علامہ اقبال ؒکی اردو شاعری کی کتب

Published on June 6, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 136)      No Comments

تحریر۔۔۔ میر افسر امان
آج علامہ شیخ محمد اقبال ؒ کی اُردو شاعری کی چار کتب ،،بال جبرائیل،بانگ درا، ضرب کلیم اورارمغان حجاز پر گفتگو کرتے ہیں۔ راقم ”اقبال ۔قائد۔ مودودی۔ فکری فورم چلا رہے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے راقم کو پتہ چلا کہ علامہ اقبالؒ کی فارسی کتب کا اُرود تشریع کے ساتھ مارکیٹ میں موجودہیں۔ علامہ اقبال ؒسے والہانہ محبت کی وجہ سے راقم نے علامہ اقبالؒ کی چار اُردو اور چھ فارسی کی کتب مارکیٹ سے منگوائیں۔جبکہ لائیبریری میں پہلے سے علامہ اقبالؒ کی کئی کتابیں موجود تھیں۔ راقم فارسی سے نابلد ہے۔ مگر یہ ایسا ہی کچھ محبت کا تقاضہ تھاکہ جیسے برعظیم کے مسلمانوں بانی پاکستان قائد اعظمؒ کی انگریزی میں تقریریں سنتے تھے ۔بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ مگر ان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ قائد اعظمؒ ہمارے محسن ہیں۔ یہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں جس زبان بھی کہہ رہے صحیح کہہ رہے ہیں۔ ہماری نجات کے لیے کہہ رہے ہیں ۔لہٰذا ہمارے سر آنکھوں پر۔
علامہ اقبالؒ کی شاعری کی مختلف جہتیں ہیں۔ علامہ اقبالؒ کی شاعری کی اِن کتب نے برعظیم کے مسلمانوں کو غلامی کی رنجیریں توڑنے کے لیے اُکسایا گیا۔ علامہ اقبال ؒسارے عالم کے مظلوموں کی آواز بنے ہیں۔ علامہ اقبال ؒحکیم الامت ہیں۔ امت کے دُکھتے امور کو شاعری میں ڈھال کرامت کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی ۔ علامہ اقبالؒ فلسفی شاعر ہیں۔علامہ اقبالؒ مفسر قرآن و حدیث ہیں۔ قرآن کے احکامات اوررسول کی ہدایات کو شاعری کے رنگ میں ڈال کر مسلمانوں اور انسانیت کو رائے راست پر بلانے کی کوشش کی ہے۔ علامہ اقبال ؒتاریخ عالم اور خاص کر اسلامی تاریخ کو اُجاگر کرنے والے شاعر ہیں۔ علامہ اقبال شکوہ جواب شکوہ میں اپنے رب سے ہم کلام ہیں۔ اس میں مسلمانوں کے عروج اور اللہ کی راہ میں قربانیوں کو بیان کیا گیا۔ اللہ سے پہلے والی مدد کی درخواست کی گئی۔ پھر خود ہی جواب شکوہ میںکہتے ہیں کہ مسلمان پہلے والی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرو گے تو اللہ کی طرف سے پہلے جیسی مدد بھی آ سکتی ہے۔علامہ اقبال شاعر مشرق ہیں ۔ وہ مشرقی عوام خصوصاً مسلمانوں سے اپنی شاعری میں مخاطب ہوتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ مغرب میں قیام کے دوران مغربی فلسفہ کاگہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں۔ اور اس کی خرابیوں کو رد کرتے ہیں۔ اس کی خوبیوں کو اُجاگر کرتے ہیں۔ اس طرح علامہ اقبالؒ انسانیت کے شاعر ہیں۔ انسانیت کو اپنی خودی کی پہچان کا سبق پڑھاتے ہیں۔علامہ اقبالؒ اللہ کے آخری بنی حضرت محمد صلی علیہ وسلم کے حقیقی عاشق ہیں۔ جب آ ل انڈیا مسلم لیگ کے لوگوں کو الیکشن میں کھڑا ہونے کے ٹکت جاری کرتے ہیں۔ تو اس ختم نبوت کے ایک حلف نامہ دستخط کرواتے کہ الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعدپنجاب اسمبلی میںختم نبوت بل پیش کریں گے۔علامہ اقبالؒ مرد شناس ہیں۔ وہ فلسطینی مسلمانوں پر برطانیہ کے جبری معاہدے بلفور کے خلاف آواز اُٹھانے کے لیے فلسطین کانفرنس میں شرکت کرتے ہیں ۔علامہ اقبالؒ کشمیر کے مسلمانوں پر ہندوﺅں کے اور انگریزوں کے مظالم اُجاگر کرتے ہیں۔ہم نے علامہ اقبالؒ کی چند جہتوں کا ذکر کیا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی علامہ اقبالؒ کی اور بہت سے جہتیں ہیں۔ جیسے جیسے قاری علامہ اقبالؒ کی شاعری اور نثر کا مطالعہ کرتا ہے ان کے سامنے یہ ساری جہتیں کھلتی جاتیں ہیں۔
