بے علمی بیماری کا سبب

Published on January 13, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 121)      No Comments

تحر یر۔غزل میر
سوچنے کی صلاحیت ایک ایسی نعمت ہے جسے اگر چوٹ آئے تو زخم بھرنے کیلئے جیسے جسم کا علاج کیا جاتاہے ویسے ہی ذہن کا علاج ضروری ہے۔ کچھ جسمانی مرض معمولی ہیں جو ایک چھوٹے عرصے کیلئے ہوتے ہیں اور انسان دوبارہ صحت یاب ہو جاتا ہے اور کچھ ایسے مرض ہیں جیسے کی ذیابیطس اور کینسر، یہ امراض ساری زندگی کیلئے رہتی ہیں اور ان کے بارے میں اکثر بات کرتے ہیں ہم۔ویسے ہی ذہنی بیماریوں کی بھی ایک قسم نہیں ہے۔ ڈپریشن، بائی پولر، آٹزم، ڈیمنشیا، اور بھی بہت سی بیماریاں ہیں جن کا فرق زیادہ تر لوگوں کو معلوم نہیں ہے۔ڈپریشن کے بارے میں ہمیں بے شک کافی نہیں لیکن پھر بھی سنا ہے۔ اس آرٹیکل کا عنوان ذہنی بیماری تو ہے لیکن جس ذہنی بیماری کے بارے میں میں لکھ رہی ہوں اس کے بارے میں کوئی بالکل بھی بات نہیں کرتا۔ اس مرض کا نام سکزوفرینیا ہے۔سکزوفرینیا ایک ایسا مرض ہے جس کا علاج اگر نہ ہوتو انسان کو آوازیں سنائی دیتی ہیں اور غیرمرئی مخلوق دکھائی دیتی ہے۔ اس مرض کا علاج اگر جلد کیا جائے تو انسان ایک بامعنی زندگی گزار سکتا ہے۔ لیکن سائیکاٹرسٹ کے پاس لے جانا تو دور کی بات ہے، ایسے مریضوں کو معاشرہ پاگل قرار دے دیتا ہے یا پھر اس مرض کے بارے میں کم معلومات ہونے کی وجہ سے مریض کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا اس کا افسوسناک طور پر غلط علاج کیا جاتا ہے۔ سکزوفرینیا ایک موروثی مرض ہے اور ماحول سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ اکثر یہ مرض انسان کو جوانی کے سالوں میں ہوتا ہے اور باقی زندگی تک رہتا ہے۔ مریض خود اس مرض کی پہچان نہیں کر پاتا۔ایسے مریض کے علاج کیلئے ضروری ہے کہ اس کی نیند پوری ہو اور اس کے آس پاس کے لوگ اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ دوا اور باقاعدہ طور پر سائیکاٹرسٹ کے علاج سے انسان کی سوچ پر اچھا اثر اور فرق پڑتا ہے۔ مگر یہ عام مریض ایک بامعنی زندگی گزار بھی رہے ہوں تو انہیں اپنے مرض کو معاشرے کی تنگ نظری کی وجہ سے چھپانا پڑتا ہے۔ اور یہ کرنے سے اس مرض کے بارے میں معاشرے کو معلومات نہیں ملتی۔اس مرض پر کافی فلمیں بن چکی ہیں جو اس بیماری کا بالکل ہی غلط نقشہ کھینچتی ہیں۔ ان فلموں کی وجہ سے بھی معاشرے میں اس مرض کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔سکزوفرینیا کے مریض جن کا علاج نہیں ہو پاتا اکثر اکیلے میں باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو معاشرے میں پاگل کا نام دے دیا ہے، اور یہ لفظ عام استعمال ہوتا ہے، سوچئے ذہنی مریض کیلئے باقاعدہ ایک ایسا لفظ استعمال ہوتا ہے جو کہ منفی ہے، اس لفظ کو بولنے سے پہلے ہمیں اس لئے سوچنا چاہئے۔اس بیماری کے مریضوں کو دیکھ کر لوگ ان کا مذاق اڑا کر گزر جاتے ہیں۔ گھر والے انہیں پاگل کہہ کر نکال دیتے ہیں اور ان کا گلیوں میں اکثر ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے، اس بے رحمی کی وجہ سے مریض کی حالت بدتر ہو جاتی ہے۔ ان عام مریضوں کے ساتھ برے اور غلط برتاﺅ ہونے کی وجہ سے ان کامرض اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ان کی زندگی اپنے لئے بالکل بے معنی ہوجاتی ہے، ان بے رحم گلیوں میں وہ اپنی آخری سانسیں لیتے ہیں، اکثر ان کی موت ایسے ظلم برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے ہوتی ہے یا وہ خودکشی کر لیتے ہیں۔ہمیں اس مرض کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس مرض کے بارے میں معلومات حاصل کرنا صرف مریض کے علاج کیلئے نہیں بلکہ اس کے گھر والوں کیلئے بھی فائدہ مند ہے۔ ایسے مریضوں کے گھر والے اکثر اپنے آپ کو الزام دیتے ہیں، بے شک ماحول کی وجہ سے یہ مرض ہوتا ہے لیکن یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یہ موروثی بھی ہے۔اس لئے معاشرے میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے ہمیں اس موضوع پر کھل کر بات کرنی چاہئے۔ یہ صرف مریض یا اس کے گھر والوں کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ بے رحمی کا رواج معاشرے میں ہے۔ زیادہ لوگ جب تک اس مرض کے معاملے میں اندھیرے میں ہیں یہ بے رحمی بڑھتی چلی جائے گی۔”اس دنیا میں پھرتے ہیں کچھ لوگ، اصلیت صرف وہ جانیں، ہیں یہ عام لوگ،پاگل لوگوں میں، جو پاگل انہیں مانیں”۔میں ایک نظم سے اس آرٹیکل کا اختتام کررہی ہوں۔
تصورکریںکہ آپ کے سوچنے کی صلاحیت
ہوجائے ایک دن گم وہ عنایت
جب تھی آپ کے پاس
الجھنوں میں تھی تب
لیکن اس بات کی آئی آپ کو سمجھ اب
کہ خیال وہ تھے نہ عام
پھر ہو آپ کی زندگی کا قیام
مرض نہ تھا یہ غیر معمولی
تھی وہ ایسی آوازوں کی بولی
جو صرف نہ دیتی ہے سنائی
بغیر علاج مخلوق دیں گی دکھائی
زیادہ تر ہیں لوگ اس معلومات سے محروم
افسوس کی بات ہے، کہ مانیں آپ کو مظلوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Themes