غلاظت

Published on September 9, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 456)      No Comments

Shahid
ترقی پذیر ممالک کا المیہ ہی یہ ہے کہ نام نہاد حکمران جمہوریت اور سیاست کے نام پر ملک و قوم کو تباہ کرتے ہیں ،جس ریاست کے حکمران امریکا بہادر سے ڈکٹیشن لے کر ملک میں حکمرانی کرتے ہیں ان حکمرانوں کی پھنے خانی چند ماہ تک ہی قائم رہتی ہے کیونکہ امریکا ڈکٹیشن اسی کو دیتا ہے جو اس کا مال کھاتا ہے اور حکم عدولی کی صورت میں ہر چیز سے محروم کر دیا جاتا ہے، آج کے دور میں روپے پیسے کی لالچ اور ہوس نے حکمرانوں کو اس قدر کند ذہن بنا دیا ہے کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں،ان جاہل حکمرانوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہوتی تو کسی کی کیا مجال کہ اس کی ریاست کی طرف آنکھ بھی اٹھا سکتا یہ لالچ اور جہالت کا نتیجہ ہے کہ عراق اور افغانستان پر حملہ ہوا، لیبیا ،مصر ،شام اور دیگر اسلامی ممالک کے اندرونی معاملات میں امریکا نے اپنی ٹانگ ماری،پے درپے امریکا گھاؤ لگاتا ہے اور حکمران ہرشے سے بے نیاز ملک و قوم کو غرق کرنے پر تلے رہتے ہیں صاف ظاہر ہے کہ ان جیسے بے ایمان حکمرانوں سے بڑا پیشہ وربھکاری ریاست میں نہیں ملتا، بھکاری اور بھوکے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے بھوکا روٹی اورپروفیشنل بھکاری پیسہ مانگتا ہے ،بھوکے کا ایک روٹی سے پیٹ بھر جاتا ہے جبکہ بھکاری سب کچھ بھرا ہونے کے باوجود اپنی غلیظ عادت سے باز نہیں آتااور کشکول ہاتھ میں لئے در در کے دھکے کھاتا ہے،ترقی پذیر ممالک کا یہ ہی المیہ ہے کہ عوام بھوکی تو حکمران بھکاری،ایک روٹی کا بھوکا دوسرا دولت کا بھوکا۔
ریاست میں رعایا کے لئے ذریعہ معاش کے انتظامات ،سہولیات اور ممکن حد تک بے روز گاری کے خاتمے کیلئے موثر پالیسیاں بنائی جائیں اور عمل درآمد ہوں تو کسی ریاست کا باشندہ اپنے وطن عزیز سے قدم باہر نہ رکھے ،ریاستوں کے زوال کا ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ بے روز گاری سے تنگ آکر لوگ اپنے وطن سے ہزاروں میل دور جا کر غیر قوموں اور لوگوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں اپنی خودداری کو اپنے ہاتھوں دفن کرتے ہیں تا کہ ان کے گھروں کے چولہے جل سکیں، خاندان والوں کو اچھی اور بہتر زندگی میسر ہو بچے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں اور معاشرے میں اعلیٰ مقام پائیں۔گزشتہ کالم میں ہجرت کے موضوع پر دنیا بھر کے تارکین وطن پر تحریر کیا تھا اس بار تارکین وطن کے مسائل پر قلم اٹھایا ہے کہ مغربی ممالک اور خاص طور پر جرمنی میں تارکین وطن کو کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان سے لوگوں کی آمد ستر کی دہائی سے شروع ہوئی ان ممالک کی سیاسی قلابازیوں ،جنگوں اور ملکی معیشت نے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ بیرون ملک سدھاریں،اکثریت نے قانونی غیر قانونی مڈل ایسٹ کا رخ کیا،لیکن اسی کی دہائی سے نقل مکانی کا اصل دور شروع ہوا اور ہر فرد کی خواہش ہوتی امریکا ، کینیڈا ،آسٹریلیا، جاپان اور یورپ جا کر ہی دم لے،اسی دور میں ایجنٹوں نے لوگوں کو جھانسے بھی دئے، گرتے پڑتے لوگ اپنے مطلوبہ مقامات تک پہنچ ہی گئے ،سیاسی پناہ اور روز گار حاصل کرنے کے بعد اپنی ڈگر پر چل پڑے۔نوے کی دہائی میں مزید غیر ملکیوں کی آمد ہوئی ،بعد ازاں یورپی یونین بننے کے بعد جرمنی میں غیر ملکیوں کا طوفان امڈ آیا۔
