زندگی کی تلخ و شیریں حقیقتوںکا عکس ”بارِوفا“

Published on April 17, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 195)      No Comments


تحریر:رشید احمد نعیم
ریحانہ اعجاز بہت خوبصورت شخصیت کی مالک ہیں ۔خوش اخلاقی وخوش مزاجی اور عاجزی و ملنساری کی صفات نے ادبی حلقوں کو ان کا گرویدہ بنا رکھا ہے ۔ریحانہ اعجاز اس قدر باصلاحیت ہیں کہ ان کی کتاب پڑھ کر ایسے لگتا ہے کہ ا ن پہ خود بخود الفاظ کا نزول ہوتا ہے ۔ ریحانہ اعجاز زندگی کی تلخ و شیریں حقیقتوںکا عکس ”بارِوفا“ لکھ کر آسمان علم وادب پہ چمکنے لگیں ۔ریحانہ اعجاز ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک کانام ہے ۔معاشرتی برائیوں کی خوبصورت انداز میں نشاندہی کے فن میں مہارت رکھتی ہیںریحانہ اعجاز پاکستان کی سب سے بڑی ادبی تنظیم کشمیر رائٹرز فورم پاکستان کی مرکزی راہنما ہیں ۔ان کی خوبصورت تازہ ترین تخلیق” بار وفا “ نے ادبی حلقوں میں دھوم مچا رکھی ہے ۔ ہر طرف پسندیدگی کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ۔ان کی اس کتاب پہ مشہور رائٹر سباس گل لکھتی ہیں کہ ریحانہ اعجاز ایک پ±رخلوص ، ملنسار ، خوش اخلاق اور باصلاحیت شخصیت کا نام ہے۔ دعا دیتے ہیں لفظ میرے ، ا±س پیاری شاعرہ اور نثر نگار کو جو سہہ برگ سے بارِ وفا تک اتنی عاجزی سے چلی ہیں کہ یہ ان پہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم اور انعام ہے۔
عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اور اللہ اپنے صاف دل ، نیک نیت بندوں کو عزت ، چاہت ، اور پذیرائی انعام کے طور پر عطا فرماتا ہے۔
اور یہ عطا ” ریحانہ جی” پر جاری و ساری ہے ، ماشاءاللہ۔
بحیثیت دوست نہیں بلکہ ایک لکھاری کی نظر سے ہم نے ریحانہ جی کی نئی نثری تخلیق ” بارِ وفا” کا مطالعہ کیا ہے ، اور دو نشستوں میں یہ کتاب مکمل کر لی۔
اِس کتاب میں کتابت یعنی پروف ریڈنگ کی غلطیاں ہیں جو کہ اکثر کتابوں میں ہوتی ہیں مگر کہانیاں ایسی ہیں کہ آپ پڑھنے لگیں تو مکمل کیے بنا کتاب رکھنے کو دل نہ مانے۔
” دوراہا” اِس معاشرے میں سانس لیتی کہانی ہے۔ یہ غلطی ، یہ گناہ ہمارے معاشرے میں ناس±ور کی طرح پھیل رہا ہے۔جو ہماری اخلاقی قدروں کو پامال کر رہا ہے۔ریحانہ جی نے سنیعہ کے کردار کے ذریعے لڑکیوں اور شادی ش±دہ عورتوں کو ایک سبق، ایک عمدہ پیغام دیا ہے۔”
” رشتے کچھ احساس کے ” بھی ایک اخلاقی درس دیتا افسانہ ہے۔
” ع عورت م مرد” بہترین انداز میں عورت کی زندگی میں مرد کے رویئے اور لہجے کے سبب آنے والی تلخیوں کو بیان کرتی یہ کہانی بہت سے گھروں کی ہے۔
کہانی گھر گھر کی ، میرا تحفہ تم ہو بھی خوبصورت تحریریں ہیں۔
“نادان پرندے” میں بھی والدین کو اولاد پر نظر رکھنے ، ان کے مسائل کو سمجھنے کی تاکید کی گئی ہے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کس طرح نئی نسل کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہا ہے اس کہانی میں یہ بتایا گیا ہے ایک اچھا پیغام ہے سب کے لئے۔
” سب مایا ہے” میں توثیق حیدر کو دولت کمانے کے چکر میں رشتے پیچھے چھوڑ آنے کا احساسِ زیاں ، عمر کی ریٹائر اسٹیج پر ہوتا ہے جب وہ خود اولاد کے وقت ، توجہ اور محبت کے لئے ترستا ہے ، تب احساس ہوتا ہے کہ دولت ، پیسہ تو سب مایا ہے۔اصل چیز تو رشتے ہوتے ہیں۔
ا±س نے اس دولت اور ترقی کی دوڑ میں اپنے والدین اور خوبصورت، وفا شعار بیوی کو کھو دیا اور آخر میں اولاد کی توجہ اور وقت کو بھی۔
جس کے لئے ساری زندگی خود کو مصروف رکھا آج وہ اتنی مصروف تھی کہ اس کے پاس توثیق حیدر یعنی اپنے باپ کے لئے وقت نہیں تھا۔
