ماڈرن عورت اور اسلام

Published on July 21, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 86)      No Comments

تحریر: عمارہ کنول
شروع اس ذات پاک کے نام سے جو تمام مخلوقات کا پالنے والا ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب تر ہے،عورت ربّ تعالیٰ کی بنائی ہوئی وہ مخلوق ہے جو جیسی بننا چاہے ویسی بن جاتی ھے ماں ہو تو اماں ہاجرہ بن کر صفاومروہ کو حج کا رکن بنا دیتی ہے بیٹی ہو تو فاطمہ بن کر کملی والے کی کملی پر بیٹھنے کی جگہ بنا لیتی ہے بیوی ہو تو خدیجہ، و عائشہ، کی شکل میں محبت ووفا کا پیکر بن جاتی ہے بیٹے کی عدم موجودگی میں ماں باپ کا سہارا بن جاتی ہے شوہر کی عدم موجودگی میں اولاد کے لیے باپ بن جاتی ہے غرض یہ کہ وفا میں عورت سے آج تک کوئی جیت نہیں سکا کیونکہ وفا ہے ذات عورت کی۔
اسلام کے آنے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عورت بناو¿سنگھار کر کے سرعام بازاروں میں گھوما کرتی تھی سرعام اس کے حقوق اس کی عزت کو پامال کر دیا جاتا تھا اگر کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو اسے اس کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ پیدا ہونے والی بچی کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورة التکویر کی آیت نمبر 8،9 میں ارشاد فرمایا”اور جب اس بچی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ کے سبب وہ قتل کر دی گئی تھی“ اسلام آیا اس نے عورت کو وہ عزت ومقام دیا وہ تمام حقوق دیے جس کی اسے ضرورت تھی نبی کریم نے ارشاد فرمایا ”جو شخص اپنی دو بیٹیوں کی پرورش کر کے ان کی اچھی جگہ شادی کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ اس طرح کھڑا ہوگا جس طرح یہ دو انگلیاں“ اسلام نے عورت کو وارثت میں حق دیا عورت کو اس قدر عزت دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کو ماں کے قدموں تلے رکھ دیا۔
اللہ تعالیٰ نے سورة الاحزاب کی آیت نمبر 33میں ارشاد فرمایا کہ “اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ ہو جیسے اگلی جاہلیت کی عورتوں کی طرح اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو اور یہ اللہ اور اسکے رسول کا حکم ہے” کیا آج کی عورت اس آیت کے مطابق چل رہی ہے یا وہ زمانہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح بن چکی ہے۔ آج وہ خود کو ماڈرن کہہ رہی ہے لیکن درحقیقت وہ ماڈرن نہیں بلکہ جاہلیت کی عورتوں جیسی بن چکی ہے مغرب کہتا ہے کہ اسلام نے عورت کو قید کردیا ہے اسلام نے قید نہیں کیا بلکہ عورت کو ان ہوس پرستوں کی نظر سے محفوظ کیا ہے حقیقت میں تو مغرب نے عورت کو قید کیا ہوا ہے عورت کی آزادی تو کوئی بھی نہیں چاہتا بلکہ اس تک پہنچنے کی آزادی تو ہر کوئی چاہتا ہے۔
آجکل پاکستان جیسے اسلامی ملک میں تو قومی لباس برائے نام رہ گیا ہے آجکل کی نوجوان لڑکیاں یونیورسٹیوں کالجوں میں سرعام جینز اور پینٹس میں گھوم رہی ہوتی ہیں اس لڑکی کو یونیورسٹی چھوڑنے والا آدمی اکثر اس کا باپ بھائی اور شوہر ہی ہوتا ہے جب وہ لڑکی چل کر جا رہی ہوتی ہے تو آنے جانے والے ہر آدمی کی نظر اس پر پڑتی ہے تو کیا خیال ہے وہ آپ کو پاکیزہ نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے ؟ اور اس کے مقابلے میں وہ لڑکی جو مکمل پردے میں یونیورسٹی آئی اس کو دیکھ کر ہر آدمی کی نظر جھک جاتی ہے کیونکہ اس کی تمام تر نظریں ناکام واپس لوٹ آتی ہیں پردے والی لڑکی کو کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا بغیر پردے والی لڑکی کو دیکھ کر مرد کے ذہن میں جوخیال آتے ہیں اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا کیا اس لڑکی کے باپ بھائی اور شوہر کی غیرت کا مر جانا کہہ سکتے ہیں کیا یہ وہی عورت ہے جس کے بارے میں نبی نے ارشاد فرمایا تھا کہ “ایک عورت چار مردوں کو لے کر جہنم میں جائے گی باپ بھائی شوہر اور بیٹا” میرا سوال ہے آج کی ماں سے بہن سے اور بیٹی سے آپ کیا سوچ کر مغربی لباس زیب تن کرتی اور کرواتی ہیں کہ “خیر ہے بچی ہی تو ہے” اگر 3،6سال کی لڑکی بچی ہے تو کیا 15،25سال کی لڑکی بھی بچی ہے نعوذباللہ آج کی عورت حضرت فاطمہؓ عائشہؓ اور خدیجہؓ سے زیادہ پاکیزہ ہو گئی ہے جو کہتی ہے کہ ذہن صاف ہونا چاہیے یاد رکھیں آپ کا ذہن فاطمہ بنت محمد سے زیادہ صاف نہیں ہو سکتا پردے کا حکم ان کو بھی تھا ایک دفعہ نابینا صحابی آئے نبی نے کہا بیٹی تم اندر چلی جاؤکہنے لگیں بابا جان یہ تو نابینا ہیں نبی نے کہا بیٹی نابینا وہ ہیں آپ نہیں۔
یاد رکھیں وہی لڑکیاں جینز والی ہیں جن کی ماو¿ں نے یہ کہہ کر جینس پہنائی تھی کہ خیر ہے بچی ہی تو ہے پھر یہی عورتیں “میرا جسم میری مرضی” جیسے فحش نعروں کو فروغ دے رہی ہوتی ہیں اور معاشرے میں بے حیائی پھیلا رہی ہوتی ہیں۔ ان عورتوں کی مثال ان بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہے جن کے مالک نے انہیں بھیڑیے کے ڈر سے چار دیواری میں رکھا تھا لیکن بھیڑیے نے ان کو ورغلایا کہ تم کو تمہارے مالک نے قید کر رکھا ہے اس قید سے نکلو اپنی آزادی کے لیے لڑو بھیڑیے کی باتوں میں آکر بکریوں نے احتجاج شروع کر دیا ان کو لگا بھیڑیا ہمارا ہمدرد ہے ہماری آزادی کی لیے بات کی اس نے! ان بکریوں میں ایک دانا بکری بھی موجود تھی اس نے نوجوان بکریوں کو سمجھایا کہ یہ تمہیں اس چار دیواری سے باہر نکال کر تمہارا شکار کرنا چاہتا ہے انہوں نے اس بکری کی بات نہیں مانی اور باہر نکل گئیں بھیڑیا جو اس تاک میں تھا جیسے ہی بکریاں باہر نکلیں ان کو شکار کیا۔
یہی مثال ہمارے معاشرے کے مردوں کی اور مغرب کی ہے جو عورت کی آزادی تو نہیں چاہتے مگر اس تک رسائی چاہتے ہیں،سوال میرا یہ ہے کہ کیا عورت اس آیت کے مطابق چل رہی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورة الاحزاب کی آیت نمبر 59 میں ارشاد فرمایا کہ “اے نبی اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہے” یہ حکم اس لیے دیا گیا تاکہ پہچانی جاسکے کہ یہ کوئی عام عورت نہیں بلکہ مسلمان عورت ہے۔ آج کی عورت خود فیصلہ کر لے کہ وہ فاطمہ بنتِ محمد کے ساتھ کھڑی ہے جس نے یہ کہا تھا علیؓ میرا جنازہ رات کے اندھیرے میں کرنا تاکہ کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑے یا ان لبرل آنٹیوں کے ساتھ کھڑی ہیں جو کہتی ہیں میرا جسم میری مرضی فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
عورت باپردہ ہو تو انمول
بے پردہ ہو جائے تو بے مول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Readers Comments (0)




Weboy

Weboy