مسلمانوں کی غلامی کا ذکر کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ:۔
یہ ذکر ِنیم شبی،یہ مرقبے،یہ سرور
تری خود کے نگہباں نہیںتو کچھ بھی نہیں
یعنی آزادی صرف عبادات کرنے سے نہیں ملتی۔جب تک تم خود، اپنی خودی کی نگہبانی نہیں کرو گے۔ تب تک بات نہیں بنے گی۔
ساری دنیا کے مظلوں کے پشیتبان بنتے ہوئے ایک طویل نظم ”خِضرِراہ“ فرماتے ہیں کہ:۔
اُٹھ کہ ان بزم جہاںکا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اس شعر میںدنیا کے مظلوموں کو اپنے حقوق کے لیے اُبھارتے ہیں
علامہ اقبالؒ حکیم الامت ہیں۔ اس سلسلے میں فرماتے ہیںکہ:۔
کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستان
مجھ سے کچھ پنہاں نہیںاسلامیوں سوز ساز
یعنی مجھے ترک اور عرب کے مسلمانوں کی داستان معلوم میں ۔ انہوں نے اسلام کے دامن کو چھوڑ کر قومیت کو اپنایاتو دنیا میں تتر بتتر ہو گئے۔ دشمنوں نے انھیں غلام بنا لیا۔
علامہ اقبال مفسر قرآن و حدیث ہیں۔فرماتے ہیں کہ:۔
سروری زیبافقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراںہے اک وہی باقی بتان آذری
سارے جہاں پر حکومت اس جہاں کو پیدا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ دنیا کے بادشاہوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ دنیا کے بادشاہ آزر کے بت ہیں۔
علامہ اقبال ؒ فلسفی شاعر ہیں۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمیر سنان اوّل طاہوس و رباب آخر
اس شعر میں دنیا کی قوموں کے عروج و زوال کو بیان کیا گیا ہے۔
۔علامہ اقبال شکوہ جواب شکوہ میں اپنے رب سے ہم کلام ہیں۔
رحمتیں ہیں تری اغیار کے شان کاشانوں پر
برق گرتی ہے توبیچارے مسلمانوں پر
اقبال شکوہ کے اس شعر میں اللہ سے شکایت کرتے نظر آتے ہیں
اُٹھومیری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ ِامراکے درو دیوار کو ہلادو
اس شعر میں اللہ کی مخلوق کو اُوپر اٹھانے کی بات کرتے ہیں۔ بادشاہوں کی چودھراہٹ پر ضرب لگاتے ہیں۔
آج بھی جوہو ابراھیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
اس شعر میںمسلموں کو یاد کراتے ہیں کہ تم ابراھیمؑ جیسی قربانیاں دینے والے بنو۔ اللہ آگ کو آج بھی ٹھنڈا کر سکتا ہے۔پہلے کی طرح اب بھی تم دنیا پرغالب ہو سکتے ہو۔اگر تم مومن بنو۔
۔علامہ اقبالؒ شاعر مشرق ہیں ۔
کھول آنکھ،زمیں دیکھ،فلک دیکھ،فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرادیکھ
اس شعر میں مشرقی سے طلوع ہونے والے سورج کا حوالہ دے کر مسلمانوںکو جد جہد پر آمادہ کرتے ہیں ۔کہتے کہ اللہ کی داہمی حقیقتوںکوہواس قائم رکھتے ہوئے دیکھو۔جیسے سورج مشرق سے طلوع ہو کر پوری دنیا کو روشن کر تا۔ تم بھی مومن بن کر پوری دنیا پر چھا سکتے ہو۔
۔ علامہ اقبالؒ مغرب میں قیام کے دوران مغربی فلسفہ کاگہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، نا پائدار ہو گا
