خواجگان سلسلہ توحیدیہ کا سالانہ عرس مبارک

Published on January 23, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 148)      No Comments
      
  تحریر :  ایس۔اے۔صہبائی
     حضرت خواجہ عبدالحکیم انصاری ؒ  29جولائی 1893ء بروز ہفتہ دہلی کے قصبہ فرید آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ اُمہ العائشہ سادات خاندان کی ایک مطہر، پاکباز اور نیک خاتون تھیں۔ والد محترم حافظ عبدالرحیم اور دادا حضور مولانا عبدالعزیز اپنے وقت کے جید عالمِ دین  اور متشرع صوفی ہونے کے ساتھ لکھنؤ میں صدر اعلیٰ یعنی سینئر سب جج کے عُہدے پرفائز تھے۔پر دادا  حضور بھی عابد و زاہد بزرگ تھے۔ ان کا زیادہ وقت ایبٹ آباد میں گزرا۔آخر کار پنجاب میں کرنال کے مقام سے اے۔سی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوکر فرید آباد چلے گئے۔ آپؒ کے خاندان عالیہ کا شجرہ نسب حضرت ابو ایوب انصاری رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ حضرت خواجہ عبدالحکیم انصاری ؒ کی عمر مبارک ابھی دس برس کی ہی تھی کہ دادا حضور اس دنیا فانی سے تشریف لے گئے تاہم دادا حضور کی صحبت نے آپ میں بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ کشف و کرامات کا ظہور لڑکپن سے ہی ہونے لگا لیکن آپ نے کبھی بھی ان کو روحانیت کا معیارنہ سمجھا۔ آپؒ کے نزدیک بزرگی کا اصل معیار ”اخلاقِ حسنہ“تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؒ روحانی تربیت کے ساتھ اپنے مریدوں کی اخلاقی اصلاح پر بہت زور دیتے۔تزکیہ اخلاق کے لیے غصہ و نفرت چھوڑنے اور عالمگیر محبت اور صداقت اپنانے کا درس دیتے۔اپنے تمام مریدین کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے،زندگی کے ہر شعبے اور معاملے میں ان کی رہبری و رہنمائی فرماتے۔ آپ ؒ نے ہمیشہ سادگی،خوش اخلاقی او ر صاف گوئی کی تلقین فرمائی! چنانچہ فرماتے ہیں۔ ”حلقہ کی تعداد بڑھانا ہر گز مقصود نہیں میں تو یہ چاہتا ہوں کہ حلقہ میں کم سے کم آدمی ہوں لیکن وہ سب عقیدے کے لحاظ سے پکے مسلمان اور کھرے توحیدی اور اعمال و اخلاق کے لحاظ سے اعلیٰ درجے کے مومن ہوں۔“
حضرت قبلہ انصاری ؒ صاحب نے سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے مقاصد بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں کی ترقی اور زوال کی وجوہات،اسلامی عقائد،تصوف و حکمت،سلوک اور اس کے عملی طریقے،سلوک کا ماحصل،عبادات میں طہارت،نماز،دُعا،روزہ،حج،زکوٰۃو جہاد،معاملات اور اخلاق و آداب،حقوق اللہ،حقوق نفسی،حقوق العباد،کھانے،نشست و برخاست اور چلنے پھرنے کے آداب سے لیکر محاسن و مصائب اخلاق تک ایک ضخیم کتاب ”تعمیر ملت“تحریر فرمائی ہے۔
سالکانِ راہِ طریقت و معرفت، اللہ تعالیٰ  کے قرب و لقاء دیدار کے طالب،قرآن و سنت کی صحیح اور سچی اسلامی تعلیمات کے خواہشمند حضرات کی راہنمائی کے لیے بانی سلسلہ عالیہ توحیدیہ نے علم تصوف یعنی تصوف صحوی اور تصوف سکری کی مدلل انداز میں وضاحت فرمائی۔
       آپؒ کے نزدیک علمِ تصوف کا موضوع و مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت اور قرب و دیدارحاصل کرنا ہے۔
تصوف اور دوسرے علوم میں یہ فرق ہے کہ اور علوم تو پہلے حاصل کیے جاتے ہیں پھر ان پر عمل کیا جاتا ہے۔ لیکن تصوف میں اس کے برعکس پہلے کچھ عمل کرنے پڑتے ہیں پھر علم حاصل ہوتا ہے۔“