ساؤتھ جرمنی کا سب سے بڑا صوبہ بائیرن ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنا رہا کیونکہ وہاں تارکین وطن کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے دیگر صوبوں کی طرح وہاں بھی لاتعداد غیر ملکی رہائش پذیر اور برسر روزگار ہیں جرائم کی شرح بھی کم ہے،اس صوبے میں پھیلے چھوٹے بڑے شہروں میں میونخ ،نیورن برگ،کیمپٹن،ہوف ،ریگن برگ اور آؤگس برگ قابل توجہ اور بڑے شہروں میں شمار ہوتے ہیں،رقبے اور اکونومی کے لحاظ سے یہ صوبہ جرمنی کے مضبوط ترین صوبوں کی صف میں نمبر ون ہے لیکن یہاں کی ایک سیاسی پارٹی سی ایس یو ہمیشہ سے غیر ملکیوں کے راستے میں روڑے اٹکاتی رہی اس کی موجودہ مثال صوبے کے بڑے شہر آؤگس برگ میں واقع ایک پرانی بوسیدہ فوجی بیرک قابل دید ہے جہاں غیر ملکی سیاسی پناہ گزینوں کو بے یار و مدگار کسی کچرے کی طرح پھینک دیا گیا ہے ،کئی سالوں سے یہ بدحال بیرک سیاسی پناہ گزینوں کا مرکز ہے یہاں ناقابل برداشت بد بو ،چھت پر لٹکتی بجلی کی تاریں ،درو دیوار پر بنے رنگ برنگے کارٹونزاور اس بیرک کی شان میں لکھے گئے مختلف زبانوں میں قصیدے اور مغلظات نمایاں ہیں ،اسے کئی بار بند کرنے پر ڈسکس ہوئی لیکن یہ بند نہ ہو سکی۔
انتظامیہ کا یہ ایک غیر انسانی فعل ہے کہ ان لوگوں کو یہاں پھینک کر فراموش کر دیا گیا ہے اس عمارت کے درو دیوار پرانی اینٹوں اور لکڑیوں سے تعمیر کئے گئے تھے اس کی شکستہ حالی رہائش کیلئے نا قا بل قبول ہے،مختلف ممالک کے ایک سو پینتالیس پناہ گزین کئی سالوں سے یہاں رہنے پر مجبور ہیں،ٹوٹا جھو نپڑا کے نام سے یہ عمارت پورے شہر میں مشہور ہے،یہ تمام تفصیلات رفیوجی کونسل کے کارکن نے اخباری نمائندے کو عمارت دکھاتے ہوئے بتائیں اس نے کہا کئی بار امدادی ایجنسیوں نے حکام کی توجہ اس عمارت پر مبذول کروائی لیکن کسی ادارے نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا،دوہزار دس میں شہر کے مئیر نے اسے گرانے پر رضا مندی بھی ظاہر کی لیکن عمل درآمد نہ ہو سکا،حالیہ تحقیقاتی ٹیم نے اس عمارت کو تباہ کن قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق اخباری نمائندوں نے صوبہ بائیرن اور آسٹریا کی درجنوں پناہ گزین مراکز کا دورہ کیا اور ان کے ڈیٹا جمع کرنے کے بعد معیار کا اندازا لگایا،تحقیق میں اس عمارت کو رہائشی رینکنگ کے اعتبار سے چونسٹھ سے بیاسی نمبر پر شمار کیا گیااس عمارت کے علاوہ دیگر تین عمارات کو بالترتیب چوالیس،بیالیس اور اٹھتیس نمبر دئے گئے۔مذکورہ عمارت سب سے زیادہ خستہ ،گندی اور فوری گرائے جانے والی ہے ،عمارت میں داخل ہوتے ہی ٹوائلٹ کی بد بو ناک بند کرنے پر مجبور کرتی ہے،درودیوار کے اکھڑے پلاستر اور چھتوں سے بجلی کی لٹکتی تاروں سے بچ کر نکلنے کے بعد کچن کا رخ کیا جائے تو وہاں بھی کوریڈورسے مختلف نظارہ نہیں بلکہ مزید خراب اور بد بو دار ہے ،دو سفید سنک موجود ہیں لیکن ان کی رنگت کالی اور پیلی ہو چکی ہے ،الیکٹرک اوون کے بٹن نہیں اور کسی کا دروازہ نہیں ۔
سینیگال سے تعلق رکھنے والے دو دوست کریم اور ابراہیم گزشتہ دو سال سے یہاں رہائش پذیر ہیں ان کا کہنا ہے یہ جگہ دیکھنے لائق نہیں رہنا تو دور کی بات ہے،انہوں نے ایک دروازہ کھول کر دکھایا تو ایک لمحے کو ایسا محسوس ہوا جیسے جیل کی کوٹھڑی ہو کسی ڈربے نما کمرے میں چار افراد ٹھنس کر رہتے ہیں تین کے پاس فولڈنگ بیڈ ہیں اور چوتھا زمین پر چٹائی نما میٹریس بچھا کر سوتا ہے درمیان میں ایک چھوٹی میز ایک پرانا ٹیبل لیمپ اور چند ادھ جلی موم بتیاں موجود تھیں۔اپریل دو ہزار دس میں سماجی امور کے وزیر نے ہدایات نافذ کی تھیں کہ سیاسی پناہ کے اس پرانے مرکز کو فوری اپ گریڈ کیا جائے دریں اثنا چار سال گزرنے کو ہیں کسی نے ان ہدایات پر عمل نہیں کیا یہ عمارت آج بھی ویسی ہے جیسے پہلے تھی ،قانونی طور پر ایک فر د کو کم سے کم سات مربع فٹ کی جگہ دستیاب ہونی چاہئے۔
