تعلیم کا جنازہ ۔۔؟

Published on October 22, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 143)      No Comments

تحریر۔۔۔ سیّدعارف سعید بخاری
پاکستان بننے کے بعد جتنی حکومتیں آئیں کسی ایک بھی حکومت نے ”تعلیمی اصلاحات “پر کوئی توجہ نہ دی ۔ہر حکومت نے اپنی اپنی سوچ و فکر کے مطابق تعلیمی شعبے سمیت ہر ادارے کے ساتھ کھلواڑ کیا ۔۔انگریزی ،اردو ، اے ،او لیول وغیرہ مختلف قسم کاطریقہ ءتعلیم پورے ملک میں پھیلا دیا گیا ۔قومی زبان کو ذریعہ ءتعلیم بنانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔اور لوگوں پر انگریزی مسلط کردی گئی۔ اُردو اور ا سلامیات کے علاوہ سبھی مضامین انگریزی میں پڑھانے کا سلسلہ رائج کر دیا گیا ۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے بچے ساری زندگی انگریزی سیکھنے اور سمجھنے میں گزار دیتے ہیں ۔ دنیا کی تمام اقوام اپنی اپنی قومی زبان کو اپناتی ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ سبھی ممالک ترقی میں سب سے آگے ہیں ۔اس کے مقابلے میں ہمارے بچوں کو ایسا نصاب پڑھایا جاتا ہے کہ جس کا ان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں،چھوٹی کلاسوں میں آٹھ مضامین کا بوجھ جبکہ کالجز کی سطح پر پانچ مضمون رکھے جاتے ہیں ۔انگریزی کی وجہ سے ہمارے بچوں کی اُردو درست ہوتی ہے اورنہ ہی وہ عربی سمجھ سکتے ہیں ۔عربی سے عدم دلچسپی کے سبب ہمارے بچے ،بوڑھے اور جوان اللہ کی کتاب ”قرآن پاک“جو انسانوں کے سرچشمہ ءرشد و ہدایت ہے، کو بھی سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ہم سبھی نماز پڑھتے ہیں لیکن ہم میں سے اکثریت ایسی ہے کہ جو نماز میں دئیے گئے پیغام کو بھی سمجھ نہیں پاتی ۔حالانکہ مسلم اُمہ کےلئے قرآن کو پڑھنا اور پھر اسے سمجھنا فرض ہے ۔جدید سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کی اس تیز رفتار دوڑ میں قوموں کی برادری کے ساتھ ساتھ چلنے کےلئے قومی زبان اپنا نا لازم ہے ۔لیکن ہمارے دل و دماغ سے چونکہ ابھی تک فرنگی سامراج کی ذہنی ،تعلیمی ومعاشی غلامی کا اثر زائل نہیں ہو سکا ۔اس لئے ہم ملک میں یکساں نظام تعلیم دے سکے اور نہ ہی قومی زبان اپنا سکے ۔یوں توہر حکومت نے تعلیم سے ہی” بلادکار“کیا ہے ۔لیکن موجودہ حکومت نے کورونا وائرس کی آڑ میں پورے تعلیمی نظام کوبُری طرح تباہ کرکے رکھ دیا ہے ۔کورونا کی چکر میں تعلیمی اداروں پر تالے ڈال دئیے گئے ۔عالمی یہودی و نصرانی سازش کے تحت بچوں کو ”آن لائن “تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا گیا ۔تقریباً گذشتہ20ماہ سے جاری ”لاک ڈاو¿ن “ ڈرامے نے بچوں کو اس قدرتعلیمی لحاظ سے کمزور اور پراگندہ کیا ہے کہ وہ گھروں میں مقید ہو کر محض سوشل میڈیا ،فیس بک ،انسٹا گرام ،واٹس ایپ اور یو ٹیوب یا وڈیو نیٹ گیمز وغیرہ تک محدودہو کر رہ گئے ہیں ۔پاکستان جیسے ملک میں کہ جہاں شرح خواندگی7فیصد ہے ،وہاں بچوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ”آن لائن“ تعلیم حاصل کریں گے ،سراسر دھوکہ ہے ۔
