دوقومی نظریہ کیا ہوا۔۔؟

Published on August 12, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 227)      No Comments

سیدعارف سعید بخاری
الحمد للہ !دوقومی نظرئیے کی بنیاد پر بنے والی مسلم ریاست ”پاکستان “آج74برس کی ہوگئی ہے ۔برصغیر پرمسلمانوں نے 1000سال سے زائد عرصہ حکومت کی ،بلکہ بادشاہت کی ۔مسلم حکمرانوں کی تاریخ جرات،شجاعت و بہادری کے کارناموں سے بھری پڑی ہے ۔انہوں نے اپنے دور حکومت میں وہ وہ تاریخی کارنامے سرانجام دئیے کہ جن کی مثال مستقبل قریب میں کہیں نہیں ملتی ۔لیکن بدقسمتی سے فرنگی سامراج نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کو ان کے جوش اور جذبے کیوجہ سے کسی بھی محاذ پرشکست دینا ان کے بس میں نہیں تو انہوں نے تجارت کے بہانے اس خطے پر قبضہ جمانے کی سازشوں کا سلسلہ شروع کیا ۔فرنگیوں نے مسلم حکمرانوں کے طرزِ زندگی اور ان کی ذہنی حالت و جسمانی خواہشات کا مشاہدہ کیا ۔بالآخر انہوں نے وہ راز پا لیا کہ جس کے ذریعے وہ بر صغیر پر حکمرانی کر سکتے تھے ۔اپنے ناپاک منصوبے کو پروان چڑھانے کے لیے فرنگیوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مسلمانوں کو رقص وسروداور شراب و شباب کی جانب راغب کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔مغل بادشاہوں کے اردگرد ایسے لوگوں کو اکٹھا کر دیا گیا کہ جن کا مقصد فرنگی سازشوں کی راہ ہموار کرنا تھا ۔ان میں ہی بہت سے لوگ مار آستین تھے کہ جو فرنگیوں سے انعام و اکرام کے لالچ میں مسلم حکمرانوں اور ان کے حواریوں کےلئے شراب و شباب کی محفلوں کا اہتمام کرتے ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان لوگوں کی زندگی عیش و طرب میںگم ہو کر رہ گئی ۔مسلم حکمرانوں کی عیاشیوں نے فرنگیوں کو ان کے مقاصد کے حصول میں آسانیاں پیدا کیں ۔جو مقاصدمسلمانوں کے ساتھ جنگ و جدل سے بھی پانااممکن نہ تھاوہ انہوں نے انہیںعیاشیوں پر لگا کر انتہائی آرام و اطمینان کے ساتھ حاصل کر لیے ۔لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا تو مسلمانوں میں بیداری آئی ۔برصغیر میں مسلم اور ہندو دو قومیں ہی اکثریت میں تھی ۔علامہ اقبال ؒ نے مسلمانوں کے لئے الگ ریاست کاجو خواب دیکھا تھا اسے دیگر مسلم قائدین نے تعبیر دی ۔یوں تومسلمانوں کے علیحدہ وطن کی جدوجہد کا آغاز 1906ءمیں ہوا تھا لیکن رفتہ رفتہ تحریک میں شدت آتی گئی ۔علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ نے خاکسار تحریک جبکہ مولانا عطا ءاللہ شاہ بخاری ؒ نے مجلس احرار قائم کی ،مولانا ابوالکلام آزادؒ ،سرسید احمدخان ؒ اور دیگر بہت سے مسلم قائدین علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کے مشن میں شریک رہے ۔گو کہ علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ فرنگیوں کے” تقسیم ہند فارمولے “کے خلاف تھے ۔علامہ مشرقیؒ کا کہنا تھا کہ برصغیر پر چونکہ طویل عرصہ مسلمان ہی حکومت کرتے رہے ہیں اس لئے اس خطے پر مسلمانوں کا ہی حق ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ طویل فاصلے کی بناءپرمشرقی اور مغربی پاکستان کی صورت میں بننے والی ریاست محفوظ نہیں رہ سکتی ۔انہوں نے پیشن گوئی بھی کی تھی کہ آئندہ بیس برسوں میںمشرقی پاکستان ہم نے الگ ہو جائے گا ،وقت نے ثابت کیا کہ انہوں نے درست پیشنگوئی کی تھی ۔وہ کہا کرتے تھے کہ ”جب تک دہلی کے لال قلعے پر اسلامی پرچم نہیں لہرائے گا، پاکستان محفوظ نہیں ہو سکتا ۔“فرنگی سامراج نے برصغیر کے مسلمانوں سے یہ زیادتی کی کہ وہ جاتے جاتے خطے کی غلط تقسیم کر گیا اور خطے کا ایک وسیع رقبہ ہندو¿وں کو تحفتاً دے گیا ۔جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ برصغیر مسلمانوں کا تھا اس لئے یہ سارا علاقہ انہیں ہی واپس ملنا چاہئے تھا ۔لیکن ایسا نہ ہوا ۔19مارچ1940ءکو جب خاکساروں نے فرنگیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ۔۔313خاکسار بیلچے اٹھائے سڑکوں پر آگئے تو فرنگی کو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ اب اس خطے سے اس کا جانا ٹھہر گیا ہے ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 23مارچ 1940ءکو منٹو پارک لاہور میں ہونےوالے مسلم لیگ کے اجلاس میں ”قرارداد مقاصد “منظورکرائی گئی ۔اور مزید 7سال کی جدوجہد کے بعد پاکستان قائم ہو گیا ۔لیکن قیام پاکستان کے مقاصد آج تک پورے نہ کئے جا سکے ۔