مجسٹریٹ درجہ اول

Published on August 12, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 359)      No Comments

تحریر ایم ایس مہر
کسی ٹیچر کو وقت_ ضرورت مجسٹریٹ درجہ اول کا اختیار دینا ایسے ہی ہے جیسے ہوس کے لمحات میں تماش بین کا کسی طوائف کو بیوی کا درجہ دینا۔ کچھ دن پہلے الیکشن ٹریننگ کے دوران میں بھی یہ الفاظ سنے کہ آپ کو 25 جولائی الیکشن والے دن مجسٹریٹ بنایا جائے گا۔آپ کو گارڈز ملیں گے۔گاڑی ملے گی افسر بننے کا شوق کسے نہیں ہوتا۔ ِخوشی سے گھر آیا۔گھر والوں کو بتایا کہ الیکشن والے دن مجھے مجسٹریٹ کا پروٹوکول ملنا۔سب بہت خوش ہوئے۔ماں کی آنکھوں میں عجیب چمک دیکھی۔ گھر والوں نے خوشی میں مجسٹریٹ صاحب کا نیا سوٹ دلوایا اور ایک ہفتہ پہلے ہی استری کر کے لٹکا دیا۔ الیکشن سے ایک دن پہلے صبح کال آئی کہ مجسٹریٹ صاحب آ کے اپنا سامان وصول کریں۔ خوشی خوشی تیار ہو کے وہاں پہنچا تو دیکھا میجسٹریٹوں کی لمبی قطار دھوپ میں کھڑی ہے۔ میں بھی جا کے قطار میں کھڑا ہو گیا۔ دھوپ میں 5 گھنٹے انتظار کرنے کے بعد باری آئی تو سامان تھما دیا گیا اور کہا گیا کہ باہر جا کے فلاں گاڑی میں بیٹھ جاوئ۔ کمزور سا مجسٹریٹ بڑی مشکل سامان گھسیٹتے ہوئے گاڑی تک گیا تو ڈرائیور نے کہا ” چل پج اے گڈی پہلے فل اے”۔ بے بسی میں سامان اٹھائے ساری گاڑیوں میں جگہ ڈھونڈتا رہا۔ آخر کار ایک گاڑی میں سامان رکھ لیا گیا کیونکہ کوئی خالی سیٹ نہیں تھی تو مجسٹریٹ صاحب کو سامان کے اوپر بٹھا دیا گیا۔ تب ایسے ہی لگا جیسے مجھے چڑیا گھر میں لے کے جا رہے۔ متعلقہ پولنگ اسٹیشن پہنچا تو وہاں سکول میں بنچ پہ کافی عرصہ سکتے میں بیٹھا رہا۔ صبح کا بھوکا مجسٹریٹ رات کو اس گا¶ں کی گلیوں میں پھرتا رہا۔ ایک دو لوگوں کو خود بتایا کہ میں اس اسٹیشن کا انچارج ہوں۔ مگر کسی نے نہ کھانے کی صلح ماری نہ چارپائی کی۔ خیر ایک دکان پہ گیا بسکٹ کھائے تو افاقہ ہوا۔ گلی میں ایک دروازے میں کھڑے بچے سے کہا چارپائی لا دو۔ تو وہ دے گیا۔ رات آسمان کو دیکھتے گزر گئی۔ صبح ہوئی۔واش روم میں پڑے لوٹے سے غسل کیا۔نیا سوٹ اتار کے پرانا پہن لیا۔ عملہ حاضر ہوا تو 8 بجے بیلٹ پیپر کھولے۔ عملے میں موجود کافی افراد نے کہا کہ ہم کے ٹریننگ نہیں کی۔ دو گھنٹے ان میں بیٹھ کے خود کام کیا۔ شام کو پولنگ کا عمل ختم ہوا تو سارے عملے نے پیسوں کی رٹ لگانی شروع کر دی۔ مجسٹریٹ صاحب نے بہت منت سماج کی کہ میرے ساتھ کام کروا دو۔ مگر وہ ہٹ دھرمی پہ بضد رہے۔ ان کو معاوضہ دیا تو سب رفو چکر ہو گئے۔ رات 12 بجے تک ایمانداری سے رزلٹ بنا کے پولنگ ایجنٹس کو دیا۔ اتنے میں گاڑی کا ڈرائیور آ گیا۔ اس نے مجسٹریٹ کو ڈانٹا کہ کب سے سب لوگ گاڑی میں تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ اس سے ڈانٹ کھاتے ہوئے ایک گھنٹے میں سامان پیک کر کے گاڑی میں آیا۔ جگہ خالی نہیں تھی۔ ڈرائیور نے کہا گاڑی کے پیچھے لٹک جا۔ مگر بارش ہو رہی تھی اس لیے مجسٹریٹ صاحب کو گاڑی میں پڑے خالی بیلٹ باکس میں بیٹھا دیا گیا۔ رات 2 بجے ریٹرننگ آفیسر کے دفتر پہنچا تو کہا گیا کہ سبز تھیلا فلاں کاونٹر پہ جمع کرواوئ۔ دو گھنٹے قطار میں کھڑا ہونے کے بعد جب دھکم پیل میں کاونٹر تک گیا تو وہاں موجود عدالت کے چپڑاسی نے تھیلا اٹھا کے مجسٹریٹ کے سینے پہ مارا کی تھیلے پہ سیل ٹھیک لگا لے لاوئ۔ تھیلے کے وزن سے مجسٹریٹ دوسرے میجسٹریٹوں پہ جا گرا۔ دماغ سن ہو گیا۔ تھیلا گھسیٹتے ہوئے دور جا بیٹھا۔ فجر کی اذان ہو رہی تھی۔ ایک فوجی سے درخواست کی کہ تھیلے کو سیل لگا دو۔ پھر لائن میں لگ گیا۔ دو گھنٹے بعد باری آئی تو ایک تھیلا جمع ہوا۔ پھر دو گھنٹے کی ذلالت سے دوسرا تھیلا جمع ہوا۔ 8 بج گئے۔ اب جج صاحب کو رزلٹ جمع کروانا تھا۔ 4 گھنٹے دھوپ میں کھڑا ہونے کے بعد باری آئی۔ اندر گیا تو کم عمر سے جج صاحب میجسٹریٹوں کو ڈانٹ رہے ہو۔ میں جا کے رزلٹ پکڑایا تو کہنے لگے تم بھی ٹیچر ہو؟ جی سر۔ تو جج بولے ٹیچرز ہوتے ہی جاہل۔ بولے تم نے امیدواروں کے نام ترتیب سے نہیں لکھے۔ دوبارہ لکھ کے لاوئ۔ کافی ڈانٹ پڑی۔ خود کی ہوش نہ رہی۔ اسی دوران خوف اور رش میں بیگ گم ہو گیا۔ اس میں مجسٹریٹ صاحب کا نیا سوٹ بھی تھا۔ شام ہو گئی۔رزلٹ جمع ہوا۔ عدالت سے باہر آ کے نہر کے کنارے بیٹھ گیا۔ جیب سے معاوضے والے پیسے نکال کے دیکھے۔ تب ایسا لگا جیسے میں مزدور تھا جس نےساری رات سامان ڈھو کہ پیسے کمائے۔میجسٹریٹ صاحب نے بھی گھر کے لیے آم خریدے۔ شام کو گھر آیا تو ماں جی نے منہ چوم کے ساتھ لگایا تو سکون ملا۔ ماں جی نے بتایا میں دعائیں کرتی رہی۔ اور منت بھی مانگی کہ میرا مجسٹریٹ خیریت سے گھر آ جائے تو نیاز بانٹوں گی۔ شاید اسی وجہ سے میں زندہ لوٹ آآیا۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Themes