ہماری میڈیکل فورس اور لفظ جنگ؟

Published on February 4, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 506)      No Comments

New Column Logo
وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے مشیر برائے صحت خواجہ سلمان رفیق کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کو دہشت گردی کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبہ میں بھی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ہمیں اپنے بچوں کو دہشت گردی اور بیماری دونوں سے ہی بچانا ہو گا،ایک اخباری اطلاع کے مطابق ایوانِ اقبال لاہور میں منعقدہ انسدادِ خسرہ کانفرنس کے دوران پنجاب کے مختلف ہسپتالوں کے سربراہان و میڈیکل آفیسران سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ26جنوری سے صوبہ بھر میں شروع انسدادِ خسرہ مہم کو پاکستان کے بچوں کے مستقبل کی جنگ سمجھ کر قومی جذبہ کے ساتھ چلائیں،خیر مذید انہوں نے جو بھی کہا اُس سے غرض نہیں غرض اس بات کی ہے کہ خطاب کے دوران انہوں نے لفظ جنگ استعمال کیا ہے اور جنگ ہمیشہ مجاہد (یعنی کہ فوجی)لڑا کرتے ہیں اورفوجی یا مجاہد اُنہیں کہتے ہیں جنہیں خود سے زیادہ وطن عزیز ہو تا ہے جو لڑنے کا معاوضہ مانگنے کی بجائے جانیں دے کر سرحدوں کی حفاظت کر تے ہیں جو دھوپ یا چھاؤں دیکھے بغیر توپوں کے منہ موڑ تے ہیں ،مگر مجھے یہ خبر پڑھتے پڑھتے زمانہ قدیم یا زمانہ جدید کی کسی جنگ کا کوئی واقع یاد آنے کی بجائے حال ہی میں کیا گیا ایک سروے یاد آیا ہے جو میں نے ایک نجی نیوز چینل کیلئے جنوبی پنجاب کے ضلع پاکپتن میں کیا تھا،لہذا لفظ جنگ اور جنگ لڑنے والوں پر مذید بات کرنے سے پہلے میں اس خفیہ سروے کا احوال عرض کرتا چلوں جو صرف اورصرف بنیادی ہیلتھ سنٹر ز پر کیا گیا تھااوراس سروے کے دوران 85فیصد بی ایچ یوز کا 70فیصد سٹاف ہسپتالوں سے عملاً غیر حاضر جبکہ کاغذی کاروائی میں حاضر پاکراِن مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں بند کرتے ہوئے ہم وہاں کے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر پی آر ایس پی سے یہ پوچھنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ اِن ہسپتالوں کو کون چلا رہا ہے ؟یہاں آنے والے مریضوں کو کون دیکھ رہا ہے ؟مگر اس کا جواب ہمیں صرف اتنا ملا تھا کہ میں آپ کے کِسی سوال کے کسی جواب کا پابند ہی نہیں اگر ہوں تو صرف اور صرف سیکرٹری ہیلتھ کو جواب دینے کا پا بند ہوں جو مجھ پر مکمل طور پر مطمعین ہیں جبکہ دیگر ذرا ئع یہ بتاتے رہے کہ یہاں پر تعینات سٹاف یہاں تو صرف سیرو تفریح کیلئے آتا ہے مریضوں کا چیک اپ تو زیادہ تر پرائیویٹ ہی کرتے ہیں جبکہ ہسپتالوں کو ڈاکٹر کی بجائے وہاں کے چوکیدار اور پرائیویٹ آیاز چلاتی ہیں اور جب ہسپتالوں کی حالت دیکھی تو یہ جاننے کیلئے بے تاب ہو گئے کہ کیا یہاں کسی آفیسر نے وزٹ کبھی نہیں کیا ؟اگر کیا ہے تو اِن بھوت بنگلوں کی ریپئرنگ کیلئے گرانٹس بھی منظور کروائی ہو نگی اور اگر گرانٹس منظور ہوئی ہیں تو وہ صرف کہاں ہوئی ہیں ؟