محترم مجیب الرحمٰن شامی کوپتہ نہیں کیا سوجھی کہ اُنہوں نے ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ پررائل پام میں سی پی این ای کی تقریب منعقد کرڈالی جس کے مہمانِ خصوصی وزیرِاعظم پاکستان میاں محمدنوازشریف تھے۔اُدھر عاشقان سڑکوں پر گلاب کے پھول ہاتھوں میں لیے قطاراندرقطار کھڑے ’’ایک محبت کاسوال ہے بابا‘‘کہہ کرکسی حسینۂ دلنوازسے تھپڑکھارہے تھے اور کسی سے گالیاں سُن کربھی بَدمزہ نہیں ہورہے تھے اوراِدھر وزیرِاعظم صاحب صحافیوں سے ’’ہتھ ہولارکھنے‘‘کاتقاضہ کررہے تھے۔یہ شاید ویلنٹائن ڈے کااثرتھا کہ وزیرِاعظم صاحب کا انداز بھی کچھ کچھ عاشقانہ ہی تھا۔صحافتی ’’محبوباؤں‘‘کے جھرمٹ میں وزیرِاعظم صاحب سنبھل سنبھل کے کچھ یوں کہتے نظرآئے کہ
یہ کیسا دستورِ زباں بندی ہے تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
وزیرِاعظم صاحب کواحساس تھا کہ اُن کی زبان سے نکلے ہوئے چندتلخ جملے بھی رائی کاپہاڑ بنادیں گے اورنیوزچینلز پر’’ہا ہاکار‘‘مَچ جائے گی ۔یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے صحافیوں کوایسے ہی مخاطب کیاجیسے کوئی عاشقِ صادق اپنی محبوبۂ دِلنوازکو اپنے دِل کاحال بیان کررہاہو ۔یوں تو میاں صاحب کی تقریرکا لُبِ لباب ’’رکھ دیاقدموں میں دِل نذرانہ ،قبول کرلو‘‘ ہی تھا لیکن اُنہوں نے کچھ گلے شکوے بھی کیے اور چھیڑچھاڑبھی ۔اُنہوں نے جہاں سی پی این ای کے لیے اسلام آبادمیں قطعۂ زمین دینے کاوعدہ کیااور پانچ کروڑ روپے کی امدادبھی ،وہیں میڈیاہاؤسز کے کردارپرہلکی پھلکی تنقیدکرتے ہوئے فرمایاکہ دھرنوں کے موقعے پرمیڈیاکا کردار قابلِ ستائش نہیں تھا ۔اُنہوں نے کہا پرویزمشرف نے جب منتخب جمہوری حکومت کاتختہ اُلٹاتو کچھ صحافی اِس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے لیکن کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اِس آئین شکنی پر پرویزمشرف کوسپریم کورٹ کی طرف سے ملنے والی آئینی ترمیم کاحق ملنے کی کھلی حمایت کی ۔انتہاپسندی اوردہشت گردی کے حوالے سے اُنہوں نے کہا’’میڈیاکم ازکم دوسال کے لیے اپنی ریٹنگ بھول جائے ۔نیشنل ایکشن پلان پرجس طرح ملک کی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوئی ہیں اور مصلح افواج جس طرح اِس کاحصّہ ہیں اسی طرح میڈیاکو بھی اِس پلان کاحصّہ ہوناچاہیے ‘‘۔وزیرِاعظم صاحب تودلی دردکے ساتھ یہ ساری باتیں کہہ رہے تھے لیکن ہمیںیقین ہے کہ میڈیاہاؤسز پراِس کا ’’کَکھ‘‘اثرنہیں ہونے والاکیونکہ ’’ریٹنگ کاسوال ہے بابا‘‘۔اگرمیڈیاہاؤسز اپنی ریٹنگ بھلاکر دہشت گردی کے خلاف حکومت اورفوج کی طرح ایک صفحے پر ہوجائیں تو اُن کا کاروبارٹھَپ ہوجائے گااور اینکراور ’’اینکرنیاں‘‘سڑکوں پر مونگ پھلی بیچتی نظرآئیں گی ۔اِس لیے کہے دیتے ہیں کہ وزیرِاعظم صاحب کواِس معاملے میں تو مایوسی ہی ہوگی اوربالآخر اُنہیں کہنا ہی پڑے گاکہ
