رہا وہ بیٹے پہ بوجھ بن گئی ہے کیونکہ وہ اسکی حرکات و سکنات پہ بولتی جو ہے تو وہ اس بیٹے کے کان کھاتی ہے اس لیے یہ اسکا گھر نہیں۔پھر بیٹی ہے تو وہ جی بلبل ہے جو اس گھر کی باسی نہیں ہے قانون الٰہی ہے کے بیٹی نے اگلے گھر جانا ہے تو جی بیٹی اگلے گھر گئی یعنی مائیکہ بھی اسکا گھر نہیں ہے۔آگے بیوی بن کے گئی مرد کی مردانگی پہلے دن اسے آگاہ کرتی کہ میرے آگے اونچا کبھی نہ بولنا اور میرے گھر والوں کی ذمہداری تم پہ ہے وہ جی ساری عمر ڈر کے رہتی کہ مجھ سے غلطی نہ ہو جائے پھر خود باہر مرد ہر عورت سے بول رہا اپنی کمائیاں لٹا رہا بیوی کو بدچلن کا تمغہ پہنا کے نکال دیا۔یعنی کہ بیوی کا بھی کوئی اپنا گھر نہیں۔۔
مانا کہ عورت کو اپنی عزت منوانی چاہیے مگر کیسی مردانگی ہے کہ بیچ بازار میں عورت ذات کی دھجیاں اڑا دو۔۔یہ معاشرے کا قصور ہے کہ جس نے عورت کو لاوارث بنا دیا۔ اس ایک دن میں عورت کے کس کس روپ پہ بولیں ہم۔
یہ وہی عورت ہے جسکا اپنا کوئی گھر نہیں ہے ساری عمر وہ دوسروں کے لیے جیتی ہے۔۔۔جب معاشرے نے ہی عورت کو بس ایک گالی بنا دیا ہے تو کیسے ان ہوس کے پجاری مردوں سے حوا کی بیٹیوں کی عزت بچا¶ گے۔۔۔
جناب پہلے معاشرے کی سوچ بدلو۔عورت کو اسلام کی بیٹی بنا¶ مرد کو چوڑاہے پہ کھڑا کر کے بتا¶ عورت کی عصمت کے ساتھ کھیلنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔مرد کو بتا¶ کہ منہ پھاڑ کر جو کہتے ہو نا کہ عورت کیوں بے پردہ باہر نکلی کہ مرد نے دیکھا تو انکا وہ منہ بند کرو یہ بتا کر کہ آپ خود مومن بن جا¶ اسلام میں آپ مردوں کو بھی کھلے لفظوں میں پردے کا حکم دیا ہے وہ پردہ ہے آنکھوں کا،نفس کا اور زبان کا۔۔آپ مومن کیوں نہیں بنتے مرنا بس عورت نے ہی ہے آپ تو پردہ دار کو نہیں چھوڑتے بے پردہ کو کہاں بخشو گے۔۔
جب عورت کو معاشرہ عزت دے گا۔۔انٹرنیٹ سے گندگی کا خاتمہ ہو گا،جب عورت اپنی عزت کی حفاظت اپنے پہناوے اور لب و لہجے سے کرے گی جب اسلام نام کا نہیں دل کا سکون بن جائے گا تو پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے عورت کے حق میں آواز اٹھانے والے سال میں فقط ایک دن کا انتظار کریں گے۔۔۔
سنو!
اے نادان لڑکی
کہ جب تم لڑکپن کی وادی میں
کسی آزاد پنچھی کی طرح
ہوا میں رقص کرتی تھی
تو جانتی ہو نہ اماں نے
تمہیں بازو سے پکڑا تھا
سینے سے لگایا تھا
ہاں تیرا ماتھا بھی چوما تھا
تیرےکانوں میں سرگوشی کی مانند
تیری روح تک کو بتایا تھا
کہ
حیا تمہارا زیور ہے
بتایا تھا کہ جب تم دہلیز پار کرو
وڈیروں کی عزت کو سر پہ رکھو
نگاہیں مٹی پہ رکھو
کہ اس مٹی کے پتلے ہیں اور
اسی مٹی میں جانا ہے
جو مٹی سے نظر اٹھا¶
تو نظر بھی لرزے اور کہہ اٹھے
کہ
حیا تمہارا زیور ہے
بتایا تھا یہاں پل پل میں
تیرے لاکھوں رقیب ہونگے
تجھے میٹھی باتیں بولیں گے
تجھے تاج محل دلوائیں گے
تجھے اونچے خواب دکھائیں گے
تو بچی ہے نادان ہے
ہاں تو بہکے گی کچھ پل کے لیے
پھر بہکنا تیرا یاد دلائے گا تجھے
کہ
حیا تمہارا زیور ہے
جب لگے تجھے کہ قید ہے تو
تو تھام لینا قرآن کو تو
اور پڑھنا سورتہ مریم کو
تو قید میں بھی آزادہوگی
تیری نس نس تب ہی پاک ہو گی
ہر لفظ تجھے یہ بولے گا
کہ
حیا تمہارا زیور ہے
اے دور حاضر کی آزاد لڑکی
کہاں گئی وہ شرم و حیا
ہاں بن گئی تیرے گلے کا طوق
ہاں بھول گئی
ارے میں تو پاگل ہوں
تو سیانی ہے عقل کل ہے تو
تجھے لوگوں کی پہچان بڑی
پردہ اب،لو ایسی کیا آن پڑی
تو آزاد ہے نہ
تو اتنا بتا
کیوں حوا کی بیٹی بے آبرو
کیوں ہوس کی چادر ہےکو بہ کو
یہ تیری بے باکی کا ہے انجام
تو بھول گئی ہے پیارا اسلام
تو بھول گئی اماں کی وہ بات
کہ
حیا تمہارا زیور ہے
عورت کی عظمت کو سلام دینے کے لیے ساری عمر بھی کم پڑ جائے۔
دراصل ہم سب پتھر بن چکے ہیں۔۔۔احساس مر گیا ہے۔۔خدارا احساس بیدار کریں اور سوچ بدلیں عورت گل ہے جو گھر میں خوشبو بکھیرتی ہے خدارا اسکا نصیب کانٹوں سے نہ بھریں۔۔۔
احسان ہو گا صنف نازک پہ۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Blog