عوام کس کے ساتھ ہے؟۔

Published on July 17, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 413)      No Comments

Yasin
میرے جیسے کند ذہن کو بہت سی باتوں کی سمجھ نہیں آتی۔چند ایک آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ایک تووہی پرانی عوام کی ناشکری والی جب سب (موجودہ ،سابقہ اور آنے والے)حکمراں۔عوام کے لیے مرے جا رہے رہیں ،پھر بھی عوام شکر نہیں کرتے۔ اور انقلاب یا تبدیلی لانے کے لیے لانگ مارچ کی عید کے بعد تیاری کر رہے ہیں ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی سر پرستی میں ۔حالانکہ یہ دونوں لیڈر عوام (سیاست دانوں)کے مفاد میں نہیں ہیں ۔ان کو حکومت کرنے کا تجربہ نہیں ہے ۔ اب تک سابقہ اور موجودہ سیاست دانوں نے جو فیصلے بھی کیے (اخبارات گواہ ہیں ) ملکی اور عوام کے مفاد میں کیے ۔ہمارے صدر کے کیاکہنے نہ کہنا ہی بہتر ہے۔کہ کسی بات میں اب ٹانگ نہیں اڑاتے اسم با مسمی کی مکمل تصویرآرام سے صدارت کیے جا رہے ہیں ایسا صدر دنیا میں کسی اور ملک کے پاس ہو تو بتایا جائے۔عوام کو کم از کم اپنے نواز شریف پر ہی یقین کر لینا چاہیے ۔وہ تو کافی عرصہ مدینے رہے ہیں۔ماشا اللہ حاجی بھی ہیں۔ان کے پاس اتنی تجربے یافتہ ٹیم ہے جس نے ایک سال کے قلیل عرصے میں لوڈشیڈنگ کے اصل سبب کو تلاش کر لیا کہ سارا سسٹم ہی خراب ہے ،اسی طرح غربت اور بے روز گاری کے اسباب کا ان شااللہ اس سال کے ختم ہونے سے پہلے ہی ان کی ٹیم کھوج لگا لے گئی ۔باقی تین سال میں پاکستان کے دیگر مسائل کے اسباب ،وجوہات،کا علم ہو جائے گا ۔ عوام کی فلاح کے لیے کام شروع کرنے سے پہلے ہی ان کی مدت ختم ہو جائے گئی ۔خادم اعلی جناب اپنے شہباز کو ہی لے لیں جسے کچھ من چلے شوباز بھی کہتے ہیں کیوں کہ وہ ایک سال میں بھی لوڈ شیڈنگ کم نہ کر سکے دن رات عوام کی خدمت میں مصروف ہیں سارا لاہوراڈھیڑکے نیا لاہور بنایا ہے عوام کے لیے انہوں نے خود تھوڑی سفر کرنا ہے بسوں پر،پھر دانش سکول دیکھ لیں عوام کو دانش سکھانے کے لیے کھولے مگر عوام کو دانش ہے کہ آتی نہیں(پھر بھی انہی آزمائے ہوئے سیاست دانوں کو ووٹ دیدئے)۔ورنہ ان سکولوں میں کیا حکمرانوں کے بچوں نے پڑھنا ہے کوئی۔لیب ٹاپ سکیم سے عوام کو کتنا فائدہ ہوا اس کا بھی عوام کو احساس کرنا چاہیے ۔پھرمولانا فضل الرحمن ہیں جن کے اتنے کارنامے ہیں کہ اس اک مضمون میں لکھے نہیں جا سکتے ان کا ہر کام وطن ،اسلام اور عوام کے لیے ہوتا ہے، وہ واحد مسلمانوں کے نمائندہ سیاست دان ہیں ۔وہ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں میں ہوتے ہیں،کتنا مشکل کام ہے ۔یہ سب وہ عوام کے لیے اور صرف عوام کے لیے کررہے ہیں۔تا کہ عوام کامقدر بدلاجا سکے اس کے لیے حکومت ضروری ہے(ان کے بغیر کوئی حکومت بن نہیں سکتی یا وہ ہر حکومت میں شامل ہوتے ہیں )اس کے علاوہ ہمارا کو ئی بھی سیاست دان اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتا مجھ کو آج تک پتا نہیں چکا کہ ان کے اصول کیا ہوتے ہیں اس میں بھی میرے ہی دماغ کی کوئی چول ڈھلی ہو گئی حتی کہ اصولوں کی سب سے بڑی دعوے دار جماعت اسلا می کے اصولوں کا بھی پتا نہیں چلتا۔اس میں جماعت اسلامی کا قصور نہیں میری عقل میں کوئی خامی ہے۔