پی ٹی وی کے ”جناح سے قائد“ سے ایوارڈز کی فہرست سے نام ہی خارج کر دیا گیا
جناح کا قائداعظم پر وزیر اطلاعات مشاہد حسین کی طرف سے صرف”تعریفی خط
موصول ہوا
تحریر و تحقیق: طلال فرحت
یہ افسوسناک بات ہے کہ ہمیں اپنے پاکستان کے کچھ قیمتی اثاثے یاد ہی نہیں ہیں کیونکہ ہم گلیمر کی چکا چونددنیا سے بہت متاثر ہیں، لوگ ہاتھ میں موبائل لے کر سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کا علم انھوں نے حاصل کر لیا ہے مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے جس نے دب کا مطالعہ کیا،کتاب اور رسائل پڑھے، انہیں ادب کی افادیت کا علم ہے مگرآج کی جنریشن کتاب کی افادیت کو بھلا کیا جانیں،مزاح لکھنا کوئی مذاق بات نہیں،میں سمجھتا ہوں کہ اس سے قبل شاید ہی اتنے تفصیل سے قلم اٹھانے کی کوشش کی ہوگی جس طرح سے میں آج کر رہا ہوں وہ محترم، شفیق، ملنسار اور نہایت ہی علمی ذوق رکھنے والے جناب ”کیف رضوانی“ صاحب ہیں،
کیف رضوانی صاحب ذہین، ادیب، شاعر، مزاح نگار کے ساتھ ڈرامہ نگارتھے، کیف رضوانی اصل میں کون ہیں؟ آپ میں سے اکثر ان سے واقف نہیں ہوں گے چلیے آج میں آپ کو ان کے بارے میں تفصیل سے معلومات دیے دیتا ہوں، کیف رضوانی صاحب1940 میں حیدرآباد شہر دکن میں پیدا ہوئے،اصل نام”فخر الحسن“ تھا، وہ کراچی میں واقع ایک کنسٹرکشن فرم میں بطور اکاؤنٹنٹ کام کرتے تھے،پوری زندگی انہوں نے گھر نہیں بنایا اوریوں کرائے کے مکانات تبدیل کرتے کرتے ان کی زندگی بیت گئی، انہوں نے متعدد ٹیلی ویژن کیلئے سیریلز، نثری شاعری کی، اس کے علاوہ کئی اعلیٰ ناموں کے لیے رائٹر کا کام بھی انجام دیا یعنی لکھتے وہ تھے اور نام کسی اور کانظر آتا تھا، ان کی خاندانی روایات نے ایسا جکڑا تھا کہ کبھی انہوں نے کسی ایک کے نام کا بھی اپنے ملنے جلنے اور پریس میں انکشاف نہیں کیا،ان سے میری ملاقات پاکستان ٹیلی وژن کے کراچی سینٹر پر1993میں ہوئی جب وہ سینئر پروڈیوسرعلی رضوی (مرحوم) کا مزاحیہ سیریل ”فیملی93“ کیلئے لکھ رہے تھے، انہوں نے پی ٹی وی کے لیے بہت لکھا اور اچھا لکھا،فیملی 93،غفار ایٹ دھوراجی، عید گراؤنڈ، عید کلوننگ، آنچ شو، ایسکیوز می اور دیگر لاتعداد پروگرامز میں شامل ہیں، بہت کم لوگ اس بات کو جانتے ہونگے کہ پی ٹی وی پر معین اختر (مرحوم) کیلئے ”ایسکیوز می“ ڈرامہ لکھا کھیل میں اتنے تیزوند جملے تھے جس کے بعد چار اقساط آن ایئر ہونے کے بعد بند کردیا گیا،یہی نہیں بلکہ انہوں نے ایک اور مزاحیہ خاکوں پر مبنی پروگرام ”پینلٹی اسٹروک“ بھی لکھا تھا، جس کے پروڈیوسر اقبال لطیف تھے اور اس مزاحیہ شو میں کچھ خاکوں کیلئے بطور معاون میں نے اپنی خدمات بھی انجام دیں، مزے کی بات یہ کہ اس وقت کی حکومت کے اعلی عہدیداروں نے ”پینلٹی اسٹروک“ کی پہلی ہی قسط آن ایئر جانے پر اس پر ”بین“ لگا دیا اور یوں اس طرح دوبارہ سے کبھی اس کی دیگر اقساط تا حال آن ایئر نہ جا سکیں، میر خلیل الرحمن نے