سانحۂ پشاور ۔ سانحۂ پاکستان

Published on December 19, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 566)      No Comments

10863502_746309208751524_1771952795_nتحریر: شاہ فہد ہاشمی
سولہ دسمبر2014ء تاریخِ پاکستان کے اوراق پر دوسری بار سیاہ دھبے داغ گیا ہے جس نے دلانِ پاکستان کو رنجور و مجبور کردیا۔ سقوطِ ڈھاکہ جس طرح بجلیاں کوند گیا تھا اسی طرح سانحۂ پشاور سانحۂ پاکستان بن گیا بلکہ سانحۂ طفلاں بن گیا جس نے کروڑوں دلوں کو غم و اندوہ کی اندھیری وادیوں میں جھونک دیا بلکہ ہر لب خاموش، ہر نگاہ متقاضی ، ہر چشم اشک بار اور ہر دل خراش خراش کر دیا۔اس سانحہ نے نہ صرف پاکستانی باشندوں کو مغموم کیا بلکہ بیرونی ممالک کو بھی نمناک کیا اور ہم جیسے بے گھر اور در بدر افراد تو گویا نقوشِ فریادی بن کر کبھی بام و در کبھی در بدر کبھی اس نگر کبھی چشمِ تر اور کبھی چارہ گر دیکھتے ہی رہ گئے۔ زبانیں گنگ تھیں مگر کلیجہ پھٹا جا رہا تھا ۔ سینہ جل رہا تھا اور آنکھیں اندوہ و آتش اُگل رہی تھیں۔ بظاہر تو چل پھر رہے تھے لیکن ہواس و اوسان خطا ہو چکے تھے نظریں متقاضی تھیں مگر خیالات باہم دست و گریباں تھے کہ اب کون اسے روکے گا زنجیر ہلا کر؟ سعودی عرب میں مکین مسلمانانِ پاکستان نحہ کناں تھے کہ خدایا خیر ہو جس دیس کا نام ہے پاکستان واں خون کی ندیا جاری ہے؟ جب کسی طور تسلی و تشفی بر نہیں آئی تو اندر کے جذبات نے مچلنا شروع کیا اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو قلم نے قرطاس کے زینوں پر یوں اُگلنا کرنا شروع کر دیا کہ گویا ابھی پھٹے ابھی پھٹے۔
دانشوررانِ ملت کے مذاکرے و تبصرے ، شرفاء زعماء اور علماء کے منطقی دلائل و مذمتیں، اسباب و عوامل کی بندشیں اور خامیاں ، حکومت و اپوزیشن کے شکستہ احوال، فوج کی مستعدی و تندہی ، بیوروکریسی اور ٹیکنو کریسی کی حکمتِ عملیاں اور رہنمائیاں، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے نوحے اور آہ و بکاء میں نجانے مجھے کچھ گم تحریریں، آہیں، نالے ، نوحے اور سوگوار موسم کیوں اجنبی اجنبی سے محسوس ہوئے اور دل کے دریچوں نے کیس صدا نے قلب و جگر کو جھنجھوڑا جیسے خوابِ خرگوش سے جگانے کی سعی ہورہی ہو اور دل و دماغ اُسے سننے اور سمجھنے کی کوشش کے باوجودبے سُود رہ گئے ہوں۔دفعتاً کہیں کسی کونے کھدرے سے ہلکی سی سسکاری جیسے دم توڑتی ہو ئی نوحہ کناں ہورہی ہو کہ میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں؟؟ ہرفرد یہاں مسیحائی کا علمبردار ہے۔ہر ہاتھ نے شفاء اور صحت یابی کی نوید اُٹھا رکھی ہے اورتشخیصِ امراضِ میں اپنی خدمات وخیرات پیش کیے جاتا ہے۔ہر شخص قاضی القضاۃ کا عہدہ برآں ہے ۔ ایک طرف ظالمان ٹی ٹی پی اور انکے ہم خیال مذہبی دھڑے فساد کے قدموں میں جنت بچھائے نوید و بشارتیں بکھیرے بیٹھے ہیں ۔انکی سستی جنت بچوں کے خون کی ہولی میں پنہاں ہے اورجنتی دروازہ شاید کسی آرمی پبلک سکول سے ہو کے گزرتا ہے ۔ دوسری طرف ظلم و سفاکیت و سربرییت کی طعن و تشنیع سے گزرتے ہوئے مساجدِ و مدارسِ دینیہ کے بالاخانوں کو دہشت گردی کے تربیتی مراکز میں تبدیل کر کے ان کے نیست و نابود کرنے کے احکامات صادر کرنے میں ملک و ملت کی سالمیت و بقاء میں مسائلِ پاکستان اور دہشت گردی کے محرکات کی روک تھام کیلئے دائمی اور ابدی حل کا تصورِ کلی پیش کیا جاتا ہے۔ کہیں مذاکرات کے دروازوں پر دستک دینے کی تجاویز تو کہیں سرِ عام پھانسی میں عافیتِ مرد و زن سمجھی جارہی ہے۔ کہیں احتجا ج اور مذمتی قرار دادوں سے دل بہلایا جا رہا ہے تو کہیں آل پارٹیز کانفرنسیں اور گول میز کانفرنسیں اس ناسُور کے خاتمے کا حل تصور کی جا رہی ہیں۔ ان سب حقائق کو اپنی جگہ رکھ کر اور ان سب سے ہٹ کر مجھے میرا ضمیر اور وجدان کچھ یوں مطلع کرتے ہیں ۔۔۔۔کس طرف تیرا رخ اے بادِ صبا ٹھہرا ہے؟
ہمارے قابلِ تکریم دانشور، ادیب، مذہبی و سماجی و سیاسی قائدین ،فوج و محافظانِ مملکت، اعلیٰ اشرافیہ اور عوام الناس اس درسِ اولیٰ کو کیوں یاد نہیں کرتے یا کرنا چاہتے کہ مملکتِ خداداد ارضِ پاکستان اللہ کے نام پر لیا گیاہے اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کی عکاسی کرتا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا کر من حیث القوم ہم عنایت کرنے والی ذاتِ بابرکات سے عہدو پیماں کر چکے ہیں ہے کہ پاکستان میں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ کی ہے اور قوانین کے مآخذ قرآن و سنت ہیں ۔ جس مقصدکے تحت ہم نے لازوال قربانیاں دے کر جو خطۂ زمیں حاصل کیا ہے اس کا مطلب لا الہ الا اللہ کے سوا کچھ نہیں۔اب بات صرف اتنی سی ہے کہ۔۔۔۔۔۔ ماضی کہ جوابات میں خاموش پڑا ہے ۔۔۔۔حالت کہ سوالات میں جاں بول رہی ہے۔۔۔ ہم نے آئین تو بنا ڈالا لیکن افسوس صد افسوس اسے نافذ کرنا بھول گئے۔
چودہ سو سال پہلے ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جسے مدینہ طیبہ کا نام دیا گیا یعنی پاک و طیب شہر اور اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا پا ک ستان۔ اور چودہ سو سال بعد ہمارے اجداد نے اسی نظریے اور تخیل کے تحت پاکستان نام تجویز کر کے ایک ریاست قائم کی تھی جہاں قال اللہ و قال الرسول کی حکمرانی ہو یہاں آئینِ عطائی کی سلطانی ہو ااور جہاں امن و اماں کی فراوانی ہو۔ ہیہات !ہم اس سبق کو نہ بھولتے اور اللہ کی نصرت و تائید کو حاصل کر لیتے اور ان خطوط پر جن پر ہمارے بزرگوں کے لہو نے لکیریں کھینچی تھیں ایک نقشۂ امن و اماں ابھر جاتا اور اصل پاکستاں ابھر جاتا ۔
مسائل میں گھرا پاکستان ۔۔۔زخموں اور ناسوُروں سے چُور پاکستان اور کرچی کرچی پاکستان ہمیں 65سالوں سے دہائیاں دے رہا ہے کہ خدارا مجھے کتابِ حکمت چاہئے مجھے دستورِ وفا چاہئے ۔۔۔۔خالق نے جو دستورِ وفا ہم کو دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔افسوس زمانے میں کہیں آج نہیں ہے۔۔۔۔۔ اُسی دستور کو توڑ کر اسی سے رخِ زیبا موڑ کر ہم تبائیوں کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں کیونکہ خالق نے کلام لا ریب میں یہ بتا دیا ہے کہ ایس کیمیائے حیات میں بھالئی و فلاح و کامرانی ہے اسی میں بقاء کا راز مضمر ہے اسی میں مسائل کا حل پوشیدہ ہے اگر اسے چھوڑ چلے تو گمرائیوں ، سرابوں اور عتابوں کی گہری کھائیوں میں کھوتے چلے جاؤ گے اور ان تحت الثریٰ کی گھٹا ٹوپ وادیوں سے نکلنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا بس یہی خیال ہوا چلا جاتا ہے کہ شاید کہیں ہم گرفتارِ عتاب تو نہیں ہو گئے ۔ کہیں ہم گردابِ سراب میں تو نہیں پھنس گئے ۔۔۔ شاید ہاں یا قوی الامکان سے بھی بڑھ کر یقین کے گوشوں کی حد تک ہاں ہم اسی تنزلی میں پڑتے اور بڑھتے چلے جارہے ہیں جس سے ہمیں ڈرایا اور خبردار کیا گیا تھا۔یہی دوریاں ہمیں دہشت کے قریب کرتی چلی جارہی ہیں اور تخریب کاریاں اور تبائیاں ہمارا مقدر بنتی چلی جارہی ہیں۔ اسی طرح کے ظلم کا شکار ہم بھی ہیں اور ہمارے مدارس میں پڑھنے والے بچے بھی سینکڑوں کی تعدادمیں ہو رہے ہیں اَسی کے قریب بچے قرآن پڑھتے ہوئے شہا دتوں کی پربتوں پر پہنچ گئے۔ اڑھائی ہزارکے قریب جامعہ حفصہ کی بچیاں بھی راہِ عدم کو چل بسیں اورآج ہمیں وہ سبق پھر دہرایا گیا آرمی پبلک سکول کے ڈیڑھ سو کے قریب طلباء بھی شہادتیں دے گئے۔ مجھے قتل کرنے کی سازش تو دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرے گھر کا ظالم پتا مانگتے ہیں۔۔۔۔۔دیر تو اب بھی نہیں ہوئی کیوں کہ خوابِ غفلت سے جھنجھوڑ کے طفلانِ پشاور ہمیں یاد دہانی کرا گئے ہیں۔ بچے لُٹا کے زندگی سب سے یہ کہہ گئے۔۔۔۔۔۔اب تو بڑے بھی خیر میں کچھ حصہ ڈال دیں۔۔۔۔۔۔ہماری اساس، ہماری راہِ مبین، ہماری میراث، ہمارا نمونہ اور ہمارا اسوہ قرآن کا دستور ہے ۔ اللہ کا قانون ہے اللہ کا نظام ہے ۔ اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے رب کریم سے دھوکے میں ڈال رکھا ہے ؟ ہمارا نمونہ امریکا کبھی نہ تھا ، ترکی کبھی نہ تھا افغانستان و ایران تو نہیں ہو سکتے، بھارت و روس نہیں بن سکتے تو پھر ہمیں اس سمت دیکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ ہمیں تو مستعار نہیں چاہئے ہمارے پاس تو نظامِ عدل و احسان ہے ، ہمارے پاس تو نظامِ فطرت ہے نظامِ ابدی ہے بس اب ضرورت اعادہ کی ہے ضرورت خطوطِ پاکستان کے نقوش کو واضح کرنے کی ہے۔ یہ ظالمانِ جہاں ہمیں مٹانے کے در پے ہیں ۔ اب وقت ہے کہ اصلِ جمہوریت ، عینِ شریعت کو یعنی قرآن و سنت کو نافذ العمل کیا جائے تو ہم رسوماتِ باطلہ کے ساتھ ساتھ دہشت و سفاکیت کو بھی تہِ تیغ کر سکتے ہیں۔ہم اسلامی روشن خیالی کوا پنا سکتے ہیں ۔نظامِِ فاروقؓ و علیؓ دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔عدل و انصاف کی بالادستی آ سکتی ہے۔ انصاف فوری اور سستا مل سکتا ہے۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ میں پانی پی سکتے ہیں ۔ حکمران پیٹھ پر رعایا کا بوجھ اُٹھا سکتے ہیں۔ ظلم و سربریت کا خاتمہ ممکن ہے۔ ملا اور مسٹر کی تفریق مٹائی جا سکتی ہے ۔ رعایا خوش رکھی جاسکتی ہے۔ روزگار عام اور بے روزگاری ختم کی جاسکتی ہے۔ مدرسہ اور سکول میں نظام تعلیم کو بہترین کیا جاسکتا ہے۔ مرد و زن کی جان ، مال ، عزت اور آبرو کی تحفیظ ممکن ہے۔اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ طبقاتی نظام کا خاتمہ کر کے اختلاف بین امتی رحمۃ سے بدلا جا سکتا ہے ۔ بس ایک اور انیک کام کرنا ہوگا کہ مصورِ پاکستان کے تصور کو ازسرِ نو حیات دینی پڑے گی۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

Readers Comments (0)




Weboy

Weboy