ملتان جن کے وجود پر نازاں حضرت بہا ءالدین زکریا ملتانی

Published on September 13, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 206)      No Comments

تحریر: رانااعجاز حسین چوہان
دنیا بھرمیں اسلام پھیلنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ وہ بندگان دین ہیں جنہوں نے اپنی سیرت و کردار ، اور اپنے عمدہ اخلاق و عمل سے علم کی قندیلیں روشن کرکے اسلام کا روشن چہرہ دنیا بھر میں متعارف کروایا، اورطبقات کو جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکال کر صراط المستقیم پر گامزن کیا ۔ ان ہی عظیم ہستیوں میں برصغیر پاک وہند کے ایک عظیم مبلغ شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ آپ صحابیِ رسول حضرت سیدنا ہبا بن اسود ہاشمی قریشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔ باری تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ تبلیغی صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا، آپ علم و عرفان اور تقویٰ و اخلاق کا اعلیٰ ترین نمونہ تھے ۔ آپ نے کفر و شرک میں مبتلا انسانیت کو توحید کا درس دیا، غافل مسلمانوں کو یادالٰہی کا سبق پڑھایا، اور محبت سے محروم دلوں کو اللہ اور اللہ کے رسول خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل کی محبت سے معمور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علوم ظاہری کے ساتھ ساتھ علم روحانیہ اور فیوض باطنیہ میں بہت بلند مقام عطا فرمایا۔ آپ نے ہزاروں لوگوں کو دولت اسلام عطا کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اخلاقی تعلیم و تربیت بھی فرمائی۔ آپ نے ایک منفرد تبلیغی نظام قائم کر کے اشاعت اسلام کے لئے جو خدمت سرانجام دی وہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں رقم کی گئی ہے۔
لوگوں کی اصلاح کے لئے تدابیر ظاہری و باطنی علوم سے آراستہ ہوکر جب آپ رحمتہ اللہ علیہ ملتان تشریف لائے تو یہاںآپ نے دعوت وتبلیغ کا کام شروع فرمادیا۔ آپ یہاں لوگوں میں ترویج علم کے لیے ایک عملی درسگاہ کا قیام عمل میں لائے جو آپ کی خانقاہ سے متصل تھی۔ جس نے ا فراد اور معاشرے کی اصلاح کے لئے مثالی خدمات سر انجام دیں۔ لوگ یہاں آکر ٹھہرتے اور آپ کی صحبت بابرکت سے فیض یاب ہوتے ، اپنے قلوب کی پاکیزگی کا اہتمام کرتے ۔ اس درسگاہ کے دو شعبے تھے ایک شعبے میں علما تربیت حاصل کرتے تھے اور دوسرے میں مبلغین اسلام اسلامی تعلیم اور طور طریقوں سے بذریعہ استاد استفادہ کیا کرتے تھے ۔ ان حضرات کو اس بات کا سبق دیا جاتا تھا کہ وہ جس علاقے یا ملک میں جائیں وہاں کی معاشرت اور زبان سے واقفیت کا ہونا ضروری ہے ، اس کے لیے حضرت شیخ نے کم و بیش ہر ملک سے ایک عالم و فاضل شخص کو ملتان بلاکر اپنی درسگاہ میں بحیثیت استاد کے مقرر کرلیا تھا، اور انہیں ہر طرح کی سہولیات فراہم کی گئی تھی۔ اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے براعظم کے ساتھ عراق، شام اور سر زمین حجاز سے بھی آکر طلبہ داخلہ لیتے ، جہاں انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دی جاتی، طلبہ کو علم و عمل کا پیکر بنایا جاتا، تاکہ وہ اپنے وطن واپس جاکر اسلام کی ترویج و اشاعت کا فریضہ احسن طریقے سے سرانجام دے سکیں۔ حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ بہت مالدار اور سخی تھے اس لئے طالب علموں کے تمام اخراجات آپ خود پورے کرتے ۔مفت تعلیم کے علاوہ خوراک، لباس اور رہائش کا انتظام بھی موجود تھا۔ بزرگان دین کے ملفوظات شاہد ہیں کہ آپ کی درس گاہ سے ہزاروں طالب علم قرآن و حدیث اور فقہ کے علاوہ خطاطی، تاریخ نویسی، ظروف سازی ، جلد سازی اور تجارت سمیت مختلف علوم و فنون کے ماہر بنے جنہوں نے ہندوستان کے علاوہ جاوا سماٹرا، انڈونیشیا، فلپائن، خراسان اور چین تک اسلام کی روشنی پھیلائی۔ یہاں علوم الٰہیہ کی ایک علیحدہ خانقاہ تھی جس میں ہندوستان کے علاوہ چین، ترکمانستان، مصر، بغداد اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی جو حق کی تلاش میں تھے آپ سے فیض یاب ہوتے تھے ۔ آپ کے گرد ہر وقت طالبان حق کا ایک مجمع لگا رہتا تھا عقیدت مندوں کی فہرست کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ حضرت شیخ بہاءالدین زکریاملتانی کی خانقاہ میں بڑے بڑے اولیاءاللہ نے قیام فرمایا ۔ مثلاً حضرت خواجہ غریب نوازؒ ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت حمید الدین ناگوریؒ، جلال الدین تبریزیؒ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ وہ باکمال اولیاءاللہ ہیں جن کے توسل سے دعا بارگاہ ربّ العزت میں مقبول ہوتی ہے ۔ حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ رشتے میں خالہ زاد بھائی تھے اور آپس میں گہری محبت رکھتے تھے ۔ دونوں حضرات کئی سال تک سفر حضر میں اکٹھے رہے اور دونوں ایک دوسرے کی بہت عزت کیا کرتے تھے ۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ 7 صفر المظفر661 ھ بمطابق 21 دسمبر1262 ءحسب معمول اپنے وظائف میں مشغول تھے کہ آپ کے صاحبزادے شیخ صدر الدین عارف رحمتہ اللہ علیہ نے ایک نورانی شخص کو دیکھا، انہوں نے ایک رقعہ آپ کے والد ماجد کو دینے کے لئے کہا۔ صاحبزادے حجرہ میں داخل ہوئے اور رقعہ پیش کرکے باہر آگئے۔ تھوڑی دیر بعد اندر سے آواز آئی وصل الحبیب الی الحبیب (یعنی دوست دوست سے مل گیا)۔ صاحبزادے جلدی سے اندر گئے تو دیکھا کہ والد محترم وصال فرما چکے ہیں۔ آپ کا مزار شریف ملتان میں مرجع خلائق ہے جہاں آج بھی دن رات آپ کے مزار پر انوار الٰہی کی بارش ہوتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ حضرت شیخ نے اپنا مقبرہ خود تعمیر کروایا تھا جو برصغیر میں اس دور کا بہترین نمونہ ہے، مزار کی عمارت پرنقاشی کا کام قابل دید ہے اور سینکڑوں اشعار یاد رکھنے کے لائق ہیں۔ اس مقبرے میں آپ کے صاحبزادے کے علاوہ دیگر افراد خاندان کے مزارات بھی ہیں۔ جہاں آج بھی اہل محبت جا کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور مزارات کے فیوض و برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ مزار کا احاطہ ہر قسم کی خرافات سے پاک ہے، عرس کے موقع پر علما کرام کی تقاریر خلق خدا کی ہدایت کاسامان بنتی ہیں، ملک بھر خصوصاً اندرون سندھ سے مریدین و معتقدین کے قافلے پا پیادہ حاضر ہوتے ہیں۔ اور آج ملتان اور اہل ملتان ان کے وجود پر نازاں ہیں کہ ان کا وجود تبلیغ و اشاعت اسلام کے ساتھ ساتھ ملتان کی ترقی و مشہوری کا ذریعہ بنا۔

 

Readers Comments (0)




WordPress主题

Premium WordPress Themes