حلال اور حرام میں فرق

Published on December 31, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 456)      No Comments

تحریر: صوفی موبین بالاکوٹ
ایک شخص نے حضرت ابو درداؓ سے عرض کیا کہ مجھے ایک کلمہ سکھلا دیجئے ( ایک بات سکھلا دیجئے) جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مجھے نفع عطا فرمائیں،آپؓ نے فرمایا کہ ایک نہیں دو،تین،چار،پانچ یعنی پانچ باتیں بتلاتا ہوں جو شخص ان پر عمل کرے گا اس کا ثواب اللہ پاک کے پاس بلند درجات پر ہوگا،فرمایا کہ صرف پاکیزہ چیز کھاﺅ ،پاکیزہ کمائی کرو،اور گھر میں جب داخل ہو تو پاکیزگی کی حالت میں داخل ہوں،اللہ تعالیٰ سے دن کے دن کا رزق مانگا کرو،اور جب تو صبح کرے تو اپنے آپ کو مردوں میں شمار کر،گویا کہ تو ان کے ساتھ جا ملا ہے،اور اپنی عزت اللہ تعالیٰ کو ہبہ کردو،جو شخص تم کو گالی دے ،برا بھلا کہے،یا تم سے لڑائی کرے،اس کو اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑ دو اور جب کوئی برائی ہو جائے تو فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو۔پہلی بات یہ کہ تین چیزوں کی پابندی کرو ،ایک یہ کہ پاک کھاﺅ،پاک کماﺅ،اور پاک ہونے کی حالت میں گھر آﺅ گے ،ناپاک چیزتمہارے پیٹ میں نہ جائے،ناپاک چیز تمہاری کمائی میں شامل نہ ہو،اور ناپاک ہونے کی حالت میں اپنے گھر نہ آﺅ،پاک وناپاک کے بارے میں اکابر فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی دعا قبول ہو وہ ناپاک لقمہ سے پرہیز کرے،ناپاک کیا چیز ہے اس بارے اکابرین کا فرمانا ہے کہ بعض چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے ناپاک فرمایا ہے اور بعض کو پاک فرمایا ہے،بکری پاک ہے،اس کا گوشت پاک ہے،خنزیر ناپاک ہے ،خرگوش پاک ہے،اور بلی ناپاک ہے،حلال وحرام کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے،حدیث پاک میں ہے کہ “کسی مسلمان کا مال حلال نہیں ہوتا مگر اس کے دل کی خوشی سے۔( کنز العمال)طیب نفس اور دل کی خوشی سے اگر کوئی تمہیں اپنی چیز کھلاتا ہے تو تمہارے لیے کھانا جائز ہے اور زبردستی کھاتے ہو تو ناجائز ہے،حرام ہے۔کسی کی بکری چوری کر لی اور بسم اللہ،اللہ اکبر کہہ کر ذبح کر دیا وہ حلال نہیں،وہ اسی طرح حرام ہے جس طرح مردار حرام ہے،چوری کی بکری کو تکبیر پاک نہیں کرتی وہ ناپاک ہی رہتی ہے،اسی طرح تم نے کسی کی چیز غصب کر لی،دبا دی وہ چیز تمہارے لیے حلال نہیں ہے،کسی کے مکان پر زبردستی قابض ہو گئے یا کسی کی اراضی،زمین،پلاٹ،رقبہ پر قابض ہو گئے اور اس کو استعمال کرتے رہے تو اس کا استعمال حرام ہے ،اسی طرح بجلی چور کرنا بھی حرام ہے اور اس بجلی میں جو تم عبادتیں کرتے ہو وہ بھی قبول نہ ہونگی،غرض یہ کہ پرایا مال کھانا اس کی رضا مندی کے بغیر وہ حلال نہیں حرام ہے اور ناپاک ہے،اس لیے ناپاک نہ کھاﺅ،اسی طرح اکابرین ہی کا ناپاک کمائی کے بارے میں فرمانا ہے کہ ناپاک کمائی کیا ہے؟؟ اس بارے میں فرمانا ہے کہ کماﺅ بھی پاک،تمہارے گھر میں ناپاک کمائی نہیں آنی چاہیے ،ناپاک کمائی کیا ہے؟کمانے کے جو طریقے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بتلائے ہیں وہ پاک ہیں،اور جو طریقے ممنوع وناجائز ٹھہرائے ہیں وہ ناپاک ہیں،کمائی کے جو طریقے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نزدیک ممنوع وحرام ہیں ،اگر وہ آپس کی رضا مندی سے ہوں تب بھی حرام وممنوع ہیں اور ناپاک ہیں،سود کا لین دین اللہ نے حرام فرمایا ہے اور اس کیخلاف اعلان جنگ فرمایا ہے ،قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے”اسی طرح خرید وفروخت کی جو چیزیں شریعت نے حرام کی ہیں،ان کا لین دین کرنا اور ان کے ذریعہ سے پیسہ کمانا حرام ہے۔”