روزنامہ ”جنگ” کے کالم نگار کے طور پر ان کی خدمات حاصل کیں،کئی سال تک وہ مختلف اخبارت کیلئے مزاحیہ کالم لکھتے رہے،1989 میں مشہور ٹی وی و فلم پروڈیوسر/ڈائریکٹر شعیب منصور نے ان کے اخبارات میں کالم پڑھے اور پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ”کیف رضوانی وہ شخص ہے جو انور مقصود جیسا لکھ سکتا ہے، جسے مزاح کی حس کا پتہ ہے“ سو انہوں نے کیف رضوانی سے رابطہ کیا اوریوں انہوں نے ”ففٹی ففٹی“ میں اپنی زوردار اینٹری دی،،اس طرح ان کی مشہور تحریروں میں پی ٹی وی کا ہٹ شو ”ففٹی ففٹی” بھی شامل ہے، کیف رضوانی صاحب کا کہنا تھا کہ”مزاح کو تھکے ہوئے چہروں پر لہریں پیدا کرنی چاہئیں نہ کہ غصے کو بھڑکانا چاہیے“ مزاح نگاری میں بھی ان کانام خاصا نمایاں رہاانہوں نے ہمیشہ ہلکی پھلکی اور مزاحیہ باتیں لکھی ہیں اس سلسلے میں وہ معروف فلمی کامیڈین لہری کی مثال دیتے تھے کہ ”مزاح کو اگر سمجھنا ہے اور سننا ہے تو لہری صاحب کو دیکھیں اور سنیں میں ابنِ انشاء کا بڑامداح ہوں مگر مشتاق احمد یوسفی میرے روحانی رہنما ہیں“، مزاح کے بارے میں کیف رضوانی صاحب کا فلسفہ سادہ تھا ان کے مطابق”مزاح کچھ ایسا ہونا چاہیے جو لوگوں کو اپنے دل سے مسکرانے پر مجبور کر سکے“، متعدد ٹیلی پلے، اسٹیج شوز، ڈرامے، سیریلز، اسکرپٹڈ فلمیں، جِنگلز اور کئی فلموں کے نغمات بھی کیف رضوانی کی شہرت کا ذریعہ بنے،’لاڈلا“، ”پرائی بیٹی“ اور”جین بانڈ کراچی آپریشن“ فلموں کے گانوں کی شاعری بھی کی، یہی نہیں بلکہ ”آنچ“ کے اختتامی شو میں انگلستان میں آئی ہوئی پاکستانی نژادگلوکارہ و اداکارہ ”سیما رضوی“ کا مشہور نغمہ”تجھ کو دیکھا تو ایسا لگا“ کی شاعری بھی انہوں نے کی، جس کی شاعری کو آج بھی لوگ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،میں نے اسی نغمے کو دوبارہ سے ری ارینج کر کے نئی موسیقی میں ڈھال دیا ہے،انشاء اللہ جلد اسکرین پر پیش کرنے کا ارادہ ہے، ان کی تحریر طنز، مزاح، فلسفہ، عام روزمرہ کی زندگی کے موضوعات کا ایک جامع مرکب تھی جو متعدد موضوعات سے مختلف تھی، وہ پاکستانی ادب کی دنیا کا اثاثہ تھے،میں اوپر ذکر کرچکا ہوں کہ وہ شاعر بھی تھے اس حوالے سے ان کے کالموں کا مجموعہ ”کاناپھوسی“ اورشعری مجموعہ”سحر گذیدہ“ کے نام سے بھی شائع ہوچکا ہے، وہ اشتہار سازی کے ادارے سے بھی منسلک رہے،مجھے یاد ہے ایزی کوککنگ بائے گڈلکنگ کی اسکرپٹنگ کے دوران انہوں نے اپنا ایک واقعہ شیئر کیا وہ یہ تھا کہ”1998 میں میرا پی ٹی وی کے لیے گیارہ اقساط پر مشتمل ڈاکو ڈرامہ سیریل ”جناح سے قائد“ پر لکھنا ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ تھا، جس میں عظیم رہنما کی پوری زندگی کو سمیٹا گیا، اور اس کوشش کو ملکی سطح پر بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی کیونکہ اس سے قبل جمیل دہلوی صاحب کی ”جناح“ فلم ریلیز ہوچکی تھی اور یہ پی ٹی وی کے لیے بڑا چیلنج تھا کہ اس معیار سے پروڈکشن اور اسکرپٹ ہو کہ لوگ تعریف کیے بناء نہ رہ سکیں یوں سیریل کے پروڈیوسر جناب محسن علی (مرحوم) نے ذمہ داری میرے کندھے پر ڈالی اور پھر میں نے چیلنج قبول کیا اور بڑی عمدگی سے اس سیریل کو لکھا، اس وقت کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین نے میری عمدہ تحریر پر ”تعریفی خط“بھی دیا، تاہم اس سیریل میں کام کرنے والے تمام افراد کو سرکاری ایوارڈزدیے مگر افسوس میرے نام کو ایوارڈز کی فہرست سے خارج ہی کر دیا گیا تھا، جس کامجھے شدید دکھ ہے“، کیف رضوانی صاحب کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ کبھی لوگوں کو ٹیلی وژن یا فلم میں کام دلانے کے لیے کسی سے نہیں کہتے تھے، انہوں نے مجھے کئی عرصے سے زرتاج علی اور دیگر پروڈیوسر کے ساتھ کام کرتے ہوئے دیکھا اور ایک دن مجھ سے پوچھا ہی بیٹھے”گھر کا خرچہ کیسے چلتا ہے“ تومیں نے انہیں بتایا کہ”پی ٹی وی کہ جو طریقہ کار کئی سالوں سے رہا ہے بالکل اسی طرح مجھے اور دیگر ساتھیوں کو ادائیگی پروگرام کے بجٹ کی مد میں ”ٹیلنٹ“ کی صورت میں کرتا ہے”، میری بات کو سن کر انہوں نے خلا میں دیکھاور انہوں نے خود اپنے آپ سے کلام کرے ہوئے کہا کہ ”اللہ پاک! پاکستان ٹیلی وژن والوں کے دل میں رحم ڈال اور جو ٹیلنٹ کنٹریکٹ پر یہ سب معاونین کام کر رہے ہیں، اگر حکومت وقت کے اعلی عہدیدار ان جیسے محنتی بچوں کو اپنے پروگرام بجٹ میں باقاعدہ ان کے نام کا بجٹ مختص کر دے تو زندگی بھران معاونین سمیت آگے آنے والی نئی جنریشن ہمیشہ مینجمنٹ کیلئے دعا گو رہے گی، پتہ نہیں میری یہ بات ارباب اختیار تک پہنچ بھی پائے گی یا شاید جب پہنچے گی تومیں اس دنیا میں ہی نہیں ہوں گا“،واقعی آج وہ ہم میں نہیں مگر ان کی کہی ہوئی بات کئی سالوں بعد آج بھی مجھے یاد رہی اور میں نے یہاں شیئر کر دی، ان کی اہلیہ ان کے انتقال سے چند برس قبل ہی انتقال کر چکی تھیں، یوں 28 ستمبر2014کو کراچی میں کیف رضوانی صاحب طویل علالت کے باعث ہم سے رخصت ہوئے،، ماشاء اللہ سے ان کی ایک بیٹی اوردو بیٹے ہیں،کیف رضوانی عظیم انسان اور پاکستان کا قیمتی اثاثہ تھے، جن کی بات آج ہم ان کے پیچھے کر رہے ہیں، آخر میں یہ بتاتا چلوں کہ الحمدللہ میری خوش قسمتی یہ رہی کہ میں کیف رضوانی صاحب کی تحریر میں محترمہ زرتاج علی رضوی، سینئر پروڈیوسر پی ٹی وی کراچی سینٹر کے ساتھ ایک کامیڈی شو ”ایزی کوکنگ بائے گڈ لکنگ“کرچکا ہوں، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کیف رضوانی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات سے نوازے (آمین)۔
Is behterin kawish k liay aapka Janab Talal Farhat aur UNN Pakistan ka me teh e dil se shuker guzaar hon, dair aayed durust aayed aakhir kisi ko tou ye khiyal aaya k Kaif saheb marhoom k liay bhi kuch achcha likh dia jaye k jis se aaj ki nayee nasal ko kuch maloomat mil sakey!