میڈیا کا کردار

Published on April 6, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 423)      No Comments

Sada
اسلامی نقطہ نظر اس وقت بالعموم دو قسم کے زرائع ابلاغ معروف ہیں ایک طباعتی زرائع ابلاغ ( پرنٹ میڈیا ) سے جانا جاتا ہے جبکہ دوسرا برقیاتی زرائع ابلاغ جسے ( الیکٹرنک میڈیا ) کہا جاتا ہے دوسرے زرائع ابلاغ کو قومی سطع پر اتعمال کیا جاتا ہیاس لیے اسے قومی زرائع ابلاغ کا نام بھی دیا جاتا ہے تیسری قسم مخصوص خطہ ارض یا جغرافیائی حدود سے پرے بین القومی زرائع ابلاغ کی ہے جسے بین الاقومی زرائع ابلا کہا جاتا ہے اور انہیں مسائل کی نشر اشاعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے زرائع ابلاغ کی یہ تینوں قسمیں جو علاقائی ، قومی اور بین الاقوامی سطع پر استعمال کیں جاتیں ہیں یہ کہ مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے یہ استعمال ہاتا ہے میڈیا پر جس طبقے کا غلبہ ہوتا ہے تا جو بر سرائے اقتدار حکومت ہوتی ہے وہ بہر حال تعصب و جانب داری کی دلدل سے نہیں نکل پاتی اور بھر اس کے مثبت اثرات و نتائیج مجروح ہونے سے بچ نہیں پاتے۔انسانوں کے درمیان انتشار پیدا کرنا عوم و خوآ کو بغاوت اور نا فرمانی پر ابھاراناعوام و خواص میں راہنمایاں قوم کے متعلق شکوک شبہات کو فروغ دینا مستحکم قیادت سے محروم کرنے کی کوشش کرنا فرقہ واریت کے جذبے کو شہہ دینا واقعایات کو توڑ پھوڑ کر پیش کرکے عوام کو گمراہ کرنااور ان کے خلاف شان حر کتوں پر مجبور کرنا دوسروں کے محاسن کو بالائے طاق رکھنا اور ان پر دیبز پردے ڈالنے کی کوشش کرنانااہل اور نالائق افراد اور جماعتوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قابلے ملا دینا معمولی خامیوں اور کمزوریوں کو نمایاں پیش کر نا اصل مطللوب امور مسائل کی بجائے جزائیات اور غیر ضروری امور پر توجہ مرکوز کرنا ۔ذرائع ابلاغ کے تما م ذرائع انتہائی مذموم ہیں ایک طرف فخاشی اور عریانیت ، انسانی قدروں کی پامالی اور اخلاقی سوز اور حرکتیں انسانی معاشرے میں ان مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے جاری اور ساری ہو جاتیں ہیں اور دوسری طرف امن اور چین سے معاشرہ محروم ہو جاتا ہے عزت و آبرو داؤ پر لگ جاتے ہیں ان کی سر گرمی کے نتیجے میں بہت سے افراد اور جماعتیں بھی ان برائیوں کے نقیب بن کر میدان عمل میں آجاتیں ہیں۔ذرائع ابلاغ جو بسا اوقات خقائق و معارف کو توڑ موڑ کر پیش کرتے ہیں انسانوں کی عزت کو داؤ پر لگا دیتے ہیں فتنہ اور فساد کو فروغ دیتے ہیں یہاں تک کہ قتل اور خون ریزی تک نوبت آ جاتی ہے ملک و قوم کی امن و آتشی مخدوش پر خطر بن جاتی ہے آخر ان کے اس حد تک بے لگام ہونے کا کیا معنی ہے کیوں انہیں ان کے لیے حدود متعین کی جاتیں ہیں اور ایک حد تک انھیں کیوں پابند نہیں کیا جاتا ۔افراد اور اشخاص بہت حد تک مختاط رہیں گے انہیں افراد اور جماعتوں کی عزت اور آبرو کا خیال ہو گا اور ملک اور قوم کی سلامتی کے لیے بھی فکر مند ہوں گئے کم از کم اس قسم کی کاروائی کے ذریعے افواہوں کو ہوا دے کر معاشرے کا ماحول مکدر کرنے سے یقینی طور پر زرائع ابلاغ کے زمہ داران گریزاں ہوں گے اور بالآخر بڑی حد تک میڈیا میں شفافیت آئے گی اس مقصد کے حصول کے لیے ذرائع اطلاعات و نشریات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے عدلیہ ہی اس سلسلے میں تعزیرات کے نفاد کے موثر اور قابل ستائیش رول ادا کر سکتی ہے کیوں کہ ذرائع اور رسال و نشریات بالعموم حکومت وقت کے اشاریابرو پر سر گرم عمل رہتے ہیں۔