ر±وحانی صحت کیلئے ظاہری وباطنی پاکیزگی بنیادی حیثیت رکھتی ہے‘ یاد رہے کہ غسل کرلینا، باوضو ہو جانا، پاک صاف ستھرے نئے یا د±ھلے ہوئے کم قیمت یا بیش قیمت کپڑے پہن کر خوشبو لگا لینے کا نام ہی ستھرائی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میںاصل ستھرائی تب حاصل ہوتی ہے، جب کپڑے ،کھانا پینا یہ تمام چیزیں حلال مال سے ہوں، حرام مال سے پلنے والا جسم، زیب وزینت اور خوش پوشی، غسل ووضو دیکھنے والوں کی نگاہوں کے لئے تو باعث کشش ہو سکتا ہے مگر رَبِّ ذوالجلال کی نگاہِ پاک اور قانون پاک میں ایسی زیبائش اور چمک دمک کی قطعاً کوئی حیثیت نہیں، جب تک رزقِ حلال نہ کمایا جائے گا اور کھانا پینا اور پہننا حلال مال سے نہ ہوگا تو کسی عبادت اور تسبیح کا روحانی فائدہ ہرگز حاصل نہ ہوگا،اس حقیقت سے چشم پوشی کرنے والا جو حرام کمائی سے گزر بسر کرے پھرفخرکرے اور حرام مال ہی سے ربِّ کائنات کی راہ میں خرچ کرے‘ قطعاً منزل مراد کو نہیںپہنچ سکتا کیونکہ اللہ ناپاک مال ہرگز قبول نہیں فرماتا،قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ رزق حلال کے بارے میںاحکام فرمائے ہیں اوراحادیث مبارکہ میں پیارے نبی کریمﷺ کے ارشادات مبارکہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں، رزقِ حلال تمام عبادات اور معاملات کی روح ہے۔ اسی طرح اللہ نے اہل اِیمان کو بھی فرمایا ہے۔ ” اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاﺅ“۔ (البقرہ:۲۷۱)” بلکہ پوری اِنسانیت کو فرمایا: ”اے لوگو! کھاﺅ ا±س میں سے جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے“۔ (البقر?:۸۶۱)حلال‘ حرام کی ضد ہے یعنی جس پر رکاوٹ کی گرہ نہ ہو، کھلی ہوئی چیزیں، شریعت میں حلال وہ ہے جس کی ممانعت نہ ہو،بعض دفعہ ایک طاقتور اِنسان چھین کر اور کمزور چُرا کر بھی کھا لیتا ہے مگر یہ صِفت حیوانات اور درندوں کی ہے، ایک جانور نسبتاً کمزور جانور سے چیز چھین لیتا ہے، ایک کتا دوسرے کتے سے ہڈی جھپٹ لیتا ہے، شیر کمزور جانوروں کو چیر پھاڑ کر ا±ن کا خون پی جاتا ہے ،کم و بیش تمام درندے اپنا رزق طاقت اور چھینا جھپٹی سے حاصل کرتے ہیں۔ بندہ مومن کے سر پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اشرف المخلوقات ہونے کا تاج رکھا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے: ”بے شک جو اِیمان لائے اور اَچھے کام کئے‘ وہی تمام مخلوق میں بہتر ہیں“۔ (القرآن) یعنی اشرف المخلوقات ہیں،حلال روزی کیلئے کوشش کا درجہ بھی فرض کا درجہ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے ،فرماتے ہیں،رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ” حلال کمائی کی تلاش ایک فرض کے بعد دوسرا فرض ہے“یک حدیث شریف جس کے راوی حضر ت انس بن مالک ہیں‘ رسول کریمﷺ کا اِرشادِعظیم بیان کرتے ہیں کہ ”رزقِ حلال کی طلب ہر مسلمان پر واجب ہے“۔ جو حلال روزی کماتا ہے ا±س کا دِل نور سے معمورہوتا ہے اور حکمت وعقلمندی رزقِ حلال سے بڑھتی ہے۔ جو چیز بیک وقت فرض بھی ہو اور واجب بھی ا±سے حاصل کرنے پر سرکارِ کائنات ﷺ نے جہاد کا درجہ عطا فرمایا ہے۔ ”حلال روزی کی تلاش کرنا جہاد ہے“یہ حقیت تسلیم کرنا روح کی سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ اِنسان رزق کھانے کیلئے پیدا نہیں ہوا بلکہ رزق اِس کی غذا کیلئے پیدا فرمایا گیاہے۔ اِس مختصر سی زندگی میں وہ خوراک جو اِس اِنسان نے کھانی ہے ‘ربّ ِذوالجلال والاکرام کے پیارے محبوب نبی کریم ﷺنے ا±س کے آداب سکھائے اور پڑھائے ہیں تاکہ حیوانِ مطلق اورحیوانِ ناطق میں اِمتیاز ہو سکے۔ اگر حضر ت اِنسان ا±ن آداب کو اپنا لے گا تو وہ لمحات اور گھڑیاں اللہ تبارک وتعالیٰ جل شانہ کی بندگی، رسولِ کریمﷺ کی پیروی اور بندے کی روحانی ترقی کا ذریعہ بنیں گے، اِس لئے وہ آداب جاننے چاہئیںجن سے حضرت اِنسان کا کھانا زندگی کی بقا ءاور روح کی غذا اور روحانیت کے عروج کا سبب بنے۔

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Themes