ہم خوش رہ سکتے ہیں اگر !۔

Published on July 19, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 361)      No Comments

akh log
آ ج ہر کوئی پریشان ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب،بے روزگار ہو یا باروزگار،بظاہر مسکراتے چہرے اندر سے دکھی ہوتے ہیں جس کو دیکھو اس کے پاس ایک دکھ بھری کہانی ہے ،ہم میں سے اپنی موجودہ زندگی اور اس کے روز و شب سے کوئی خوش نہیں ہے ۔من سے خوش نہیں ہے ،ڈپریشن،ذہنی دباوٗ کے نفسیاتی امراض سے کوئی فرد محفوظ نہیں ہے یہ اب ایک عام سی بیماری بن گئی ہے ۔دکھ ،غم ،پریشانی،عدم تحفظ کے احساس نے خوشیاں چھین لیں ہیں ۔کچھ غم وقتی ہوتے ہیں مثلا کاروبار میں نقصان ،کسی اپنے پیارے کی موت،کسی نے بلا وجہ بے عزتی کر دی ہو تو ایسی پریشانیاں تھوڑا وقت گزرنے کے ساتھ کم ہو جاتیں ہیں وقتی دکھ یا پریشانیاں ہمارا موضوع نہیں ہیں بلکہ وہ غم ہے جو اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے ۔آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیا اس کا کوئی حل بھی ہے؟ذہنی دباو،ڈپریشن ،پریشانی کی تین وجوہات عام طور قابل توجہ ہیں وجوہات پر بات کرنے سے پہلے انسان کیا ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے ۔ خود اپنی پہچان اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے اللہ کی پہچان عطا ہوتی ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اللہ سبحان و تعالی کو پہچان لیا ۔ انسان گوشت پوست سے بنا ہوا ایک مادی جسم ہی نہیں ہے جو کہ مٹی سے بنا ہوا ہے بلکہ یہ تو اصل انسان کا لباس ہے ۔ خواجہ شمش الدین عظیمی فرماتے ہیں اصل انسان روح ہے ۔اس بات کو ہم جانتے تو ہیں مگر اس بات پر غور و فکر نہیں کرتے ۔بہت سی پریشانیوں کا باعث یہ بات بھی ہے کہ ہم کو اس بات کا یقین کتنا ہے ۔ جب تک یہ روح ہمارے جسم کے اندر ہے ہم زندہ ہیں جیسے ہی اس روح نے جسم کا ساتھ چھوڑا ہم پر موت وارد ہو جاتی ہے اور یہ جسم ایک ناقابل تذکرہ شے بن جاتا ہے ۔اسے ہم مٹی میں دفنا دیتے ہیں ۔ ہمارے جسم پر لباس کی ہر حرکت ہمارے جسم کی حرکت کے باعث ہوتی ہے اسی طرح ہمارے مادی جسم کی حرکت کا انحصار روح پر ہے ۔روح کیا ہے اس باترے میں قرآن پاک کی تین آیات کا مفہوم جو مختلف مقامات پر ہیں پیش ہے ۔آدمی ایک ناقابل تذکرہ شے تھا اس میں اللہ نے اپنی روح پھونک دی تو وہ دیکھتا ،سنتا،بولتا ہوا انسان بن گیا ۔اے محمد ﷺ لوگ تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ دیجئے کہ روح اللہ کا امر ہے ۔اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو بنانے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے ۔یعنی روح اللہ کا امر ہے ۔۔یہ روح جب اس مادی وجود سے نکل جاتی ہے تو مادی جسم کے کان ،ناک۔ہاتھ،دماغ ،دل ،اور دیگر تمام اعضاء ہونے کے باوجود انسان حرکت نہیں کر سکتا ،سن نہیں سکتا ،بول نہیں سکتاوغیرہ ۔خوش رہنے کے لیے اللہ کی پہچان اور اللہ کی پہچان کے لیے اپنی پہچان ضروری ہے ۔ علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
