پوری قوم ایک صفحے پر

Published on December 29, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 286)      No Comments

Rifat mazhar-1
ہم بھی عجیب لوگ ہیں ۔جب بھی کوئی جانکاہ حادثہ رونما ہوتاہے تو ہم جذبات کے الاؤمیں اپنے پرانے زخم کریدنے لگتے ہیں ،سر جوڑکر بیٹھتے ہیں ،نئے نئے منصوبے تراشتے ہیں لیکن نتیجہ ہمیشہ ’’ڈھاک کے تین پات‘‘۔دہشت گردوں نے ساٹھ ہزار شہید کردیئے ،پریڈلین مسجد ،جی ایچ کیو ،نیول ایئر بیس ،کراچی ایئرپورٹ ،کونسی جگہ ہے جو دہشت گردوں نے چھوڑی ہو ۔اُن وحشیوں نے تو مساجد ،جنازگاہیں ،مارکیٹیں اور چرچ تک نہیں چھوڑے لیکن ہم نے اپنے آپ کو فقط منصوبوں تک محدودرکھا،عملی اقدام نہ ہونے کے برابر ۔پھردلوں کی دنیااآجاڑ دینے والاسانحہ پشاورہوگیا اور ہم ایک دفعہ پھر سر جوڑ بیٹھے لیکن اب کی بارمنظر دوسراتھا ۔پاکستان اورعالمِ اسلام ہی نہیں،پوری دنیانے اِس دردکو محسوس کرتے ہوئے بھرپورمذمت کی ،کوئی طالبان کاحامی باقی نہ بچا حتیٰ کہ سیّد منور حسن نے بھی کہہ دیا’’یہ قتال فی سبیل اللہ نہیں ،قتال فی سبیل الشیطان ہے ‘‘۔سانحہ پشاورپرآل پارٹیزکانفرنس بلائی گئی اوربنا حیل وحجت سبھی دہشت گردی کے خلاف یکسو ہوگئے ۔
اللہ نظرِبَد سے بچائے ،سیاسی وعسکری قیادت میں جتنی معجزاتی ہم آہنگی آج نظرآرہی ہے وہ پاکستان کی تاریخ میں دیکھی نہ سُنی ۔اِس کے باوجود کچھ کورچشم’’ بزرجمہروں‘‘کو یہ ہم آہنگی نظرنہیں آرہی ۔ایک ارسطوئے دَوراں جو ’’حبِّ علیؓ نہیں ،بغضِ معاویہؓ کے تحت ہمیشہ نوازلیگ کے خلاف محض اِس لیے زہر اگلتے رہتے ہیں کہ 2013ء کے انتخابات میں نوازلیگ نے اُنہیں ٹکٹ سے محروم رکھا ،اُنہوں نے وزیرِاعظم کے جی ایچ کیوکے دورے پر فرمایا ’’جب وہ پشاورمیں ہونے والی درندگی کے بعد جی ایچ کیوگئے تو اُن کے چہرے کے تاثرات دیکھنے والے تھے ۔فیصلہ ساز فوجی جنرل اور جنگ میں قوم کی قیادت کرنے والوں کو علم ہی نہ تھا کہ کیاکہا جارہاہے ۔وہ وہاں سکوت کا مظہربنے بیٹھے تھے ‘‘۔ہم تو سمجھتے تھے کہ موصوف صرف لکھاری ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ وہ ایسے ماہرِنفسیات بھی ہیں جو چہروں کو پڑھ کردِل کا حال معلوم کرلیتے ہیں ۔ویسے یہ بھی ہوسکتاہے کہ موصوف کے پاس ’’سلیمانی ٹوپی‘‘ہو جسے پہن کروہ دنیا کی نظروں سے غائب ہوکر میاں صاحب کے پیچھے پیچھے جی ایچ کیو میں ہونے والی میٹنگ میں جاپہنچے ہوں کیونکہ جس قطعیت سے موصوف نے میاں صاحب کے ’’سکوت کا مظہر‘‘بنے بیٹھنے کا ذکرکیاہے اُس سے تو یہی ظاہر ہوتاہے کہ وہ بھی میاں صاحب کے پہلومیں ہی براجماں تھے ۔ہم اُن کی سلیمانی ٹوپی پر ایمان لے آتے لیکن 24 دسمبرکی طویل ترین آل پارٹی کانفرنس کے بعد موصوف کا بھانڈاپھوٹ گیا کیونکہ وہاں تو ناقابلِ یقین ہم آہنگی نظرآئی اور سبھی نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ حکومت اور فوجی قیادت ایک صفحے پرہے ۔ دراصل محترم لکھاری دھرنے ختم ہونے پر بوکھلاگئے ہیں کیونکہ وہ توسمجھتے تھے کہ حکومت کے دِن گنے جاچکے لیکن اب تو تمام سیاسی جماعتوں نے میاں نوازشریف کی قیادت پر اعتمادکا اظہارکردیا جس کی بناپروہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئے۔