’’ حفظانِ صحت کی مشکلات ‘‘ ابراہیم نے واش روم کا دروازہ کھولتے ہوئے بتایا کہ نل سے کبھی پانی آتا ہے کبھی نہیں اور کبھی غسل کرتے ہوئے اچانک ٹھنڈا یا گرم شروع ہوجاتا ہے،واش روم کی حالتِ زار کچھ ایسی کہ دروازے پر ہینڈل نہیں ،نہ ٹاول سٹینڈ اور نہ ٹوائلٹ پیپرز، نہ کپڑے لٹکانے کے ہکس،کموڈ کا ڈھکن غائب ،کھڑکیوں کے ٹوٹے شیشوں سے سرد ہوا اندر داخل ہوتی ہے اور نہ جانے کس قسم کی نا قابل برداشت بد بو ہر سو پھیلی تھی،کریم نے بتایا کہ اس پناہ گھر کے ایک رہائشی کو صفائی کیلئے ماہانہ چوراسی یورو ادا کئے جاتے ہیں لیکن وہ کبھی صفائی
کرتے نظر نہیں آیا،کیا یہ عمارت صفائی کے قابل ہے ؟۔
بڑے کے مقابلے میں چھوٹے حلقے بہتر کام کرتے ہیں لیکن ان کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ایک اچھے اوپریٹر یا اورگنائیزر کی ضرورت ہوتی ہے،سیاسی پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مد نظر رکھ کر انتظامیہ کو چاہئے کہ یا تو اس عمارت کی ریپئیرنگ کروائی جائے یا ان سب لوگوں کو کسی دوسری معقول جگہ منتقل کیا جائے ۔غیر ملکی معاملات سے منسلک ادارے کے نمائندے کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ جلد از جلد اس مسئلے کو حل کیا جائے ہماری کوشش یہ ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو ان پناہ گزینوں کو فارغ کریں جو مسائل والے ممالک سے تعلق نہیں رکھتے اس سے ہمیں یہ فائدہ ہو گا کہ ان کی تعداد میں کمی واقع ہو گی اور ہم بہتر اور واضع طور پر حکمت عملی تیار کرنے کے بعد باقی لوگوں کو وقتی طور پر کسی دوسری جگہ شفٹ کر سکیں گے اس دوران عمارت کی مرمت کاکام بھی جاری رہے گا لیکن یہ سب اسی صورت ممکن ہو گا جب حکام اس پر عمل درآمد کریں گے۔
آج بھی ستر ،اسی اور نوے کی دہائی کی طرح دنیا کے ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھنے والے باشندے سالوں سے جرمنی کے مختلف صوبوں کی اس غلاظت میں رہنے پر مجبور ہیں ان میں سے کچھ عقل مند موقع اور وقت کی نزاکت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رات کو غیر قانونی کام کرتے ہیں اور دن بھر اس غلاظت میں کمبل تان کر گہری نیند سوتے ہیں ایسے لوگوں کو خوشبو یا بدبو سے کوئی سروکار نہیں ان کا مقصد پیسا کمانا ہے اور جب تک حکومت خود اس غلاظت سے نہیں نکالتی انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی یا تکلیف نہیں ہے اور حکومت انہیں دو صورتوں میں ملک بدر کر سکتی ہے ،ان کا سیاسی کیس عدالت سے ریجیکٹ ہونے یاکسی جرم میں ملوث ہونے پر ۔یہ سب جانتے ہیں کہ جرمنی کی عدالتیں سیاسی کیس کو فوری حل نہیں کرتیں سال دو سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور جرم یہ کرتے نہیں ۔ہزاروں ڈولر ز ایجنٹوں کو دے کر آنے والے میں اتنی عقل تو ہونی چاہئے۔
کالم کے اختتام پر کالم کے شروع والی بات ’’ حکمران کسی قابل ہوں تو عوام کیوں اپنا وطن چھوڑ کر غلاظت میں رہنے پر مجبور ہو ‘‘۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Themes