یوکرائن پرولادیمیر پیوٹن اوراوبامامیں رسہ کشی

Published on April 19, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 206)      No Comments

Arif-Nonari

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور امریکی صدر باراک اوباما کے فون پر بات ہوئی ہے جس میں دونوں لیڈروں نے محض اپنا مؤقف بیان کیا۔ اس براہ راست اور دو ٹوک گفتگو میں امریکی صدر اوباما نے صدر پیوٹن پر زور دیا کہ وہ مشرقی یوکرائن میں اپنے حامیوں کو ناجائز طور پر سرکاری عمارتوں پر قبضے سے باز رکھیں۔ اس کے جواب میں صدر پیوٹن نے روسی مداخلت کے الزامات کو بے بنیاد پروپیگنڈا قرار دیا ہے ۔ اس دوران بارہ کے لگ بھگ قصبوں اور شہروں پر روس نواز عناصر نے قبضہ کر لیا ہے ۔ خبروں کے مطابق ان تمام واقعات میں ایک ہی طرح کارروائی کی گئی ہے اور یہ اس کارروائی سے ملتی جلتی ہے جو فروری میں کریمیا میں کی گئی تھی اور جس کے بعد ایک غیر قانونی ریفرنڈم کے نتیجے میں کریمیا کو روس کا حصہ بنا لیا گیا تھا۔

غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ ایک ہفتہ کے واقعات کے بعد یوکرائن کا بحران ایک بار پھر دنیا کا اہم ترین تنازعہ بن کر سامنے آیا ہے ۔ مسلح افراد نے مشرقی یوکرائن کے 12 کے لگ بھگ شہروں پر قبضہ کر لیا ہے ۔ تاہم روس اسے مقامی لوگوں کی کارروائی قرار دے رہا ہے ۔ روس کا دعویٰ ہے کہ اس کی فوج اس بحران کی ذمہ دار نہیں ہے ۔
مشرقی یوکرائن میں بھی مسلح تربیت یافتہ افراد سے بھری ہوئی بسیں کسی قصبے یا شہر کے پولیس اسٹیشن اور سرکاری عمارتوں تک پہنچتی ہیں اور مسلح افراد تھوڑی ہی دیر میں ان جگہوں پر قبضہ کر کے وہاں علاقائی ریاست کا پرچم لہرا دیتے ہیں۔ یوکرائن کی فوج ابھی تک اس مسلح تصادم کا جواب دینے میں ناکام رہی ہیں۔ دو روز قبل قائم مقام صدر الیگزنڈر تورشنوو نے گزشتہ صبح تک مسلح گروہوں سے سرکاری عمارتیں خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا بصورت دیگر یوکرائن کی فوج کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا حکم دینے کی دھمکی دی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یوکرائنی فوج روس نواز عناصر کے خلاف کارروائی میں انتہائی احتیاط سے کام لے گی۔ روس نے ابھی تک مشرقی یوکرائن میں اپنی فوج نہیں بھیجی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ شہروں پر قبضہ کرنے والے مسلح گروہ محض یوکرائن کے آزادی پسند شہری نہیں ہیں بلکہ خبروں کے مطابق وہ سب تربیت یافتہ فوجی ہیں اور ان کے پاس روسی ساخت کا اسلحہ ہے ۔ اس کے باوجود اگر یوکرائنی فوج کی کارروائی کی صورت میں روسی شہریوں کی کچھ تعداد ہلاک ہو گئی تو صدر پیوٹن کے لئے خاموش رہنا مشکل ہو جائے گا۔ قیاس ہے کہ اس صورت میں نہ چاہتے ہوئے بھی روس کو اپنی فوج مشرقی یوکرائن بھیجنی پڑے گی۔ اس حملہ کے علاقائی اور بین الاقوامی اثرات سے قطع نظر یوں لگتا ہے کہ روس اور یوکرائن دونوں ہی اس تصادم سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔
اگرچہ مشرقی اور جنوبی یوکرائن میں روسی بولنے والی آبادی بڑی تعداد میں موجود ہے لیکن کریمیا کے برعکس روسی آبادی کو ان علاقوں میں اکثریت حاصل نہیں ہے ۔ روسی آبادی کی شرح 35 سے 45 فیصد کے درمیان بتائی جاتی ہے جبکہ پورے یوکرائن میں روسی نڑاد آبادی کی تعداد 12 ملین کے لگ بھگ ہے ۔ تاہم ان علاقوں کی روسی نڑاد آبادی بھی کریمیا کی آبادی کی طرح روس میں شمولیت کی حامی نہیں ہے ۔ 1991ء میں خود مختاریوکرائن کے قیام کے لئے اس آبادی کے 83 فیصد نے یوکرائن کی علیحدگی کے لئے رائے کا اظہار کیا تھا۔ اب بھی یہ آبادی اس سوال پر تقسیم ہے ۔
26 مئی کو منعقد کروانے جانے والے انتخابات میں سامنے آنے والی نئی قیادت صورتحال کو سنبھالنے کے لئے اقدام کر سکتی ہے ۔ لیکن مبصرین یہ کہنے سے قاصر ہیں کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران کس قسم کے واقعات رونما ہوں گے ۔ یورپ اور امریکہ نے اگرچہ یوکرائن میں بحران کی ساری ذمہ داری روس پر عائد کی ہے لیکن یوکرائن کی امداد کے علاوہ یہ ممالک روس کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یورپ بڑی حد تک تجارت اور انرجی کے حوالے سے روس کے ساتھ تعلقات کا محتاج ہے ۔ اس کے باوجود مشرقی یوکرائن میں براہ راست روسی مداخلت کے نتیجے میں یورپ کو سخت اقتصادی اور سفارتی اقدامات کرنا ہوں گے ۔ ان پابندیوں کی وجہ سے روس کی معیشت پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور اسے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
تاہم دوسری طرف 18 مارچ کو کریمیا کو روس کا حصہ قرار دینے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پیوٹن نے کہا تھا کہ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد سوویت یونین کے تحلیل ہونے پر روس کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کی گئی تھی۔ کیونکہ ماسکو کی حکومت اس وقت کمزوور اور بے بس تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس ناانصافی کو اب ختم کرنا ہو گا۔
روسی اقدامات اور صد رپیوٹن کے عزائم کی روشنی میں بعض مغربی مبصرین یہ اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ روس یوکرائن کے علاوہ سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہنے والے ممالک پر حملہ آور ہو سکتا ہے ۔ ان میں سے بعض ممالک اب نیٹو کا حصہ بھی ہیں۔ اس طرح نیٹو اور روس میں براہ راست جنگ کا راستہ بھی ہموار ہو سکتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ روس نے کریمیا پر قبضہ کر کے جدید دنیا میں ہمسایہ ملک کے ایک حصہ پر قابض ہونے کی ایک ایسی مثال قائم کی ہے جس کے پوری دنیا کی سیاست پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ان انتہائی امکانات اور خدشات کے باوجود یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ گزشتہ 2 دہائیوں میں روس اور یورپ کے دیگر ممالک معاشی طور پر ایک دوسرے سے وابستہ ہوئے ہیں اور کسی حد تک باہمی ضرورتوں کو پورا کر رہے ہیں۔ یوکرائن کا بحران دراصل روس کی طرف سے اس اعلان کا آئینہ دار ہے کہ اس کے ریجنل اور اقتصادی مفادات کو روندنے والی کوئی کارروائی اب قبول نہیں کی جائے گی۔ صدر ولادیمیر پیوٹن یہ پیغام واضح کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ مغربی ممالک بھی اگر مفادات کے حوالے سے حد بندی کے روسی مطالبے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اقتصادی توسیع پسندی کا رویہ ترک کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ روس بھی مشرقی یوکرائن یا دیگر علاقوں میں مسلح کارروائی سے باز رہے ۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Themes