” یہ بیٹیاں تو ماو¿ں کی رانیاں ہیں ” یومِ خواتین کے حوالے سے ایک عمدہ تحریر ہے۔
غرض یہ کہ ریحانہ جی کی ہر کہانی ایک مقصد ایک پیغام ، ایک سبق لئے ہوئے ہے۔
اور یہ سب ہمارے ہی معاشرے کی چلتی پھرتی، جیتی جاگتی کہانیاں ہیں۔
ہم نے بہت عرصے بعد کسی کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور بہت اچھا لگا ہے۔
کتاب میں گل ارباب ، اقبال بانو ، اور صائمہ اکرم چوہدری جیسی مستند لکھاری بہنوں کی رائے بھی شامِل ہے جو ریحانہ جی کے طرزِ تحریر کے عمدہ اور با مقصد ہونے کی دلیل بھی ہے۔
کتاب کا سرورق بہت شاندار ہے ۔ ہر کہانی اس سرورق سے جھانکتی نظر آتی ہے۔
ریحانہ جی خوبصورت کتاب کی اشاعت پر آپ کو ڈھیروں مبارکباد قبول ہو۔
اللہ تعالیٰ آپ کو مزید کامیابیوں سے نوازیں۔
تبصرہ نگار لبنیٰ شاہد اپنے تبصرے میں لکھتی ہیں کہ محبتوں سے لکھی کتاب اور چاہتوں سے بھجوائے گئے تحفے پہ کیا تبصرہ کروں ریحانہ جی۔۔۔ کتاب کا ٹائٹل ہی کئی کہانیاں کھول جاتا ہے۔ اس کتاب میں لکھے گئے تینوں ناولٹ یعنی “دوراہا “، “ع عورت م مرد “، “بار وفا “ ایسی کہانیاں ہیں جو آس پاس روز مرہ جیتی جاگتی نظر آتی ہیں۔ دوراہا خاص طور پر قابل تعریف ہے کہ جس میں کہانی کی ہیروئن اپنی نفسانی خواہش پہ بہکی نہیں۔ اللہ نے ہر عورت میں یہ خوبی رکھی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ بھی کر لیتی ہے دوراہا اور بار وفا میں وہی عورت دکھائی دی۔
عام زندگی کو موضوع سخن بنانا ہر انسان کے بس میں نہیں۔۔۔ تخیلاتی کہانیاں لکھنا الگ بات ہے۔۔۔
محبت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر وہ کہانی جو ایک عورت یا ایک مرد کی معاشرتی عکاسی کرتا ہے اس پہ لکھنا الگ بات ہے جیسے “ع عورت م مرد “۔۔۔
آپ کے افسانے عمدہ ہیں۔۔۔ “رشتے کچھ احساس کے “، “ سب مایا ہے “ ، “میرا تحفہ تم ہو “،”کہانی گھر گھر کی “ یہ بیٹیاں تو ماو¿ں کی رانیاں ہیں “
مجھے “نادان پرندے “نے بہت متاثر کیا جس میں دکھائے گئے لڑکے کا فسانہ جو کچھ غلط لوگوں کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور پھر اس کے والد اسے کیسے اس چنگل سے آزاد کرواتے ہیں سچ ہے کہ ایسی مشکلات کا سامنا صرف لڑکیوں کو نہیں کرنا پڑتا کچھ لڑکے بھی اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔۔۔ آپ یقین کیجیے ریحانہ جی کہ ایسی طرز کی کہانیوں سے کسی نہ کسی پڑھنے والے تک کچھ اچھا پیغام ہی پہنچتا ہے۔۔۔
ہر رائٹر کا اپنا مخصوص انداز ہوتا ہے جو اسے باقیوں میں ممتاز کرتا ہے مجھے آپ کی کہانیوں کا سادہ اسلوب اور ناصحانہ انداز متاثر کرتا ہے کہ عام قاری بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
یونہی اچھا اچھا لکھتی رہیے تاکہ قارئین تک اچھا تخیل پہنچتا رہے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ اسی طرح مشہور ادیب رخسانہ افضل کا تبصرہ بھی بہت خوبصورت ہے ۔ رخسانہ افضل لکھتی ہیں کہ
باروفا میری پیاری دوست ریحانہ کی بہت خوبصورت کتاب۔۔۔
مصروفیت کی وجہ سے تھوڑی لیٹ ہو گئی باروفا پہ لکھنے سے کیوں کہ پڑھتی تو ہی لکھتی ناں
خیر ہم اب سرخرو ہوئے
رواں اور خوبصورت تسلسل کی حامل تحریریں، یوں لگتا ہے کہ سچی تحریریں ہیں، ہمارے آس پاس یہی سب تو ہورہا ہے غضب کا مشاہدہ لکھاری کا
پہلا ناولٹ دوراہا
ایک مشرقی لڑکی کی کہانی جس نے ماں باپ کی رضا پہ سر جھکا دیا مگر جب ماضی کی محبت سامنے آئی تو کچھ پل کے لئے وہ بہک گئی مگر پھر آخر ایک ماں اور بیوی جیت گئی ، رشتوں کی حرمت کا پاس عورت کی ذمہ داری ہے کبھی کبھی اک ذرا سی لغزش صدیوں کے پچھتاوے دے جاتی ہے!!