ہر حکومت بنانے میں ان کا ہاتھ ہے اور اپوزیشن بنانے میں بھی ۔۔اب اس ڈر سے وفاداروں سے بھی وفا کرنے سے ڈرتے ہیں ۔مجھ کو سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ پھر وہ دوسری پارٹیوں سے کیسے مختلف ہیں ۔ غلط پارٹی سے اتحاد کرتے ہیں ،غلط موقع پر درست فیصلہ کرتے ہیں ۔مگر ایک بات ہے ہیں صالح شائد سیاست نہیں جانتے۔بھائی الطاف حسین نے اس عوام کے لیے خود ساختہ جلا وطنی قبول کی ہوئی ہے۔دن رات پردیس میں عوام کا غم کھائے جا رہا ہے۔اس وجہ سے دبلے بھی ہو گے ہیں۔عوام کی خدمت دل و جاں سے کرنے کیلیے کو ہر حکومت میں شامل ہونا پڑتا ہے۔اب تو زر۔۔داری سے یاری بھی لگا ئی ہیے کھبی اپنے طاہر القادری کے ساتھ ہوتے ہیں جب وہ اپنے طاہر القادری صاحب ان کی ہلاشیری پر بقول ان کے وقت کے فرعوں سے ٹکرانے چلے تو ساتھ چھوڑدیا ۔کھبی کسی کاساتھ دے کر حکومت بنوا دیتے ہیں اور کھبی کسی کا ساتھ نہ دے کر،پہلے تو حکومت گرانے میں بھی ہاتھ ہوتا تھا۔مجھ کو ڈاکٹر طاہر القادری کی بہت سی باتوں کی سمجھ نہیں آتی بہت عرصے تک تو یہ سمجھ نہ آتی تھی کہ وہ بیرون ملک بیٹھے ہیں عوام کے اتنے ہمدرد ہیں تو وطن واپس کیوں نہیں آ جاتے ؟کیوں نہیں چھوڑ رہے دہری شہریت؟ اب کہتے ہیں کہ وطن سے جا نا نہیں ہے مرنا عوام کے سنگ ہے اور وہ اپنے عمران خان کی طرح کیسے یہ خیال کیے بیٹھے ہیں کہ اکیلے انقلاب برپا کر دیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کو باہر نکلنا چاہیے شہر شہر جانا چاہیے ،عوام کو آئین پاکستان کا شعور دینا چاہیے جلد بازی نہیں کرنی چاہیے عمران،جماعت اسلامی سے اتحاد کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے مجھے ڈر لگتا ہے کہ وہ جذبات میں آکر بہت سے معصوم افراد کو شہید کے رتبے پر فائز کر دیں گئے اور ان کا انقلاب اغوا ہو جائے گا ۔اپنے چودھری برادر اور شیخ رشید اسی کے لیے ان کے ساتھ ہوئے ہیں جیسے شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی نے عمران خان کا انقلاب اور تبدیلی اغوا کر لی ہے ۔ میں نے ایک کالم میں لکھا تھا ۔۔ عمران پاکستان تحریک انصاف کے نام سے جماعت بنا کر نیا پاکستان،تبدیلی،اور انقلاب کے نعرے کے ساتھ احتساب کا نعرہ لگا کر میدان میں اترے۔ابھی وہ سنبھلنے ہی نہ پائے تھے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی جماعتوں کے دو انقلاب کے ماسٹر مائنڈ وں نے ان کو دائیں اور بائیں سے گھیر لیا عوام اب بھی عمران خان کے اور ان کے انقلاب کے دائیں بائیں ہر کانفرنس میٹنگ میں ان کو دیکھ سکتی ہے ۔اور یوں انقلاب عوام اور عمران کے سامنے اغوا ہو گیا ۔ان سب باتوں کو مد نظر رکھ کر سوچیں آخر ہمارے حکمرانوں میں کیا برائی ہے عوم ان سے بھر بھی خوش نہیں ہے کتنی نا شکری عوام ہے
اس کو چلو چھوڑو عوام بھی سب کے پیچھے پھرتی ہے اور آخر ان کو درست سمجھتی ہے تب ہی ان کے ساتھ ہوتی ہے ۔آپ کو عوام کی سمجھ آتی ہے کس کے ساتھ ہے اور کس کے نہیں ہے سب کے ساتھ ہے اور کسی کے ساتھ نہیں حتی کہ اپنے بھی نہیں کیا کسی کو اس بات میں شک ہے ۔ سب سے بڑی چکر باز عوام ہے جو خود کو ہی چکر دے رہی ہے ۔ بے چاری عوام اللہ اس کا ہامی و ناصر ہو۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress主题