آج قومی اور بین الاقوامی میڈیا کا مرکز توجہ اسلام اور مسلمان ہیں بین الاقوامی میڈیا پر اپنا تسلط جمانے والے اصحاب حل و عقد آج اس مشن میں محو مستغرق ہیں کہ اسلام کو دنیا سے نست نمود کر دیا جائے اور ایسے اسلام کو باقی رکھا جائے جو دنیا میں بے حس و حرکت معذور اور مجبور بن کر رہے جن کے نام لیوا زندہ تو رہیں لیکن انسدادشروفتنہ ، قیام امن گھر میں خدا کے قانون کے نفاذ اور صرف اور صرف ایک خدا کی خدائی کے علم بردار بن کر اور دوسرے مذاہب و قوم کے علی الرغم اپنی سمت سفر متعین نہ کریں۔ان درخشاں تعلیمات کے باوجود اگر اسلام کو انسانیت کا دشمن قراردیا جائے اور اس دین و مذہب کو خونخواری سے منسوب کیا جائے تو اس سے بڑی بد دیانتی اور بے حیائی کیا ہو سکتی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ آج بین الاقوامی سطع پر اسلام کی شبہیہ بگاڑنے کی سعی نا مشکور کی جا رہی ہے اسلام کو انتہا پسندی ، خونخواری اور دہشت گردی سے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کو امن اور آتشیکا دشمن اور دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے میڈیا کے نزدیک جو جتنا صیح العقیدہ اور پختہ مسلمان ہے وہ اتنا ہی بڑ دہشت گرد ہے اور جو مصالحت ، مفاد پرستی اور ابن الوقتی کا ثبوت دے کر وقتاََ فوقتاََاپنے موقفکو بدلتا رہتا ہے وہ پسند دیدہ اور مخبوب ہے اور اسے سیکولر ہونے کا تمغہ بھی دیا جاتا ہے دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے جس اسلام سے امن آشنی کے جھوٹے دعوے داروں اور اقتدار کے متوالوں کو خطرہ ہے وہ دراصل انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے اور جس اسلام سے من مانی کرنے والوں خود ساختہ قوانین کو نافد کرنے والوں اقتدار کے پجاریوں کو خطرہ نہیں ہے اور ان کے زاتی گروہی اور ملکی مفادات مجروح نہیں ہوتے اور اسلام انہین مخبوب ہے اور ایسے ہی مسلمان ان کے معیار پر پورا اترتے ہیں ۔نیکی اور صالحیت کے لیے آمادہ کرنے والی مہتم بالشان چیز تقوی یا خوف خدا ہے یہ خوف خدا زبر دست ضابطے اور حکمران کی حیثیت رکھتا ہے معاشرے کی کوئی روایات ، حکومت کا کوئی ضابطہ اور پولیس کا کوئی ڈنڈا آبادی میں ، روشنی میں ، چوراہوں اور شاہراہوں پر تو کام کرتا ہے لیکن آبادی سے دور کسی صحرا اور کسی ویرانے میں ، بند کمرے میں ، مخصوص چار دیواری کے اندر یا رات کے مہیب و خطر تاریکی میں صرف اور صرف تقوی کا قانون کا م کرتا ہے اگر انسان کے قلب اور ضمیر پر خدا کی حکمرانی ہو جائے تو انسان راست رو ، اعتدال پسند ، اور ہر معاملہ ذندگی میں اپنے خالق حقیقی کی مرضی کا تابع بن جاتا ہے اور افراد اوت معاشرہ جو اس قانون کی عظمت کا علم بردار بن جاتا ہے اور اللہ کی نظر میں صیح معنوں میں مکرم اور معزز ہو جاتا ہے

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Themes