ؔ ؂؂ؔ ؔ ؔ ؔ ؂ ؂ اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغ زندگی ۔۔ تو میرا نہیں بنتا تو نہ بن اپنا تو بن
ہماری ناخوشی ،پریشانیوں ،دکھوں اور غموں کے تین اسباب ہیں اول تو اپنی اصل سے دوری ہے۔ اللہ سے دوری دین فطرت سے دوری اللہ سبحان و تعالی نے فرمایا ہے کہ دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے ۔اللہ کو یاد کرنے میں ہے ،اسے ہمیشہ یاد رکھنے میں ہے ،اپنا ہر فعل ،کام،بات اللہ کی خوشنودی کے لیے کرنے میں ہے ۔اب جہاں سکون ہے ہی نہیں وہا ں ہم تلاش کریں گے تو کیسے ملے گا ۔دوسرا سبب ہے ہماری تضاد سے بھر پور زندگی ۔ہمارے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے جس پر ہمارا ضمیر ہم کو ملامت کرتا رہتا ہے اور یوں ہم اندر سے، دل سے خوش نہیں ہوتے ہم ایک مصنوعی زندگی گزارتے ہیں ۔لوگ کیا کہیں گے ،یہ سوچ کر اپنے لباس سے لے کر بات تک عبادت سے لے کر تفریح تک ہم اپنی زندگی لوگ کیا کہیں گے کے ڈر کو سامنے رکھ کر گزارتے ہیں ،اپنے اوپر خول چڑھا لیتے ہیں اور جو ہم اصل میں ہوتے ہیں اسے قید کر کے رکھتے ہیں ۔ ایسا کر کے ہم اپنے دکھوں میں اضافہ کرتے ہیں ۔تیسرا سبب خواہش اور ضرورت میں فرق نہ کرنا اور خواہشات کو ہی ضرورت خیال کرنا ہے اب سب خواہشات کا پورا ہونا ناممکن ہوتا ہے ،انسان زیادہ سے زیادہ کی طلب کرتا ہے ،حتی کہ دولت پرستی تک جا پہنچتا ہے اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ سب ہماری فرمانبرداری کریں ہماری بات کو حرف آخر خیال کیا جائے یہ اور ایسی بہت سی خواہشات ہم کو بے چین رکھتی ہیں ۔حب دنیا ،جاہ و حشمت،دولت پرستی،نام و نمود اور شہرت کی بے جا طلب وغیرہ زیادہ سے زیادہ مال کی طلب نے ہم کو اندھا کر دیا ہے ایک سونے کا ڈھیر مل جائے تو ہم دوسرے کی خواہش کرتے ہیں ۔سوچنے کی بات ہے ہم اپنی مرضی سے اس دنیا میں نہیں آئے اور نہ ہی اپنی مرضی سے اس دنیا میں رہ سکتے ہیں ۔تو یہ چند روزہ زندگی جو ہے اس میں لامتناہی خواہشات کا روگ کیوں پالیں ۔ہاں جو اللہ نے نعمتیں دیں ہیں ان کا شکر ادا کریں اور مزید کے لیے کوشش کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے ۔ہمارا دل سکون سے بھر جائے گا اگر ان چند باتوں پر عمل کر لیں جس طرح مادی جسم کو غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کو بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے روح کی غذا اللہ کی عبادت ہے ہم کو حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی ادا کرنے چاہیے اللہ کے حکم سے حضور اکرم ﷺ نے خاص کر مسلمانوں اور ساری دنیا کے لیے واضح طور پر زندگی گزارنے کے ایسے اصول و قاعدے بنائے ہیں ان پر عمل کر کے دیکھایا ہے جن پر عمل کرنے سے ہم ذہنی دباو،جسمانی بیماریوں اور روحانی امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔دعا ہے اللہ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق دے جس سے ہم خوش رہ کر زندگی گزار سکیں

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Theme