اورنگی ٹاﺅن کی نورین

Published on August 28, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 321)      No Comments

اسلامی معاشرے میں عورت پر ہونے والے مظالم پر مبنی ایک سچی کہانی
پارٹ ۱
تحریر۔۔۔ ڈاکٹر فیاض احمد
آندھی اور طوفانی بارش سے باہر نکلنا کسی قیامت سے کم نا تھا اورنگی کی گلیاں کسی سیلابی نالے کا منظر پیش کر رہی تھی وہ بھی آدھی رات کو۔۔۔
اچانک سے ولایت صاحب کی بیگم زچگی کی تکلیف سے تڑپ اٹھی۔۔۔
اس وقت تو حال ہی برا ہو گیا تھا ولایت صاحب کا۔۔۔۔
ایک طرف بارش اور دوسری طرف اورنگی ٹاﺅن کی گلیاں۔۔۔۔۔ جو سیلابی نالے کا منظر پیش کر رہی تھی
مصیبت پہ مصیبت۔۔۔
ایک طرف زچگی اور دوسری طرف طوفانی بارش۔۔۔
زندگی بھی غریبوں کے ساتھ ہی مذاق کیوں کرتی ہے ۔۔۔۔
سر کو جھکائے پریشانی کے عالم میں ۔۔۔۔
اب اس وقت کیا کریں۔۔۔
جب مایوسی اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تب کو فرشتہ آدمی کی شکل میں ظاہر ہو جاتا ہے۔۔۔
اچانک سے دروازے پر دستک وہ رات کے اس وقت جب اپنا سایہ ہی اپنے ساتھ نہ ہو
کون ہے بھائی
میں ہوں ندیم
ولایت صاحب دورازہ کھولتے ہی بولے ۔۔۔۔ندیم بھائی سب خیریت ہے
جی جی سب ٹھیک ہے میں تو کمپنی کے کام سے آیا تھا سوچا آپ سے مصائفہ ہی کرلوں
پر کیا ہوا آپ تو بڑے پریشان نظر آ رہے ہیں گھر میں سب امن ہے
ولایت: نہیں بھائی آپ کی بھابھی زچگی کے مسئلے سے دوچار ہے اور اس وقت کوئی بندوبست بھی نہیںاور باہر موسم کی شدت
بھی خراب ہے
ندیم: ولایت بھائی آپ پریشان مت ہوں میں ایک نرس کو جانتا ہوں ۔۔۔۔میں ابھی آیا
ولایت پریشانیوں کے عالم میں ۔۔۔۔
آنکھوں سے اشکوں کی بہار لئے۔۔۔۔
نظریں زمین پر گاڑے۔۔۔۔۔
چند لمحوں کے لئے اوپر آسمان کی طرف دیکھتے پھر زمین میں محو گم ہو جاتے۔۔۔۔
اتنے میں دروازے پر دستک
ولایت : کون ہے
ندیم: میں ندیم ہوں بھائی ۔۔۔دروازہ کھولیں
ولایت نے دروازہ کھولا تو ندیم کے ساتھ ایک لڑکی کو دیکھا جس کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا
ندیم:ولایت بھائی یہ نرس ہے آپ ان کو باجی کے پاس لے جائیں
ولایت :آﺅ بیٹا
نرس:ولایت کی بیوی کے پاس پہنچی اور چیک کرنے کے بعد ۔۔۔
بھائی اتنی لاپرواہی ۔۔۔
باجی کو چیک کروایا تھا کسی کو ۔۔۔
ولایت : نہیں
نرس: او ہو ۔۔۔ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے ہم ہسپتال بھی نہیں جا سکتے اس وقت۔۔۔چلو کوشش کرتی ہوں اللہ تعالیٰ نظر کرم کریں گے
بڑی مشکل سے نرس نے اس مسئلے کو سنبھالا۔۔۔۔
ولایت بھائی بیٹی پیدا ہوئی ہے مگر ولایت بھائی خاموش ۔۔۔۔
ایسے حالات میں بدبختی نے جنم لیا جو ساری زندگی پیارومحبت کو ترستی رہی۔۔۔۔۔
پیارومحبت کو اتنا ترسی کہ دو ہفتے تک اس کا کسی نے نام تک نہ رکھا
دو ہفتے کے بعد وہی نرس چیک اپ کرنے کے لئے آئی تو اس نے بیٹی کا نام پوچھا تو ولایت صاحب خاموش۔۔۔۔
تب جا کے نرس نے اس کا نام نورین رکھا جو بالترتیب چوتھی بہن تھی۔۔۔
نورین کا دادا:اگلی صبح تشریف لائے اور پوتی کا سن کر گھر کے اندر بھی داخل نہیں ہوئے اور بیٹے کو بولا ولایت ابھی بھی وقت ہے بیٹا دوسری شادی کرلو ۔۔مجھے سوچ کے جواب دینا میں انتظار کروں گا
ولایت ڈاک بنگلے میں ڈرائیور تھا حلال رزق کمانے اور اللہ تعالیٰ پر پختہ یقین رکھنے والا تھاکہ اللہ تعالیٰ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے مگر محلے والے اور رشتے دار نورین اور اسکی امی کو بد بخت کہتے تھے بلکہ اکثریت میں نورین کو۔۔۔۔
نورین کی پرورش پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی حالانکہ بچپن سے ہی گول مٹول بڑی بڑی آنکھیں۔۔۔
لمبی گھنی سیاہ زلفیں۔۔۔۔
کتابی چہرہ جو ایک بار دیکھے وہ دیکھتا ہی رہ جائے۔۔۔۔
مگر بدبختی تو نورین ساتھ ہی لے کر آئی تھی کوئی بھی اس کی طرف توجہ نہیں دیتا تھا بلکہ اس کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے چھوٹی سی عمر سے ہی نورین پیارومحبت سے محروم تھی ہمارے معاشرے کی تعخ حقیقت یہ ہے کہ اکثروبیشتر لڑکی کی پیدائش پر عورت کو ہی قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے اگر میڈیکل کی روح سے دیکھا جائے تو لڑکی یا لڑکے کی پیدائش کا دارومدار مرد پر ہوتا ہے مگر حقیقت سے آنکھیں چورانا انسانیت کی فطرت ثانیہ ہے کیونکہ انسان حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے سب کچھ جان کر بھی انجان بن جاتا ہے
نورین خاندان والوں کی محبت سے محروم تو تھی ہی اس کے ساتھ بچپن کی رنگنیوں سے بھی اس کا جیسے کوئی دور تک رشتہ ہی نہیں تھا زندگی نے نورین کو شروع سے ہی آزمانا سیکھا دیا تھا جب انسان کے وجود سے کوئی چیز جدا ہوتی ہے تو اس کا احساس زندگی بھر محسوس ہوتا رہتا ہے بلا شبہ وقت کے دھارے اس احساس کو بھر بھی دیں تو کچھ کمی باقی رہ جاتی ہے جو زندگی کے ساتھ انسان کا مقدر بن جاتی ہے کچھ تو انسان کے لئے ناسور بن جاتے ہیں جن کو وقت تو کیا اپنے بھی بھرنے سے قاصر ہوتے ہیںحال زندگی تو نورین کی بھی کچھ ایسی ہی تھی نورین کی پیدائش کے بعد ولایت صاحب تو ٹوٹ ہی گئے تھے
جاری ہے

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress主题