کبھی نہ ختم ہونے والی یادیں

Published on March 14, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 313)      No Comments


تحریر:سمیراغفور
عاشی یار جلدی کرو مما بولا رہی ہے عاشی جو اج بورڈز کی تاریں سیٹ کرنے میں محو تھی بار بار تار کاٹنے پہ زور لگا رہی تھی بے سود
ہمشہ کی طرح اج بھی انسو انکھوں سے چھلک پڑے ادھر حمنہ کی بار بار کی اوازیں جلدی کرو یار _
اج تیسرا دن تھا عاشی کے گھر کی لائٹ نہیں تھی اور گھر میں ایسا کوئی نہیں تھا جو لائٹ ٹھیک کر دے اج بھی عاشی اپنے ماضی میں کھو سی گی ہان بھیا کے ھوتے ہوے ہمیں کوئی فکر نہ تھی دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ میرے تینوں بھائی گھر سے دور دیار غیر میں دوسروں کے گھروں کے چراغ روشن رکھنے کے لیے اپنے بہین بھایوں کو رب کے اسرا پہ چھوڑ کر ملک کی سرحد کی حفاظت کے لے پنجاب کے مختلف کونے پہ فورس میں چلے گے تھے عاشی کو اج اپنے چھوٹے بھیا کی بے حد یاد ائی ھوئی تھی اج ہر ہر بیتا لمحہ اس کے انکھوں کے سامنے سے گزر رہا تھا وہ بچپن کے دن روزانہ ایک ساتھ سکول جانا وہ طوفانی دن لہلاتے کھیت چہچہاتے پرندے گرجتے بادل کڑکتی بجلی جب وہ سکول سے واپس ا رہے تھے کہ اچانک سے گہنور بادل چھاے بجلی کڑکی اور عاشی بڑے ہونے کے ناطے پھر بھی چھوٹے بھیا کہ پچھے چھپ گی اسے بجلی کی کڑک سے بہت ڈر لگتا تھا لیکن اب قسمت کا کرنا ایسا ہوا ان بجلی کے تاروں کو ٹھیک کرنے کے لیے اج تیسرا دن تھا لیکن انتھک محنت کے بعد بھی وہ اج اپنے انسوں کو نہیں چھپا پائی
اچانک ساحر لدھیانوی کا شاعر یاد اگیا ہے
”تنگ اچکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم”
اج بھی وہی موسم تھا
لہلاتی کھیت اور چہچہاتے پرندے کڑکتی بجلی گرجتے بادل ایک پیارا سا الگ سا سماں تھا لیکن پھر بھی عاشی کو اپنے بھیا کی بے حد یاد ائی ہوئی تھی وہ سکول کا دن یاد اگیا جب ایک دن ایسا ہی منظر تھا لیکن اج کے منظر میں اسکے پاس بھائی کی یادیں تھی عاشی پانچ بہینیں اور تین بھائی تھے باپ فوج میں تھا گھر کے حالت نارمل تھے سب گھر سے دور پیٹ پوجا کے لیے نکلے ہوے تھے اپنے پیاروں سے دور بہت درو یہ جانتے ہوے بھی کہ پچھے اتنے پیارے رشتے چھوڑ ایں ہیں_عاشی اپنے انسو پہ قابوں نہیں رکھ پائی
اس نے کہں پڑھا تھا
”غریبوں کے جہاں میں وقت بھی تھم تھم کے چلتا ہے
کبھی صبحیں نہیں ہوتی کبھی شامیں نہیں ہوتی”
حمنہ اب بھی اوازیں لگا رہی تھی عاشی جلد کرو اج تیسرا دن ھوگیا ہے عاشی ماضی سے واپس پلٹ ائی اور پھر سے تار جوڑنے لگی اور ساتھ ساتھ اسے اپنے بھائیوں سے دوری اسے مزید کمزور کیے جا رہی تھی وہ کبھی بہادر اور مضبوط ہوا کرتی تھی لیکن اج بلکل بے بس ہوگی تھی اور بھیا کا شاعر اسے ہمشہ نیا حوصلہ دے جاتا تھا اج بھی وہ شاعر یاد اگیا
اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام انا
اخر کار انتھک محنت کے بعد اس نے لائٹ سیٹ کر لی ادھر حمنہ چھوٹے بھیا کی کال سنتے ہوے مسکراتے ہوے عاشی کے کارنامے بتا رہی تھی
ادھر عاشی بھیا کی اواز سن کر سب کچھ بھول کر دوڑی چلی ائی اور چہرے کی مسکراہٹ دیکھ کر حمنہ نے دل ہی دل میں اپنے بہن بھائیوں کے لیے بہت ساری دعا کر ڈالی
اور ادھر فون پہ عاشی چھوٹے بھیا کی سرائیلی اواز میں پھر سے محبت سے سر شار اشعار سن رہی تھی
زمین پہ رہنا شاہین کو کہاں راس اتا ہے
یہ فضاسے جب بھی اے اداس اتا ہے
جب بھی بات ہو جاں سے گزر جانے کی نزیر
میرے ذہین میں فقط راشد منہاس اتا ہے
دشمنی کر کے دیکھ لو ہم سے

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress主题