ماضی میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کی حکومت نے ”مار نہیں پیار“کا ایک بے مقصد سا نعرہ دے کر اساتذہ کرام پر یہ پابندی عائد کر دی تھی کہ کوئی استاد اپنے شاگرد کو مارے گا نہیں ۔یوں سکولوں میں اپنائے گئے نعرے سے ایسا ماحول بنا کہ والدین بھی اپنے بچوں کونہ مارنے میں عافیت سمجھنے لگے ۔ ۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ ”جس نے استاد کی مار نہیں کھائی ،وہ کبھی کامیاب زندگی بسر نہیں کر سکتا ۔“ہم نے ”مار نہیں پیار“کا نعرہ دے کر ادب و احترام کی فضا کو پراگندہ کیا۔اس نعرے کا نتیجہ یہ نکلا کہ استاداور شاگرد میں احترام کا رشتہ ہی دم توڑ گیا ۔اور بچوں نے اپنے اساتذہ کرام کی تضحیک کو معمول بنا لیا ۔کچھ اساتذہ کرام کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ۔والدین کے لئے بھی یہ مشکل بنا دی گئی کہ وہ بچوں کو ماریں نہیں ۔سابقہ حکومت کے اس انقلابی نعرے نے ادب و احترام کے ماحول کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ۔
ماضی کی حکومتوں کے کار ہائے نمایاں کی تو ایک لمبی تفصیل ہے لیکن موجود وزیر اعظم عمران خان کے دور میںکم از کم تعلیمی شعبے میں ایسی بڑی تبدیلی لائی گئی ہے کہ جو دنیا بھر کے کسی بڑے یا چھوٹے ملک میں رائج نہیں ۔کورونا لاک ڈاو¿ن و دیگر پابندیوں کے باعث تعلیمی اداروں کو تالے لگا دئیے گئے ۔بچوں کو گھروں میں تعلیم جاری رکھنے کا کہا گیا ۔گھروں میں پڑھنے کا سلسلہ تو کامیاب نہ ہوسکا ۔لیکن حکومت کی پالیسی کے تحت تما م تعلیمی بورڈز نے میٹرک، انٹر اور ایف ایس سی سمیت دیگر امتحانات میں ہر بچے کو 1100میں 1100نمبر دے کر کامیاب قرار دے دیا ہے ۔حتیٰ کہ ایک دو جگہوں پر 1100میں سے 1156نمبر ملنے کی اطلاعات بھی ہے ۔لاہور میں کم نمبروں کی وجہ سے دل برداشتہ ہوکر ایک نوجوان سے خودکشی کر لی ہے اسی طرح ایک اور طالبہ کی خودکشی کی اطلاعات ہیں ۔جاری کردہ نتائج میں بعض بچوں اور بچیوں کے نمبر مایوس کن حد تک کم آئے ہیں لیکن تعلیمی بورڈزحکام نے طلبہ و طالبات کی اکثریت کو سو فیصد نمبردے کر معاشرے میں احسا سِ کمتری اور احساس برتری کی ایک عجب سی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ جاری کردہ نتائج پر دنیا حیران و ششدر ہے ۔سال ہا سال سے رائج طریقہ کار کے مطابق صرف حساب اور الجبرا کے دو مضامین ایسے ہیں کہ جن میں سو فیصد نمبر لئے جا سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ ”ایم سی کیوز “کی صورت میں ہونے ابجیکٹیوسوالات میں سو فیصد نمبر حاصل کئے جا سکتے ہیں جبکہ اُردو ، اسلامیات ، معاشرتی علوم ،فزکس، کیمسٹری ،مطالعہ ءپاکستان سمیت کوئی ایک بھی ایسا مضمون نہیں کہ جس میں کوئی استاد اپنے کسی ہونہار سے ہونہار شاگرد کو پورے کے پورے نمبر دے پائے ۔