تعزیت یاتکلیف دہ عوامل؟؟؟

Published on October 25, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 33)      No Comments

تحریر:جویریہ یونس
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہر انسان کو مرنا ہے۔ہر کسی کو اپنے کسی عزیز کے انتقال کے صدمے سے دوچار ہونا بھی پڑتا ہے تو لوگ مرنے والے کی یاد میں نہ صرف آنسو بہا رہے ہوتے ہیں بلکہ ماتم اور بین کے انداز میں دوسروں کو بھی رولا رہے ہوتے ہیں اور یہ چیز عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے کہ وہ اس قدر خطرناک چیختیں ہیں کہ اللہ معاف کرے بہت خوفناک روتی ہیں۔ دیکھ کر تو ایسے لگتا ہے جیسے یہی میت اسکی کل جہاں تھی۔ اس کی دیکھا دیکھی آس پاس سب عورتوں کی آوازیں بلند ہوجاتیں ہیں۔
اچانک سے کوئی بندہ ان عورتوں کو دیکھ لے تو اس بچارے کو یہی لگے گا کہ شاید چیخنے کا مقابلہ ہو رہا ہے۔جو کم روئی وہ تو فیل ہو گی۔جو زیادہ روئی تو سمجھو اس نے تو کمال ہی کر دیا۔ پھر حقیقت میں ایسا ہی ہوتا ہے میت کے دفنانے کے بعد باتوں میں سب سے زیادہ طنز کا نشانہ وہی بنتی ہے جو کم روئی ہو۔ رونا فرض نہیں ہے۔بلکہ یہ ہماری فطرت میں ہے جب کوئی ہم سے ہمارا عزیز جدا ہو جاتا ہے۔رونا تو آتا ہی ہے۔ اور اسلام میں بھی رونے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ چیخنے چلانے پر پابندی ہے۔ بلکہ سختی سے منع ہے کیونکہ آنسو انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے۔ شدید دکھ میں آنسو نکل ہی آتے ہیں۔ اگر ہم اس موقع پر صبر کریں۔ تو ہمیں اس کا اجر ملے گا۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت صدمہ پہنچے اس وقت ہی صبر کی فضیلت ہوتی ہے۔چیخنے چلانے سے میت کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔
پھر یوں ہوتا ہے کہ جب میت کو دفنانے،یا غسل دینے کا وقت آتا ہے تو کچھ ایسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔ کہ لاش کو اٹھانے کا وقت آگیا ہے۔ یا پھر ڈیڈ باڈی کو غسل دینا ہے۔ یا یوں کہ مردے کو لے آؤ وغیرہ وغیرہ۔ یہ انتہائی غیر مہذب،تکلیف دہ، اور غیر شائستہ الفاظ ہوتے ہیں۔یہ نامناسب الفاظ لواحقین کے لیے انتہائی دل دکھانے کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے الفاظ کہنے سے گریز کیجئے۔
لیکن یاد رکھیں آپ کے پڑوس یا رشتہ داروں میں کسی کی وفات ہو جائے تو اس کے لواحقین سے رابطے میں رہنا چاہیے۔پھر جس کا انتقال شدہ شخص سے گہرا تعلق ہو وہ ڈپریشن جیسی کیفیات کے ساتھ اس چیز کو بھی نوٹس کر رہے ہوتے ہیں کہ کون تسلی دے کر سکون دے رہا ہے؟ ایسے موقع پر انہیں ہماری بہت ضرورت ہوتی ہے۔
تعزیت کے حوالے سے یہ بات بہت ہی قابل غور ہے کہ تعزیت صرف تین دن تک ہوتی ہے۔ جتنا جلدی ہو سکے ان تین دنوں کے اندر اندر تعزیت کر لینی چاہیے۔ کیوں کہ تین دن کے بعد جب بھی کوئی تعزیت کے لئے جاتا ہے وہ میت کے غم کی کمی کو بڑھاتا ہے۔ اور تکلیف کا باعث بنتا ہے۔کیوں کہ یہ لوگ تو دعائے مغفرت کر کے ٹھیک ٹھاک چلے جاتے ہیں لیکن پیچھے سے غم کو تازہ کر جاتے ہیں۔ اچھا پھر کچھ لوگ تعزیت کے لیے آتے ہیں تو دھرنا مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ظاہر ہے تعزیت کے لیے ہی آکر ان بیچاروں پر احسان کیا ہے۔ احسان کا بدلہ بھی تو چکانا ہو گا۔چائے کھانا پانی کی صورت میں۔ یہ دعائے خیر بھی اتنی لمبی چلتی ہیں۔ کچھ گھرانوں میں تو مہینوں چلتی ہے۔ اگر ان کی خاطر تواضع نہ کی جائے تو پھر یہی لواحقین بعد میں طنز کا نشانہ بنتے ہیں۔ مجبورا ًزمانے کا دستور نبھانا ہوتا ہے۔ ہمارے پڑوس میں ایک بار فوتگی ہوئی تو شاید ایک مہینے بعد وہ عورت میری امی سے کہنے لگی میرا بیٹا فوت ہوا اس کی ہمیں بہت زیادہ تکلیف ہوئی لیکن اس سے زیادہ تکلیف ہمیں ان تعزیت کرنے والے جو آتے ہیں انہوں نے دی۔ہمارے ہاں ایک رواج بن چکا ہے کہ جو بھی تعزیت کرنے آئے گا اس کے لئے اہتمام کیا جائے گا۔کھانا پھر چائے پانی وغیرہ۔ کہنے لگی سارا دن ان دعائے خیر والوں کی خدمتیں کر کر کے جب رات کو میں لیٹتی ہوں تو میرے جسم کے ہر حصے میں درد ہوتا ہے۔اور اتنی تھکاوٹ کی وجہ سے مجھے نیند ہی نہیں آتی۔پھر وہ عورت اتنا روئی۔ اتنا بے بس تھی۔کہنے لگی اب ان کو کوئی آنے سے منع بھی تو نہیں کر سکتا
نا۔اب آپ خود سوچیں کیا یہ صحیح ہے؟
کیا تعزیت کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ لواحقین کے گھر جا کر کھانا کھایا جائے؟ ایسا کرنا غیرت کے خلاف ہے۔ لواحقین کے گھر جا کر جو کھاتا، پیتا ہے اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو وہ سب سے بڑا کم ظرف ہے۔ کیونکہ ایک غیرت مند انسان کبھی بھی غم کے موقع پر یا اس طرح کے موقع پر جا کر ان کے گھر کھانا نہیں کھائے گا۔ ارے کھانا تو خوشیوں کے موقع پر کھایا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو تعزیت کا مطلب ہی تسلی دینا ہے۔ حوصلہ دینا ہے۔ لیکن یہاں پر تو یہ خود ہی ان کیلیے بڑی مصیبت ہوتے ہیں۔ ہر چیز کو ایک رواج بنا دیا ہے۔ تعزیت کرنے کا بہترین طریقہ جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے جب کسی کی تعزیت کے لیے جائیں تو یہ تین الفاظ بولیں۔ نمبر ۱: (اللہ آپ کے اجر میں اضافہ کرے جو آپ کو مصیبت پہنچی ہے)، نمبر ۲: (اللہ آپ کو تسلی دے)،نمبر ۳: (اور مرحوم کی مغفرت فرمائے) اور ضروری نہیں ہے کہ یہ دعا ہاتھ اٹھا کر ہی کی جائے۔یا پھر یوں کہیں کہ اچھے لوگ بہت جلد دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔بس اور واپسی کا راستہ لیا جائے۔ تعزیت اس انداز سے کرنی چاہیے کہ اگلے بندے کو حوصلہ ہو اور صبر آجائے۔ اکثر لوگ تو جس مقصد کے لیے جاتے ہیں یعنی دعائے خیر وہ تو ہوتی نہیں بس کھا پی کر آ جاتے ہیں۔کبھی کبھی تو تسلی دینے کے لیے تین تین چار چار دن وہی رکتے ہیں اکثر لوگ تو کھانے پینے کے لئے ہی جاتے ہیں۔ اسلام میں جن جن چیزوں کی بھی ممانعت ہے لوگوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ ایک سماجی تقریب کے طور پر منانا شروع کر دیا ہے۔ آپ سب سے درخواست ہے اگر آپ بھی ایسی ہی تعزیت کرنے لوگوں کے ہاں جاتے ہیں تو خدارا ایسی تعزیت کرنا چھوڑ دیں۔ بلکہ جائیں ہی نہ.اللہ ہم سب کو ایسی بدعات سے دور رکھے۔ سنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین یا رحمت اللعالمین۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress Blog