کرائم آﺅٹ آف کنٹرول کیوں ۔۔؟

Published on March 30, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 212)      No Comments

تحریر:مہر سلطان محمود
بڑھتی ہوئی وارداتیں لٹتی عوام تماشادیکھ رہے ہیں قانون کی حکمرانی کا دعوی کرنے والے بڑے نام ،جیسے عدلیہ میں تاریخ پہ تاریخ دیکر نظام عدل کا تماشا بن چکاہے ایسے ہی باربار آنے والی سرکاریں اصلاحات کے نام پر عوام کے جان ومال سے کھلواڑ کرچکی ہیں تبدیلی سرکار بھی متعدد آئی جیز کی تبدیلی کے باوجود ابھی تک عوام الناس کو جرائم پیشہ افراد کے چنگل سے آزادی دلوانے میں مکمل ناکام ہے ۔صوبائی دارالحکومت سے لیکر پنجاب بھر میں ایک جیسی صورتحال ہے روزانہ کی بنیاد پر اخبارات و نیوز چینلز کرائم کی خبروں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں بعض دفعہ خود اپنا دل اکتاجاتاہے دیکھتے وپڑھتے ہوئے ۔پولیس ملازمین کے مسائل اور ان کی حقیقی قربانیاں دیکھ کر رشک کیساتھ ترس بھی آتاہے مگر انتہائی بدترین امن و امان کی صورتحال دیکھ کر حقیقت سے آنکھیں چرائی نہیں جاسکتی ہیں ۔امن وامان کوکنٹرول کرنے میں ناکامی کے پیچھے پالیسی سازوں کا مبینہ بھیانک کردار بھی روزروشن کی طرح عیاں ہے ۔ترقیاتی کاموں کا دائرہ کار صرف چند شہروں تک محدود کردینے اور آبادی کے تناسب سے روزگار کی عدم فراہمی ان بڑھتی ہوئی وارداتوں کا نتیجہ ہے اس کے بعد نمبرآتاہے پولیس کے منفی کردار کاجس سے اصل مجرم بچ جاتے ہیں اور پہلی بار یا مکمل بے گناہوں کو مجرم قرار دیکر سلاخوں کے پیچھے بھیج کر پرتشدد سلوک کیاجاتاہے آخر پر باری آتی ہے معاشرتی رویوں اور والدین کی تربیت کی جس میں اچھا خاصا فقدان ہے ۔تبدیلی سرکار کے حکومت میں آنے سے لیکر اب تک کاسرسری جائزہ لیاجائے تو مختصروحقیقی طور پر کرائم مکمل عروج پر ہے عوام الناس مکمل طور پر عدم تحفظ کا شکار ہیں صوبائی دارالحکومت لاہور کا کوئی پرسان حال نہیں ہے چھیناچھپٹی کے بعد دوران واردات فائرنگ کرکے ہمیشہ کیلئے اگلے جہان پہنچانااور اپاہج کرنا مکمل طور مذاق بن چکا ہے ملتی جلتی صورتحال باقی اضلاع سے خبروں کی صورت میں موصول ہوتی ہے منفی خبریت یا زاتی بغض کا عنصر بھی سامنے رکھاجائے تب بھی کرائم کی شرح کنٹرول سے کہیں ذیادہ ہے تمام آئی جیز وڈسٹرکٹ پولیس افیسر صاحبان ٹاﺅٹ سسٹم کی نفی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کچھ ڈی پی اوز کا کام واقعی ہی اس حوالے سے قابل تعریف بھی تھا مگر آج بھی ٹاﺅٹ سسٹم مضبوط ہے جو پولیس کی بہترین کارکردگی کو بھی اکثرلے ڈوبتاہے البتہ قبضہ مافیاءکے خلاف وزیراعظم کی زاتی دلچسپی کے بعد فیصلہ کن کاروائیاں بہت حوصلہ افزاءہیں اس حقیقت کے باوجود کے بعض بااثر افسران اس میں کسی نہ کسی طریقے سے ملوث تھے یہی قبضہ مافیاءکے لوگ خالی زمینوں پر قبضوں کاتک محدود نہیں رہتے ہیں بلکہ وہ دیگر وارداتوں میں بھی ملوث ہوتے ہیں ۔