تحریر۔۔۔ محمد ثاقب شفیع
بدھ کے روز امریکہ نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ایک قرارداد کو ویٹو کر دیا، جو غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اس قرارداد کو 14-1 کے تناسب سے مسترد کیا گیا، جس میں کونسل کے تمام اراکین، بشمول برطانیہ، روس، فرانس،چائنا نے جنگ بندی کی حمایت کی، لیکن امریکہ نے اپنے ویٹو کاحق استعمال کیا۔ یہ قرارداد غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کے درمیان منظور ہونے والی 49ویں قرارداد تھی، جسے امریکہ نے ویٹو کیا ہے(مڈل ایسٹ آئی)۔
قرارداد میں غزہ میں تمام فریقوں سے فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ اس قرارداد کی حمایت کرنے والے تمام اراکین کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے بغیر غزہ میں انسانی بحران کو روکا نہیں جا سکتا۔امریکہ نے اپنے ویٹو کا جواز دیتے ہوئے کہا کہ اس قرارداد میں یرغمالیوں کی رہائی کو جنگ بندی کی شرط کے طور پر نہیں رکھا گیا، جو کہ امریکہ کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ امریکہ کے نائب سفیر، رابرٹ وڈ، نے کہا، ”ہم نے مذاکرات میں واضح کیا تھا کہ ہم ایسی جنگ بندی کی حمایت نہیں کر سکتے جس میں یرغمالیوں کی رہائی کی شرط نہ ہو۔
اس قرارداد کو مسترد کرنے پر عالمی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ الجزائر کے سفیر، جنہوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، نے کہا، ”آج کا پیغام واضح ہے: اسرائیل کو قتل عام کی اجازت دی جا رہی ہے اور فلسطینی عوام کے خلاف اجتماعی سزا جاری رکھی جا سکتی ہے۔” چین کے سفیر نے کہا، ”کیا فلسطینی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں؟حقوق انسانی کی تنظیم ”ہیومن رائٹس واچ” کے نمائندے لوئس چاربونو نے کہا کہ امریکہ نے ایک اور بار اسرائیل کے لیے امپیوٹی کی ضمانت دی ہے، کیونکہ اسرائیل کی فورسز فلسطینیوں کے خلاف جرائم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
برطانیہ نے اس ویٹو کی مذمت کی اور کہا کہ عالمی انسانی حقوق اور قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ برطانوی سفیر نے کہا کہ جنگ بندی کی فوری ضرورت ہے تاکہ غزہ میں جاری انسانی بحران کو روکا جا سکے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ چین نے بھی اس ویٹو کی شدید مذمت کی اور سوال کیا کہ ”کیا فلسطینی زندگیاں کچھ بھی نہیں؟” چین نے کہا کہ امریکہ کا ویٹو فلسطینی عوام کے حقوق کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے اور اس سے اسرائیل کو مزید تحفظ حاصل ہو رہا ہے۔فرانس نے کہا کہ عالمی انسانی قانون کی پامالی ہو رہی ہے اور اس بحران کا حل صرف فوری اور مستقل جنگ بندی میں ہے۔ فرانس کے سفیر نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کو اس بحران کا فوری اور سنجیدہ حل تلاش کرنا چاہیے۔روسی فیڈریشن: روس نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ بندی کے بغیر غزہ میں انسانی بحران کو روکنا ممکن نہیں اور اس کے ساتھ ہی اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو بھی اہم قرار دیا۔
اس ویٹو کے بعد دنیا بھر میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ حقوق انسانی کے ادارے ”ہیومن رائٹس واچ” نے امریکہ کے اقدام کو اسرائیل کے لیے مکمل معافی کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ امریکہ نے ایک اور بار اسرائیل کے جرائم کی حمایت کی۔ عالمی سطح پر اس ویٹو کی مذمت کی گئی اور کئی ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ میں انسانی بحران کا حل فوری جنگ بندی میں ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کے بعد 7 اکتوبر کو حماس کے حملے میں 1,200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے اور 253 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں وسیع پیمانے پر کارروائیاں شروع کیں، جس کے نتیجے میں غزہ میں اب تک 43,920 سے زائد افراشہید ہو چکے ہیں (بی بی سی)۔یقیناً یہ ویٹو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی سطح پر تنازعات اور بحرانوں کے حل میں طاقتور ممالک کے مفادات کس طرح ایک طرفہ فیصلہ سازی پر اثر انداز ہو رہے ہیں، جس سے انسانی حقوق کی پامالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