میرے ایک ہی سانس میں اتنے سارے سوالات پر پہلے تو وہاں موجود درجہ چہارم کے کچھ ملازمین تھوڑے گھبرائے پھِر کہتے کہ وزٹ تو صاحب ہوتے ہی رہتے ہیں مگر آج کل کے دور میں اتنی گہرائی تک کون جاتا ہے ،لہذا آپ بھی چھوڑیں اِن باتوں کو چلیں آئیں ہم اپنے صاحب سے آپ کی کام کی بات کرواتے ہیں ،یہ سُن کر مُجھے غصہ تو آیا مگر برداشت کرتے ہوئے میں نے بات ٹال دی جب اِن بی ایچ یوز کے کوارٹر یعنی کہ سٹاف کی سرکاری رہائش گاہوں کا رُخ کیا تو یوں محسوس ہوا جیسے یہ شفا ء گاہیں نہیں بلکہ جان لیوا بیماریوں کی اماج گاہیں ہیں کیونکہ وہاں ڈاکٹر زکی بجائے مویشی رہائش پذیر تھے جن کے گوبر سے انتہا کا تعفن اُٹھ رہا تھا ،اور جب اس پر سوال کیا گیا تو معلوم ہوا کہ سٹاف خود پرائیویٹ رہائش گاہوں میں رہتا جبکہ اُن کے مویشی یہاں رہائش پذیر ہیں ان دِنوں پولیومہم بھی چل رہی تھی اس لئے ہم یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ جن لوگوں کی پولیوڈیوٹیز ہیں وہ کہا ں ہیں لہذا ہم نے اس متذکرہ بالا سارے کام کی تکمیل کے بعد ایک ہسپتال کی پولیوٹیم کا پیچھا کیا تو معلوم ہوا کہ اس ہسپتال کی پولیو ٹیم فلاں گاؤں گئی ہے اور اِس کی فلاں گاؤں ،خیر اِن دونوں میں سے جس ٹیم کے ہم قریب ترین کھڑے تھے اُس کے پیچھے چل دیئے جب مطلوبہ گاؤں پہنچنے تو معلوم ہوا کہ ٹیم ممبران فلاں نمبر دار کے ڈیرے پر موجود ہیں جب ہم اُس ڈیرے کے تھوڑے قریب گئے تو ٹیم ممبران کے ہاتھوں میں ویکسین ڈراپس کی بجائے چائے کے کپ اور خوش گپیوں میں مصروف پائے، اور ڈیرے کے درمیان میں ایک بڑا سا پالتو کُتا بھی دیکھنے کو مِلاجِس سے خوفذدہ ہم دورہی کھڑے یہ سوچنے لگے کہ جو بچے کسی بھی وجہ سے اس ڈیرہ پر نہیں آپائیں گے وہ یقیناًویکسین سے محروم ہی رہ جائیں گے جسے حاصل کرنا اُن بچوں کا بنیادی حق ہے جبکہ اِس سٹاف کا گھر گھر پہنچ کر اُنہیں دینا بنیادی فرض ہے ،مگر یہ اپنے آرام کی خاطر مستقبل کے شاہینوں کے حق پر ڈاکہ ڈالے ہوئے ہیں ،کیوں نہ اِن سے پوچھا جائے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے اور یہ بات پوچھنے کیلئے جوں ہی ہم تھوڑا آگے بڑھے تو وہ کُتا زور سے بھونکا اورہم اُس سے ڈرتے ہوئے واپس توبھاگ آئے مگر ابھی تک یہی سوچ رہے تھے کہ یہ کتنا بڑا ظلم ہے اور کتنا بڑاڈاکہ ہے اور اِ سکی کیا سزا ہو سکتی ہے ؟کہ اب مشیر برائے صحت کی جانب سے اِس ہی فوج کیلئے لفظ جنگ استعمال کردیا گیا ہے ،جسے پڑھتے ہی اب متذکرہ بالا سوچ کے ساتھ اس سوچ میں بھی کھو گئے ہیں کہ مشیر برائے صحت نے لفظ جنگ کی توہین کر دی ہے یا جنگ لڑنے والوں کی ،کیونکہ دشمن بیماری کی صورت میں ہوچاہے انسانی صورت میں مقابل میں لڑنے والی فوجیں نہ ہم جیسی آرام پرست ہوتی ہیں اور نہ ہی کاہل،وہ توانا ہوتی ہیں وہ چاک وچوبند ہوتی ہیں کرپشن کی بیماری اُن کے قریب سے بھی نہیں گزری ہوتی ،اِس لئے اُنہیں جو محاظ بھی دے دیا جائے اُس پر وہ ڈٹ جاتی ہیں لہذا لفظ جنگ بھی اُنہیں ہی پر سوٹ کرتا جسے ہمیں اپنی میڈکل فورس پر استعمال کرنے کیلئے پہلے اِسے اِس قابل بنانا ہوگااس کے انگ انگ میں لگے کرپشن کے گُھن کو صاف کرنا ہوگا ورنہ ہم جتنی چاہیں جنگیں مسلط کر دیں اورجتنے ارب روپے چاہیں صرف کرلیں کچھ حاصل نہ ہوگا پولیوں ڈینگی اورخسرہ وغیرہ ہمیں یوں ہی ناکامی کے تماچے رسید کرتے رہیں گے اور یوں ہی مذاق اُڑا تے رہے گے (فی امان اللہ)۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress主题