اب آتے ہیں اصل کہانی کی طرف تو ضلع قصور میں دن رات راہزنی ،چھیناچھپٹی اور ڈکیتی کی وارداتیں پچھلے چند ماہ سے عروج پر تھیں پولیس کی کارکردگی پر انتہائی سخت قسم کا سوالیہ نشان لگ چکا تھا لوگ نہ شاہراوں پر محفوظ نہ گھروں پر مسلح جھتوں کی شکل میں ڈاکوﺅں کی ٹولیاں لوٹ مار کے دوران فائرنگ کرکے زخمی وجان سے ماردینے کا کام باآسانی کرکے کامیابی کیساتھ فرار ہوجاتے تھے اور ہورہے ہیں ۔پولیس نے میڈیاءمیں شوروغوغاوعوامی احتجاج پر کچھ کارکردگی دکھائی کچھ ڈکیٹ گینگز کو پکڑ کر پریس کانفرنسیں کرڈالیں کچھ لوگوں کی ریکوریاں بھی ہوئیں جو کہ احسن اقدام تھا مگر سوال یہ پیدا ہوتاہے جب متعدد ڈکیت گینگز گرفتار ہورہے ہیں یا ہوچکے ہیں تب پھر اسی دوران ڈکیتی ،چوری اور راہزنی کی وارداتیں کون کررہاہے عوام الناس تو معمول کے مطابق جمع پونجی وجان سے ہاتھ دھورہے ہیں اسی دوران پولیس ملازمین کی قربانیاں بھی سامنے آتی ہیں دیکھنے والے تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں بولیں تو کیا بولیں اور لکھنے والے سوچتے ہیں کیا لکھیں قربانیاں اپنی جگہ پر انتہائی اہمیت کی حامل ہیں تو دوسری طرف پے درپے وارداتیں بھی سوالیہ نشان ہیں ؟یہاں پر ایک نقطہ بہت اہمیت کا حامل ہے ملزمان یا ڈکیت گینگز کے بارے میں مختلف تھوریاں عام طور پر زیر بحث ہوتی ہیں اکثر طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ گھروں یا شاہراہوں پر لوٹ مارکرنے والوں کی شناخت پریڈ سے آخر عوام کیوں گریز کرتی ہے آخر وہ کونساخوف ہے جو عوام کو ایسا کرنے باز رکھتاہے دوسرا کیا کہیں پولیس ان ملزمان کو رشوت لینے کے بعد جان بوجھ کر ان کو شناخت پریڈ سے بچاتی ہے تاکہ ان کوریلیف مل سکے ،میری کچھ ایس ایچ او صاحبان اور متعدد رینکس والے تفتیشی اہلکاروں سے جو واقعی بہت فرض شناس پولیس افیسر ہیں اس معاملے پر تفصیلی بات چیت ہوئی اس میں یہ دونوں عنصر اپنی اپنی جگہ پر اہمیت کے حامل ملے ہیں عوام عدم تحفظ کی بناءپر فرض شناص افسران کی محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں تو دوسری جانب پولیس کی جانب سے روایتی سستی ونااہلی کا مظاہرہ ملزمان کو ریلیف دیتاہے اس میں سیاستدانوں و پولیس ٹاﺅٹوں کا کردار مسلمہ حقیقت ہے ساتھ میں کم نفری ذیادہ علاقہ سہولیات کافقدان بھی شامل ہے۔ پولیس کی ناقدانہ کارکردگی کا جائزہ ضلع قصور کے ایک تھانے میں دفعہ 392 کامجرم پولیس کی طرف سے اخراج رپورٹ دینے کے بعد جیل سے باعزت رہاہوجاتاہے تو چند دن بعد وپولیس پھر دوبارہ باسط عرف باسطی گینگ کی لٹھ لیکر اس کے پیچھے ہوتی ہے جوکہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ان گینگز کے اراکین کا ٹریک ریکارڈ جن کو متعدد گینگز میں دکھایاجاتاہے چیک کیاجانا چاہیے اگر واقعی ہی یہ لوگ ریکارڈ یافتہ ہیں تب پھر ان کو سخت سزاکیوں نہیں ملتی بچاتاہے تو کون بچاتاہے اگر نہیں ہیں تب محض خانہ پری کرکے خود کو بچانے کے چکر میں کہیں کرائم خود ہی تو نہیں بڑھایاجارہے پالیسی سازوں کو اس بارے میںسنجیدگی کیساتھ سوچنا ہوگا نہ کہ لکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کرنے کا۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Blog