راہِ سلوک کے طالب کے لیے ذکر و اذکار کرنا لازمی ہے ذکر بنیاد ہے علم الٰہیات کے حصول کی۔ لفظ اللہ یعنی اسم ذات کا ذکر سانس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ دل میں جوش پیدا کرنے کے لیے نفی اثبات کاذکر بھی بہت ضروری ہے یہ جہر سے ہو تو بہت اچھا ہے اس سے خون میں گرمی پیدا ہوتی ہے اور دل و دماغ اس سے متاثر ہوجاتے ہیں اور اللہ اللہ بدن کے ایک ایک روئیں اور خون کے ایک ایک ذرے میں مل جاتا ہے۔
       علم الٰہیات سے عقل سلیم اور قلب سلیم پیدا ہوجاتا ہے۔علم لدنی حاصل ہوجاتا ہے جس کے آگے پھر کسی علم کی ضرورت نہیں رہتی۔ سالک میں وہ روحانی جذبہ اور مقناطیسی کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ جو اس کے پاس تھوڑی دیر بھی بیٹھتا ہے اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے اس لیے تمام دنیاوی کام بھی ہمیشہ اس کے حسب دلخواہ انجام پاتے ہیں۔ وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور خدا سے جو مانگتا ہے وہی ملتا ہے وہ ہمیشہ خوش رہتا اور دوسروں کو خوش رکھتا ہے سب سے بڑی بات یہ کہ خلق خدا کی اصلاح کرتا اور ان کو خدا تک پہنچاتا ہے آخرت کے لحاظ سے وہ نہ بائیں والوں میں ہوتا ہے نہ دائیں والوں میں بلکہ آگے والوں میں ہوتا ہے اور ہمیشہ قرب اور لقائے الٰہی سے شاد کام رہتا ہے۔“
حضرت قبلہ انصاری ؒ صاحب ایسی شخصیت صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے۔ملتِ اسلامیہ کی تعمیر نو آپ ؒ  کافکر تھا۔ توحید و محبت آپؒ کا مسلک۔اس قحط الرجال کے زمانے میں رضائے رب کریم کی خاطر آپ ؒ نے اللہ کے بندوں کو اللہ کے رنگ میں رنگنے کے لیے اپنا سب کچھ وقف کر ڈالا۔اگر یہ کہا جائے کہ صدیوں بعد اور بالخصوص حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے بعد ملت اسلامیہ کو خالص تصوّف سے روشناس کرانے والی ہستی آپ ؒ ہیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔ اس سلسلے میں آپ ؒ یہ سمجھتے تھے کہ ہم مسلمان تو ہیں مگر مومن نہیں۔ یوں آپؒ ایک جماعت تیار کرنا چاہتے ہیں۔ جو محض اللہ کے لیے اپنے آپ کو مسلمانوں کی بھلائی اور خدمت کے لیے وقف کر ڈالے۔ایسی جماعت جن کے افراد بیک وقت طالبانِ علم و حکمت،دائم اور قائم الیل اور صائم النھار،مجاہد و مومن،صالحین و شاکرین اور وتواصو بالحق وتواصو بالصبر کی عملی تفسیر ہوں۔
حضرت قبلہ انصاری ؒ عصرِ حاضر کے ہادیئ ملت ہیں امن و سلامتی،محبت و صداقت کے علمبردار،سکری تصوف کی بجائے تصوف صحوی اور عملی زندگی پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے مریدین کو علم و عمل کی ترغیب دیتے ہیں آپ ؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ”غصہ اور نفرت کی جھوٹی دیواریں گرا کر عالمگیر محبت اور صداقت کو اپنا شعار بنالو،عقیدہ توحید پر کاربند رہو۔ذکر الٰہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالو حتٰی کہ تم کو موت آجائے، تمہیں کیا معلوم کہ اس کا صلہ کیا ہے جنت تو بہت گھٹیا سودا ہے ہر دم اللہ کا ذکر کرو محض اللہ کے لیے اللہ اور اس کی مخلوق سے محبت کرو اور اسی کی طرف رجوع کرو کہ اللہ آپ سے راضی ہوجائے اور آپ اللہ سے۔“
بانی سلسلہ توحیدیہ نے اپنے وصال شریف سے قبل سلسلہ کے تمام معاملات جناب عبدالستار خان صاحب ؒ کے سپرد کردئیے۔ آسمان روحانیت کا یہ درخشندہ ستارہ انسانی اصلاح و تربیت اور تعمیر ملت یہ عظیم مشن قبلہ عبدالستار خانؒ کے حوالے کرکے 23جنوری1977ء کو اپنے محبوب حقیقی سے جاملا۔