اس شعر میںمغرب کے ہومینزم کے فلسفہ پر تنقید کرتے ہیں۔ تمھاری تہذیب جوگمان پر مبنی نہیں۔ یہ خود ہی تباہ ہو جائے گی۔ رہے کا نام اللہ کا۔
علامہ اقبال شاعر اسلام ہیں۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا
اس شعر میں مسلمانوں کو خودی پر عمل کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ جب تم سچے مسلمان بن جاﺅ گے۔تو تمھیں اللہ کی رضا حاصل ہو جائے گی۔
علامہ اقبالؒ اللہ کے آخری بنی حضرت محمد صلی علیہ وسلم کے حقیقی عاشق ہیں
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
یہ جواب شکوہ کا شعر ہے۔ علامہ اقبالؒ کا ایثار دیکھیں ۔جواب شکوہ ایک جلسے لاہور موچی دروازہ جس کا اہتمام مولانا ظفر علی خان نے کیا تھا میں پڑھ کرسنائی گئی تھی۔ کثیر تعداد میں فروخت ہوئی تھی۔ اس کی ساری آمدنی بلقان فنڈ میں دے گئی تھی۔
علامہ اقبالؒ مرد شناس ہیں۔ اپنے زمانے کے اکابرین کے نام اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کئی خطوط لکھے۔ سید ابوالااعلیٰ مودودیؒ کوان کے وطن حیدر آباد کو اللہ کی لیے چھوڑنے پر راضی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پنجاب کے شہر پٹھانجمال پور آﺅ اور اسلامی فقہ کی تدوین جدید کرو، اور اسلام کے عملی نفاظ کے لیے ایک اسلامی جماعت کی بنیاد رکھو۔ وہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ بانی پاکستان ،جو مسلم لیگ کے لیڈروں کے رویہ سے پریشان ہوکر لندن میں سکونت پذیر ہو گئے تھے ۔ اس کوواپس براعظیم آکر آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھال کر مسلمانوں کی ڈوبتی کشتی کو کنارے پہنچانے پر راضی کرتے ہیں۔ پھر قائد اعظمؒنے پر امن طریقے سے ہندو اور انگریز کو دلیل کے بل بوتے پر پاکستان حاصل کیا۔
شام و فلسطینی مسلمانوں پر برطانیہ کے جبری معاہدے بلفور کے خلاف آواز اُٹھانے کے لیے فلسطین کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے ہیں فرماتے ہیں کہ:۔
ہے خاک فلسطین پریہود ی کا اگر حق
ہسپانیہ پرحق نہیںکیوںاہل عرب کا
یعنی یہودی جو کہتے ہیںکہ فلسطین پر ہمارہ حق ہے ۔ تو پھر عربوں نے اسپین پر آٹھ سو سال حکومت کی ہے لہٰذا ان بھی حق اسپین پر تسلیم کرو۔
۔علامہ اقبالؒ کشمیر کے مسلمانوں پر ہندوﺅں اور انگریزوں کا اس شعر میں ذکر کرتے ہیں کہ:۔
دہقان وکشت و جُو خایبان فروختند
قومے فروختند وچے ارزاں فروختند
انگریزوں نے دنیا کا عجیب و غریب فیصلہ کرتے ہو کشمیر کو صرف پچھترہزار( 75) نانک شاہی سکوں کے ہوض فروخت کیا تھا۔ جو دنیا کی ایک انہونی ہے ۔
صاحبو! ہم نے علامہ اقبالؒ کی شاعری اور نثر کے اپنے مطالعے کی اپنی حد تک مختصر رُوداد بیان کی ہے۔ علامہ اقبالؒ کی شاعری و نثر کی بے شمار جہتیں ہیں۔ قاری جب جب علامہ اقبالؒ کا مطالعہ کرے گا۔ اپنے اپنے انداز میں اسے بیان کرتا رہے گا۔ ہاں! علامہ اقبالؒ کا ایک قول، جو شورش کاشمیری نے اپنی کتاب ”فیضان ِ اقبال“ ۔تجلیاتِ کلیم و مشاہدات حکیم! میں درج ہے۔ کہا کہ میری شاعری کو سمجھنے کے لیے قاری کو پہلے قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔علامہ اقبالؒ حاضر و موجود سے سے بیزار کرنے اور نئے جہاں آباد کرنے والے شاعر ہیں۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress主题