آلودگی

Published on June 6, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 352)      No Comments

Shahid

وفاقی ماحولیاتی ایجنسی نے پلاسٹک کیر ئیر بیگ کے استعمال میں کمی کرنے کی سفارش کی ہے اور کہا ہے کہ بیگ مفت تقسیم نہیں ہونے چاہئیں سپر مارکیٹ میں پلاسٹک کے تھیلے کی قیمت محض چند سینٹ ہے ان کی قیمت بھی اتنی ہونی چاہئے جتنی ایک پینٹ یا سوئیٹر کی ہے ، انہوں نے تجارتی لوگوں پر زور دیا ہے کہ خریداری کے بعد پلاسٹک بیگ صارفین کو مفت نہ دئے جائیں کیونکہ پلاسٹک بیگ کو صارفین عام طور پر ردی کی ٹوکری میں یا سڑک پر پھینک دیتے ہیں اور اس لاپرواہی کے نتیجے میں ہمیں بہت بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے اس لئے ان کی قیمتوں میں اضافہ لازمی ہے ۔تجارت اور پلاسٹک انڈسٹری نے ایک مطالعہ کے بعد کمیشن کو آگاہ کیا کہ یورپی یونین کے دیگر ممالک کی نسبت ایک جرمن سال میں چھہتر پلاسٹک بیگ استعمال کرتا ہے جبکہ دوسرے یورپی ممالک میں سالانہ ایک سو اٹھانوے مختلف اقسام کی تھیلیاں سڑکوں پر پھینک دی جاتی ہیں ۔ ای یو کمیشن نے تجارتی ڈیلرز پر اعتراض کیا ہے کہ کسٹمرز سروس میں بہت باریک اور ہلکے بیگ متعارف نہ کروائیں انہوں نے کہا کہ بہت سے ڈیلرز پہلے سے ہی کاٹن کے تھیلے متعارف کروا چکے ہیں اور مارکیٹ میں انہیں پسندیدہ قرار دیا گیا ہے علاوہ ازیں پلاسٹک بیگ اب غیر مقبول ہو چکے ہیں ۔
بزنس ایسوسی ایشن کے مطالعہ کے مطابق دوہزار تیرہ میں صرف جرمنی میں چھ ارب سے زائد پلاسٹک بیگ استعمال ہوئے جن میں تین ارب پلاسٹک کے باریک تھیلوں کو فروٹ ، سبزیوں اور تازہ گوشت وغیرہ کے لئے استعمال کیا گیا ، وفاقی ماحولیاتی ایجنسی نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بہترین ری سائیکلنگ نظام ہونے کے باوجود پلاسٹک کے تھیلے سڑکوں پر اڑتے رہے ، سن دو ہزار آٹھ سے دو ہزار بارہ تک شہروں میں ہر سو میٹر کے فاصلے اور ساحل سمندر پر دو یا تین بڑے اور اتنی ہی تعداد میں
چھوٹے تھیلے پائے گئے ، ایجنسی نے پلاسٹک کے ڈسپوزایبل شاپنگ بیگ کے استعمال میں کمی اور کاٹن کے بیگ میں توسیع کی تجویز دی ہے ، موثر طریقے سے غلاظت سے بچاؤ کے لئے وسائل کو استعمال کیا جا رہا ہے ، ادارے کا کہنا ہے کہ پلاسٹک بیگ کو آپ زیادہ دیر زیرِ استعمال نہیں رکھ سکتے اور ناکارہ ہونے کی صورت میں لا پرواہی کی جاتی ہے جو ماحولیاتی آلودگی اور اخراجات کا سبب بنتے ہیں ۔
ما حو لیاتی آلودگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ای یو کمیشن نے نومبر دو ہزار تیرہ سے پیکیجنگ میں ترمیم کی تجویز پیش کی ہے ان کی تجویز کے مطابق یورپی یونین کے تمام ممالک کو واضح کیا گیا ہے کہ آنے والے دو سالوں کے اندر بہت چھوٹے پلاسٹک کے ڈسپوز ایبل بیگ جو پچاس مائکرو میٹر سے زیادہ سائز رکھتے ہیں انہیں کم کیا جائے اس تجویز پر عمل درامد کرنے اور بات چیت کے لئے جرمن ماحولیاتی ایجنسی ایک میٹنگ کا اہتمام کر رہی ہے جس میں مینو فیکچررز ، سرکاری ادارے اور صارفین کے گروپس شامل ہونگے۔
کئی سال بیت گئے جرمنی میں ٹرینوں ، بسوں اور ٹراموں میں سموکنگ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی دو سال قبل لوکل ٹراموں اور بسوں میں کھانا پینا اور میوزک سننا بھی بند کر دیا گیا تاکہ ساتھ والے مسافر کو کھانے سے ابکائی نہ ہو یا میوزک کے بے ہنگم شور سے اس کے کان کے پردے نہ پھٹیں ، ہر سال یا چھ ماہ بعد عوام کی بہتری اور سہولت کے لئے کوئی نہ کوئی نیا قانون بنایا جاتا ہے جیسے کہ سڑکوں پر تھوکنا منع ہے چیونگ گم سڑک پر نہیں پھینک