قبلہ عبدالستار خانؒ نے سلسلہ عالیہ توحیدیہ کی جس محنت و جانفشانی سے آبیاری کی اس کی نظیر ملنا مشکل ہے آپ کی ذات شفیق نے مرشد معظم کی جدائی کے غم میں ڈوبے ہوئے دلوں کو نئی زندگی عطا کی اور احباب حلقہ کی اس شفقت و محبت سے خدمت کی کہ آپ ؒ سلسلہ عالیہ میں شامل تمام افرادکے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ آپ کی محبت کی خوشبو جہاں پرانے بھائیوں کو معطر کرتی رہی وہاں ہزاروں نئے پروانے بھی اس شمع محبت سے روشنی پاتے رہے۔
          آپ ؒ نے سلسلہ عالیہ کو استحکام بخشنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا اور مریدین کی خدمت کو نئی جہتوں سے ہمکنار کیا۔آپؒ نے خط و کتابت سے سلسلہ کے تمام مریدین کو ایسی پیار سے لبریز لڑی میں پرو دیا جو اپنی مثال آپ ہے۔ہر مرید سے ان کی محبت اپنی جگہ مگر ایک کے سامنے دوسرے کا پیار بھراذکر ہر ایک کو ایسی خوشبو میں معطر کرتا گیا کہ سب ایک مربوط اور مجسم گلشن کی صورت اختیار کرتے گئے۔
آپ ؒ سلسلہ عالیہ کے مشن کو ایک مقدس امانت کے طور پر جس طرح عزیز رکھتے اس کے ہم سب گواہ ہیں آپ ؒ  کی زندگی کا ہر لمحہ سلسلہ عالیہ کی وسعت و رفعت اور استحکام کے لیے مصروف عمل نظر آتا ہے آپ ؒ کی سلسلے سے یہی محبت اور پاس امانت کا احساس روز اوّل سے ہی امانت دار کے انتخاب کے لیے کوشاں تھا۔آپؒ کی نظرانتخاب اللہ کے حکم سے اسکوارڈرن لیڈر (ر)حضرت قبلہ غلام رسول شاہد رحمتہ اللہ علیہ پر پڑی جنکی تمام زندگی عشق اللہ اور حب رسولﷺ کی آئینہ دار ہے۔آپ کا فیضان نظر راہ سلوک کے تشنہ قلوب کے دلوں کی دھڑکن آج بھی ہے۔راقم کو آپ کی بدولت اللہ اور رسول خداﷺ کے دیدار سے فیضیاب ہوا۔اگر میں قبلہ غلام رسول شاہد کی کرامات کا صفحہ قرطاس پر رقم کرنا شروع کروں تو صفحات کم پڑ ھ جائیں۔المختصر قبلہ شاہد رحمتہ اللہ سے بڑھ کر عاشق رسولﷺ اور عاشق اہل بیعت کوئی نہیں دیکھا۔بعد کے ادوار میں کچھ روحانی معاملات ایسے تھے جنکی وجہ سے میں نے ان دنیاوں اور جہانوں کی سیر کی جس کا انکے جہان سے کوئی تعلق نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اپنے سلوک کی انتہا پر پہنچ کر پھر سے اپنوں میں لوٹ آیا ہوں کیونکہ خدائے واھد اللہ سبحان سے بڑھ کر کائناتوں کے نظام کو کوئی نہیں چلا سکتا۔
قبلہ غلام رسول شاہد نے اپنے جانشین کی حیثیت سے اپنے صاحبزادہ مزین رسول الہاشمی کا انتخاب سلسلہ عالیہ اور گلشن حکیم کی نگہبانی کے لیے کئی سال پہلے سے ہی کر رکھا تھا ۔ آپ ؒدعا فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سلسلہ عالیہ کو خوب وسعت و رفعت عطا فرمائے اور بلاشبہ حلقہ توحیدیہ کی وسعت و رفعت آپؒ ہی کی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔ آپ ؒ ہم سب کو اس دنیائے فانی میں اشکبار چھوڑکر جنوری 2020  اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔اِنا لِلّٰہِ وانا الیہِ راجعون
ملتِ اسلامیہ کی بقا کے لیے لازمی ہے کہ تمام فرقے اور جماعتیں شدید مذہبی،سیاسی اور معاشرتی اختلافات کو مٹاکر،قرآن وسُنہ کی تعلیمات کو اپنائیں۔ہمدردی،محبت و یکجہتی،اخلاص اور ایثار کے سچے جذبات کی طاقت کے بل بوتے پر ملت واحدہ کی صورت اختیار کرلیں۔اور ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی کو عارضی زندگی پر ترجیح دیں۔اللہ رب العزت ہمیں صراطِ مستقیم پر قائم رکھے اور ہمارے دلوں کو محبت رسول ﷺ سے مزین کرکے اللہ رب العزت کے قرب،لقاء اور دیدار سے سرفراز فرمائے۔آمین۔ثم آمین
Readers Comments (0)




WordPress Themes

Premium WordPress Themes