دوقومی نظرئیے پر بننے والے ملک میں آباد قبائیل میں اپنے اپنے نظریات کی جنگ شروع ہو گئی ۔لسانیت ،صوبائیت ،علاقائیت ،فرقہ وارانہ تعصبات اور دیگر متعصبانہ نظریات کو ہوا دی جانے لگی ۔تقریباً 20برس بعد ہماری ہی عاقبت نااندیشانہ سوچ و فکر اور نادانیوں نے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کر دیا ۔ہمارا ایک بازو ہم سے کٹ گیا لیکن آج 50برس گذرنے کے باوجود ہمارے حکمرانوں سمیت خود ہمارے اندر کوئی غیرت نہیں جاگی ۔بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک رفتہ رفتہ وسعت پا رہی ہے ،ہماری صفوں میں ہی موجود لوگ بھارتی سرپرستی میں اس صوبے کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازش میں حصے دار بنے ہوئے ہیں ۔زبان و نسل کی بنیاد پر ہم ملک کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے درپے ہیں ۔گویا ہم وفاق کو بے دست و پا کردینا چاہتے ہیں ۔یہ وقت تعصبات کو ہوا دینے کا نہیں۔آج یوم آزادی مناتے وقت ہمیں پاکستان بنانے کے لیے اپنے آباو¿ اجداد کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ہم نے پاکستان بنانے کے لئے اپنی عصمتوں تک کی قربانی دی ہے ۔یہ وطن کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا ۔ہمیں چاہئے کہ ہم تحریک آزادی کے بارے میں تاریخی حقائق سے آگاہی حاصل کریں اور قوم کے نونہالوں اور مستقبل کے معماروں کو بھی جدوجہد آزادی کے اسرار و رموز سے روشناس کرائیں ۔ہمارا طرز زندگی ،ہماری سوچ و فکر آزادی کی قدر سے بے نیاز ہو چکی ۔ہم سب اپنی اپنی دھن میں سرپٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں ۔ہمیں آزادی کی قدر وقیمت کا اندازہ ہی نہیں ۔ہم نے آزادی کا مطلب شائد مادر پدر آزادی ہی سمجھا ہے ۔اور ہماری موجود روش نے ساری قوم کو مایوسی اور اضطراب سے دوچار کر رکھا ہے ۔ہمارے بزرگ آئندہ نسلوں کے مستقبل سے پریشان و بیزار ہو چکے ۔ماضی کی سبھی اخلاقی و سماجی قدریں ناپید ہو چکی ہیں ۔خاندانی نظام بھی نفسا نفسی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے ۔ہمارے بزرگ ،ہمارے والدین اس آزاد دیس میں عزت و تکریم کے اس جذبے کو ترس رہے ہیں کہ جو ماضی میں مسلم اُمہ کا خاصا ہوا کرتا تھا ۔ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ دو قومی نظریہ ہم بھلا چکے ۔آج اسلامی تعلیمات کے مطابق جو اصول و ضوابط ہمیں اپنانا چاہئے تھے ،وہ یہود و نصاریٰ نے اپنا رکھے ہیں ۔آج مغربی ممالک اسلام میں وضع کی گئی اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں کو اپنے ملکوں میں لاگو کئے ہوئے ہیں ۔جب کہ ہم آدھا تیتر آدھا بیٹر کے مصداق ۔۔۔۔ایک عجب نظام حیات چلا رہے ہیں کہ جس میں ہر دوسرا فرد پریشان ہے ۔حق وانصاف ناپید ہے ،ملک میں قتل وغارت گری ،اجتماعی زیادتیوں اور لوٹ کھسوٹ کے ایسے ایسے واقعات روزکا معمول بن چکے ہیں کہ جنہیں صفحہ ءقرطاس پر منتقل کرتے ہوئے بھی خوف آتا ہے ۔آخر کب تک ہم آزادی کے نام پر اس ملک و قوم کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہیں گے ۔ہمیں اب بیدار ہوجانا چاہئے ہمیں دنیا کو یہ باور کروانا ہوگاکہ دوقومی نظرئیے پر بننے والی ریاست واقعی اپنے نظرئیے پر ہی زندہ ہے ۔یہاں تعصب اور نفرتیں نہیں بلکہ محبت ،اخوت اور بھائی چارے کا وہ ماحول ہے کہ جو دیگر اقوام کے لئے بھی نمونہ ہے ۔یہی وہ کام ہے جو ہمیں مل جل کر کرنا ہے ۔ہماری آئندہ نسلیں بھی موجودہ روش سے دل برداشتہ ہو چکی ہیں ۔ہماری رنجشیں اور کدورتیں ماحول کو مزید پراگندہ کر رہی ہیں ۔دشمن ہم پر انگلیاں اٹھا رہا ہے ۔حکمران بھی آزادی کے حقیقی مقاصد کو پروان چڑھانے کی بجائے دیگر امور میں الجھے ہوئے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ملک وملت کی بقاءکو مقدم سمجھیں اور آزادی کے نام پر لوگوں کو اذیت دینے کی بجائے اتحاد ویگانگت کی فضا قائم کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کریں ۔آزادی کی قدر کریں کیونکہ یہ سب بہاریں ہمیں آزادمملکت کی صورت میں ہی حاصل ہیں اگر خدانخواستہ یہی باقی نہ رہا تو ہم کہاں اس قدر آزاد فضا میں زندگی بسر کر سکیں گے ۔حکمرانوں کو بھی ان سبھی باتوں پر دھیان دینا ہوگا کیونکہ حکومت کے جو مزے آزاد پاکستان میں سیاسی قائدین کو حاصل ہیں وہ کسی اور جگہ ا نہیں کبھی نصیب نہیں ہوں گے ۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress Themes