سکتے ہر پچاس میٹر کے فاصلے پر کوڑا دان جس کے ایک طرف ایش ٹرے بھی لگا دئے گئے ہیں تاکہ لوگ انہیں استعمال کریں نہ کہ سڑکوں پر گندگی پھیلائیں روزانہ صبح چھ بجے میونسیپالٹی کی گاڑیاں سڑکوں کی صفائی شروع کر دیتی ہیں ، بچوں کے پارکس میں کتے گھمانے ، سائیکل چلانے اور شراب پینے والے کو جرمانے کئے جاتے ہیں ، ٹریفک کے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے خلاف ورزی کرنے والے کو بھاری جرمانے کئے جاتے ہیں حتیٰ کہ جرم کی نوعیت پر لائسینس بھی ضبط کر لئے جاتے ہیں ، ہر گلی اور سڑک صاف نظر آتی ہے کوئی شہری غیر ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیتا ۔
ان تمام سہولیات سے عوام فائدہ اٹھاتے ہیں اور آرام و سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔
اس کے بر عکس پاکستان بھر میں ایک نظر ڈالی جائے تو نہایت افسوس ہوتا ہے جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ، مردہ جانوروں کی سرانڈ ، ہر گلی محلے حتیٰ کہ بڑے بڑے شہروں میں سالوں سے جمع ہوئے چھپڑوں سے پیدا ہونے والی ان گنت جان لیوا بیماریاں ، کھٹارا گاڑیوں کے پھٹے سائیلینسر سے نکلتا ہوا ڈیزل اور پیٹرول کا پھیپھڑے پھاڑ دوھواں ، سموکنگ کا دوھواں ، اوپن ائیر ریستورانوں میں طرح طرح کے کھانوں کی تیاری کا دوھواں ، ٹائر جلانے کا دوھواں ، فیکٹریز اور ملوں کا دوھواں ، خوشی غمی میں دیگیں پکانے کا دوھواں جب ہر جگہ دھواں ہی دھواں تو اجالا کہاں ہے ؟ عوام دھوئیں میں جنم لیتی ہے اور دھوئیں میں مر جاتی ہے اور اپنی غلطیوں کو خدا کی مرضی سمجھتی ہے ۔
لیکن جو لوگ ان ڈیزاسٹر کے ذمے دار ہیں ان پر پھول نچھاور کرتی ہے انکی دل وجان سے پوجا کرتی ہے اور یہ ذمہ داران خود تو کروڑوں روپوں کی ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں سیاہ چشمے اور شیشے چڑھا کر عوام کی طرف دیکھے بغیر گزر جاتے ہیں اور کسی کی پرواہ نہیں کرتے انہیں ان سیاہ شیشوں کے اندر سے باہر کچھ دکھائی نہیں دیتا سڑک کے کنارے کھڑے غریب لوگ انہیں گزرتا دیکھ کر خوش ہوتے اور بے وقوفوں کی طرح تالیاں بجاتے ہیں کہ وہ ہمارا لیڈر جا رہا ہے۔
مسلمان کا ایمان اور عقیدہ ہے کہ وہ ایک دن یہ دنیا چھوڑ دے گا ، یہ عوام کیوں جان بوجھ کر ظلم سہہ رہے ہیں اٹھتے کیوں نہیں ، جاگتے کیوں نہیں ؟ کب تک دوسروں پر انحصار اور بھروسہ کرتے رہیں گے، کیوں انہیں سمجھ نہیں آتی کہ ان رہنماؤں نے آج تک اس ملک یا عوام کیلئے کبھی کچھ کیا ہے جو مستقبل میں ان سے آس لگائی جائے ۔ حکومتوں کا کام ہوتا ہے ملک کو ترقی کی راہ پر لائیں قوانین بنائیں اور شہریوں کو پابند کریں کہ وہ ملکی ترقی میں حکومت کا ساتھ دیں ۔
امریکا ، ہندوستان ، یورپ یا اسرائیل پاکستان کے دشمن نہیں پاکستان میں عوام حکومتوں کی دشمن اور حکومتیں عوام کی دشمن ہیں ، جب دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں تو ملک اور قوم کیسے ترقی کریں گے ؟
گوروں یا کالوں نے قرآن حکیم پڑھا ہے یا نہیں لیکن ان کے بھیجے میں عقل آگئی کہ اللہ کی بنائی اس زمین کو آلودگی سے بچائیں گے تو خود بھی طویل عرصہ تک زندہ رہیں گے اور آنے والی نسلیں بھی۔
کاش مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی قرآن پاک میں درج ان الفاظ کو سمجھ سکیں اور ان پر عمل کر سکیں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور گندگی صرف موت ۔ کاش یہ لوگ زمین کی گندگی دور کرنے سے پہلے اپنے ذہن کی آلودگی کو دور کریں اور اسے صاف شففاف بنا سکیں ۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress主题