محترم لکھاری کی طرح چودھری برادران کی بوکھلاہٹ تواُس وقت سے جاری ہے جب سے علامہ قادری اُنہیں داغِ مفارقت دے کر عازمِ امریکہ ہوئے ۔شنیدہے کہ علامہ صاحب کے کھسک لینے کے بعدلوگ دھڑادھڑ چودھری برادران سے دھرنے کی تعزیت کرنے اُن کے گھرپہنچنے لگے ۔اُن لوگوں میں شیخ رشیدبھی شامل تھے جوچودھری برادران کویہ طفل تسلیاں دے رہے تھے کہ ابھی کپتان کا دھرناباقی ہے اور کپتان تواُن کے بغیرلقمہ بھی نہیں توڑتے اِس لیے خاطر جمع رکھیں لیکن چودھری برادران توعلامہ قادری کی جدائی میں اتنے بے کَل تھے کہ متواتر گاتے ہی چلے جارہے تھے کہ ’’سانوں اِک پَل چین نہ آئے سجناں تیرے بِنا‘‘۔ایک کونے میں احمدرضاقصوری اُداس اُداس بیٹھے تھے ۔کسی نے اداسی کا سبب پوچھاتو فرمانے لگے کہ دھرناتھا تو کچھ آسرا بھی تھا لیکن اب تو پرویزمشرف صاحب کا مستقبل تاریک ہی لگتاہے اور خطرہ ہے کہ ملک ایک ’’عظیم فنکار‘‘سے محروم ہوجائے گا ۔ہمارے علامہ قادری بھی عجیب ئے ہیں ۔جب وہ کینیڈاسے تشریف لائے تو حکومت پریشان ہوئی اور جب گئے توکچھ راندہ درگاہ سیاستدان اورکاروباری لوگ پریشان ہوئے۔راندہ درگاہ اِس لیے کہ سوائے ’’آستانۂ قادریہ‘‘کے اُنکی کوئی جائے پناہ نہیں تھی اورکاروباری اِس لیے کہ وہ توڈی چوک کومارکیٹ میں بدلنے کے منصوبے بنائے بیٹھے تھے لیکن پتہ نہیں علامہ صاحب کے مَن میں کیاآئی کہ اچانک اپنادھرنا سمیٹ کراُن کے کاروبارپہ لات ماردی ۔کچھ لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ علامہ صاحب نے بھکر کے ضمنی انتخابات میں مایوس کُن کارکردگی کی بناپر ایک دفعہ پھر انتخابات میں حصّہ لینے سے توبہ کرلی ہے اورصحت یابی کے بعدوہ انقلاب لانے پاکستان تشریف لارہے ہیں لیکن اب کی باراُنہیں کپتان صاحب کاساتھ میسر نہیں ہوگا کیونکہ اب کپتان صاحب قومی دھارے میں شامل ہوچکے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف اُن کا عزم اتنا صمیم ہے کہ اُنہوں نے آل پارٹی کانفرنس میں بَرملاکہہ دیا ’’ تمام مسلح جتھوں سے ہتھیار واپس لیے جائیں ،کوئی عسکری ونگ نہیں ہوناچاہیے ،ہتھیار صرف ریاستی فوج کے پاس ہونے چاہییں۔خاں صاحب کی اِس تجویزکو وزیرِاعظم اور آرمی چیف نے بھرپور اندازمیں سراہا ۔یہ بھی اُمیدکی جارہی ہے کہ ایک آدھ دِن میں حکومت اور تحریکِ انصاف کی مذاکراتی کمیٹیاں کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گی ۔اِس لیے کپتان صاحب تواب علامہ قادری کے کندھے سے کندھاملاکر کھڑے ہونے سے رہے البتہ الطاف بھائی سے اُمیدکی جاسکتی ہے کہ وہ ’’اوئے جاگیردارا‘‘کا نعرہ لگاتے ہوئے قادری صاحب کے ساتھ آن ملیں ۔ویسے بھی آجکل وہ بہت ’’اوکھے اوکھے ‘‘بیانات دے رہے ہیں ۔پہلے اُنہوں نے مولاناعبد العزیزسے پھڈا ڈالا ،پھر مارشل لاء کی بات کی اور اب ایک دفعہ پھر نئے انتظامی یونٹ اور صوبے بنانے کا مطالبہ کردیاہے ۔ملٹری کورٹ پربھی سب سے زیادہ اعتراض ایم کیوایم کو ہی تھا ۔فاروق ستارصاحب نے فرمایا ’’پہلے جب ملٹری کورٹس بنے تھے توہمارے خلاف ہی استعمال ہوئے تھے ‘‘۔افہام وتفہیم کی فضاکو برقراررکھنے کی خاطرچیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف صاحب نے کہہ دیا ’’ماضی کو چھوڑیں ،آگے بڑھیں ،میں ذاتی گارنٹی دیتاہوں کہ ملٹری کورٹ کا غلط استعمال نہیں ہوگا ‘‘۔ہوسکتاہے کہ الطاف بھائی یہ سب کچھ حفظِ ماتقدم کے طورپر کررہے ہوں تاکہ 1992ء کی تاریخ نہ دہرائی جائے اور ایم کیوایم کے باقی رہنماؤں کوبھی الطاف بھائی کی طرح رات کے اندھیرے میں فرارنہ ہوناپڑے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Themes