باروفا صرف عورت کے نازک شانوں پہ ہی ہے اور اسے ہی نبھانا ہے
دوسرا ناولٹ ع عورت م مرد
یہ تو گھر گھر کی کہانی ہے
ایک الجھے مرد کی کہانی ہے جو باپ کو ماں پہ چلاتے دیکھتا ہے تو کہتا ہے میں ایسا سلوک نہیں کروں گا اپنی بیوی سے، دوسری طرف دوستوں کی کہی باتوں کی روشنی میں اپنی منگیتر کاامتحان لیتا ہے، پڑھا لکھا جاہل مرد۔۔
یعنی کہ مرد اپنے گریبان میں نہیں جھانکے گا کبھی مگر عورت کا امتحان راہ چلتوں کی بات سن کے بھی لے گا
تیسرا ناول بار وفا
بہت خوبصورتی سے مرد کی خو واضح کی گئی کہ من مانی کے لئے کوئی بہانہ بھی ہو تو مرد پھر بھی وجہ ڈھونڈھ لیتا ہے
عورت کی کوئی خوبی مرد کے پاوں کی زنجیر نہیں بنتی
کہانی گھر گھر کی میں بھی ایک معاشرتی المیہ کی نشان دہی کی گئی
میرا تحفہ تم ہو
نادان پرندے
رشتے کچھ احساس کے
سب مایا ہے
یہ بیٹیاں تو ماوں کی رانیاں ہیں
مختصر اور سبق آموز افسانے، ہر افسانہ ایک پیغام لئے ہوئے ہے
تمام تحریریں اصلاحی اور معاشرتی پہلو سے جاندار ہیں پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ ارے یہ کہانی تو ہمارے آس پاس کی ہی لکھ دی ریحانہ نے
لیکن یہ سچ ہے کہ باروفا کا تمام وزن صرف عورت کے نازک کاندھوں پہ ہی دھرا ہے اور وہی نبھاتی ہے وفائیں۔۔
ریحانہ کی تحریروں میں ایک تازگی ہے، سوچ ہے، پیغام ہے کیلگری۔کینیڈاسے تبصرہ نگارمونا شہزاد لکھتی ہیں کہ پیاری دوست ریحانہ اعجاز کی کتاب میں دھیرے دھیرے لطف لے کر پڑھ رہی ہوں۔میری پیاری دوست نے مجھے کینیڈا تک یہ بے مثال تحفہ بھیجا۔دل تھا کہ کتاب ختم کرکے ہی کچھ اس کے متعلق لکھوں گی مگر رہا نہیں گیا۔ جس طرح باغ میں پھولوں کی مختلف اقسام ہوتی ہیں، اسی طرح ہر لکھاری میں کوئی چیز دوسرے سے الگ اور منفرد ضرور ہوتی ہے۔ ریحانہ اعجاز آج کی مصنفہ ہیں، ان کا انداز بیان سادہ اور بے ساختہ ہے۔ میں اب تک بار وفا میں سے تین ناولٹ پڑھ چکی ہوں اور تینوں ہی مجھے پسند آئے۔
“دوراہا” ایک ایسی دوشیزہ کی کہانی ہے جو والدین کی رضا میں راضی ہوکر بیاہ کر پیا آنگن میں تو آگئی تھی مگر یہ بھول گئی تھی کہ ماضی کبھی بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔اسد اس کا ماضی تھا اور آفتاب اس کا حال تھا۔سنعیہ ماں ہوتے ہوئے یہ بھول گئی کہ شوہر کو تو دوسری بیوی مل جاتی ہے مگر بچوں کو ماں کبھی نہیں ملتی۔ ریحانہ نے بہت خوبی سے سنعیہ کے دل کی واردات قلمبند کرتے ہوئے آخیر میں یہ ثابت کردیا کہ مشرقی عورت شادی کے بعد چاہے من چاہے عاشق کے جھانسے میں آکر شوہر کو فراموش کرنا بھی چاہے تب بھی جیت ہمیشہ اس کی پاکبازی کی ہوتی ہے۔سنعیہ بیوی اور ماں ہوتے ہوئے جیت گئی اور اس نے ماضی کا در سختی سے بند کرکے اس پر قفل لگا دیا۔ یہ سچ ہے کہ نامحرم کی محبت دنیا میں ذلت و رسوائی کا سامان ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی تباہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔
دوسرا ناولٹ “ع عورت م مرد” بھی ایک حقائق پر مبنی تحریر تھی۔ میاں بیوی کی محبت کی بنیاد اعتماد نامی اینٹ پر رکھی جاتی ہے۔ جس رشتے کی ابتدا ہی شکوک و شبہات سے ہو اس میں محبت کا تاج محل کہاں بن پاتا ہے؟ ایک اندھیری کھائی میں شکوک و شبہات کے کوڑیالے ناگوں کے بیچ ہی زندگی بے سائبانی میں گزر جاتی ہے۔سلمی گناہگار نا ہوتے ہوئے بھی ایک مجرم کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھی۔ آصف کی تنگ ذہنی اور شکی طبیعت نے ان کی شادی شدہ زندگی کو صحرا میں تبدیل کردیا تھا۔ سلمی ایک ملاقات کی خطاوار تھی مگر وہ ملاقات اس کے نصیب کے چاند پر گرہن لگا گئی تھی۔ ہمارے معاشرے کا مرد کس قدر دوغلا ہے ، جو منگیتر کو خود دھونس زبردستی کرکے بلاتا ہے اور خود ہی اس ملاقات کو اس کی بدچلنی کا سرٹیفیکیٹ بنا کر مشہور کردیتا ہے۔ کیسا عجب دوغلا پن ہے کہ وہ مرد خود تو اس ملاقات کے بعد بھی خود کو پارسا کہتا ہے جب کہ اس کی منگیتر بیوی بن کر تاعمر ناکردہ گناہوں کا بوجھ سر پر لادھے نادم و شرمسار اس کے سامنے سرنگوں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔
تیسرا ناولٹ “بار وفا” ایک ایسی محبت کی ادھوری کہانی ہے جس نے سچ ثابت کردیا کہ لاعلمی ایک نعمت ہوتی ہے۔ثنا کی زندگی میں اٹھنے والا طوفان اس کی آگاہی سے مشروط تھا۔
مجھے ناولٹ میں سے یہ اقتباس بہت پسند آیا۔
“کیا خوشیاں کبھی بھی دائمی ہوتی ہیں؟
کیا کوئی سپنا بنا دکھ کے مکمل ہوتا ہے؟
کیا ایسا ممکن نہیں کہ دل سدا خوشیوں کے ہنڈولے میں ہی جھولتا رہے اور عمر بیت جائے؟”
واہ ! بہت ہی خوبصورت خیال۔
میری دعا ہے کہ پیاری دوست اللہ تعالی آپ کے زور قلم میں مزید اضافہ فرمائے اور آپ کی مزید کئی کتب قارئین کے دلوں پر جادو چلاتی رہیں۔
ممتاز تبصرہ نگارمسرت کلانچوی لکھتی ہیں کہ بہت خوب صورت ناول اور افسانے جو آغاز میں ہی انسان کی توجہ اور دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔ان میں ہر کسی کو اپنے دکھ سکھ اور اپنے مسائل کا عکس نظر آتا ہے۔یہ تحریریں زندگی سے جڑی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ایک عورت کے جذبات اور اس کے جیون کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔زندگی کی تلخ و شیریں حقیقیتں اپنے ہر روپ اور ہر عکس میں نمایاں ہوتی ہیں۔ میں اس کتاب کی اشاعت پر آپ کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔جیتی رہیں خوش رہیں۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Themes