سچ تو یہ ہے کوئی طالب علم اگر سارا پیپر بھی کتاب سامنے رکھ کر حل کر لے توپھر بھی اسے کسی صورت سو فیصد نمبر نہیں مل سکتے ۔یہ پاکستان کی پہلی حکومت ہے کہ جس نے بچوں کو 100فیصدنمبرز دے کر ایک ایسی بھیانک تاریخ لکھنے کی بنیادڈال دی ہے کہ جس کے بد اثرات سے ہماری آئندہ کئی نسلیں چھٹکارا نہیں پا سکیں گی ۔کہتے ہیں کہ کسی بھی عمارت کی پہلی اینٹ اگر غلط لگائی جائے گی تو اس پر کھڑی کی جانے والی عمارت بھی کبھی سیدھی نہیں کی جا سکتی ۔اسی طرح جب ہم نوجوانوں کی بنیادکو ہی غلط کر دیں گے تو پھر ہم ان کے بہتر مستقبل کی توقع کس طرح کر سکتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان ،وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ، وزیر تعلیم شفقت محمود طلبہ و طالبات کو سو فیصد نمبرز دینے کی پالیسی پر عملدرآمد سے پہلے اس کے بداثرات کا اگر ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے تو انہیں اندازہ ہوتا کہ وہ قوم کے معماروں کے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہیں ۔پڑھے بناءجن بچوں کو سو فیصد نمبر دئیے گئے ہیں ۔انہیں بچوں نے آئندہ ملک وملت کی خدمت کا فریضہ بھی ادا کرنا ہے ۔جب ایک بچے کی تعلیمی قابلیت ہی زیرو ہو یا نارمل ہو ،اسے ہم سو فیصد نمبر دے دیں گے تو ایسا بچہ جس بھی محکمے میں ملازمت کےلئے جائے گا ۔وہ میرٹ سے بھی بہت اوپرہونے کی وجہ سے ملازمت کا بھی اہل قرار دے دیا جائے گا ۔یوں وہ کسی بھی باصلاحیت ،ذہن و فطین بچے کا حق غصب کرنے کا سبب بنے گا ۔ایسا بچہ جس بھی عہدے کےلئے سلیکٹ کیا جائے گا ۔وہ اپنی ذمہ داریوں سے انصاف نہیں کر پائے گا ۔اور مذکورہ محکمے کی بدنام اور تباہی کا موجب بھی بنے گا ۔
پاکستان اور پاکستانیوں کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم لوگ جہاں بھی ہوں ،ہم دور اندیشی سے کام نہیں لیتے ۔فرنگی سامراج جسے ہم اٹھتے بیٹھے اُمہ کا دشمن خیال کرتے ہیں ۔ان لوگوں نے برصغیر ہو یا اُن کا اپنا دیس ،ہمیشہ ہی اپنے منصوبوں کو تشکیل دیتے وقت آئندہ 100بلکہ200سال کی ضررویات اور اس کے مابعد اثرات کو مدنظر رکھا ۔تاریخ کا جائزہ لیں تو بر صغیر پاک و ہند میں فرنگیوں نے جتنے منصوبوں بھی شروع کئے تھے وہ آج200 سال گذرنے کے باوجود انسانی ضروریات کے مطابق جاری و ساری ہیں جبکہ ہم ”ڈنگ ٹپاو¿“ پالیسی کے تحت جو بھی منصوبہ بناتے ہیں ،وہ 10سے 15سال تک ہی کارآمد رہتا ہے ۔ہمیں مستقبل کی فکر نہیں ہوتی ۔یہی وجہ ہے پاکستان ترقی کی جانب اوپرجانے کی بجائے مسلسل تنزیلی کی پستیوں میں گرتا چلا جا رہا ہے ۔اور ہمارے حکمران ”تبدیلی “کے نعرے کی روشنی میں پورے سسٹم کو تہہ و بالا کرنے میں لگے ہیں ۔آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ ”تعلیم کا جنازہ ہے ،ذرا دھوم سے نکلے “۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress Blog