وفا کیسی ،کہاں کا عشق ، جب سَر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
ہمارے آزاداور بے باک میڈیاکاتو یہ عالم ہے کہ اُن کے نزدیک تو ’’خبر‘‘وہی ہوتی ہے جس میں ریٹنگ ہو۔اگرریٹنگ ذوالفقارمرزا جیسے شخص کی وجہ سے بڑھتی ہے تومیڈیاحاضر اورقدم بوس ۔ایک موقع ایسابھی تھاجب سارامیڈیا ذوالفقارمرزا کے پیچھے تھااور مرزاصاحب نخرے دکھا رہے تھے ۔آج میڈیابھی وہی اور ذوالفقارمرزا بھی وہی لیکن اب اُن کے’’رُخِ روشن‘‘ کی ایک جھلک بھی ٹی وی سکرین پر نظرنہیں آتی ۔لال حویلی والے شیخ رشیدمیڈیاہاؤسز کی اسی لیے ’’جِندجان‘‘ہیں کہ اُن کی ’’بے باک‘‘گفتگوسے ریٹنگ بڑھتی ہے۔ایک زمانے میں ویناملک بھی نیوزچینلز کی محبوب ترین ہستی ہواکرتی تھی ۔یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ویناملک انڈیامیں بیٹھ کرپاکستان کی بدنامی کاباعث بن رہی تھی ۔اُدھر ویناملک نے شادی کی اوراِدھر وہ نیوزچینلزکی خبروں سے آؤٹ ۔ویسے ہمارے نیوزچینلز اب ریٹنگ کے معاملے میں بھی خودکفیل ہوتے جارہے ہیں۔چینلزپر اب ایسے اینکرزکی بھرمارہے جونہ صرف اپنے آپ کو ’’بزرجمہر‘‘سمجھتے ہیں بلکہ اپنی ’’خوش اخلاقی‘‘میں شیخ رشیدصاحب جیسوں سے بھی دوہاتھ آگے ہیں ۔آقاﷺ کاتو فرمان یہ ہے کہ جب کوئی بات کر رہاہو تو اُسے اپنی بات مکمل کرلینے دو ،درمیان میں مَت ٹوکولیکن ہمارے اینکرزتو مہمان کی بات مکمل ہونے سے پہلے کئی کئی باردرمیان میں’’پھُدکتے‘‘رہتے ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں اِس سے ریٹنگ بڑھتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ناظرین اب ایسے اینکرزسے ’’اوازار‘‘ہوتے جارہے ہیں جو ’’پھُدکنے‘‘کے مرض میں مبتلاء ہیں ۔سب سے پہلے خبرنشر کرنے کاجنون بھی سَر چڑھ کربول رہاہے ۔ہر نیوزچینل ایک ہی وقت میں اپنی تمامتر توانائیوں کے ساتھ چیخ رہا ہوتاہے کہ سب سے پہلے خبر اُسی نے نشرکی ۔سانحہ پشاورہو یابلدیہ ٹاؤن ،خبریہ نہیں کہ کتنے گھروں میں صفِ ماتم بچھی اورکتنے معصوموں کے سَروں سے مَوجِ خوں گزرگئی ،خبر یہ ہے کہ کِس چینل نے سب سے پہلے خبرنشرکی ۔ریٹنگ بڑھانے کاایک ذریعہ نیوزچینلز کے مزاحیہ پروگرام بھی ہیں۔یہ ایسے پروگرام ہوتے ہیں جن میں ہزل گوئی ،پھکڑپَن اورذومعنی جملوں کی بھرمارکے ساتھ پَگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ ایسے پروگراموں پر سٹیج فنکار قابض ہیں اور اِن میں وہی کچھ نظر آتاہے جو سٹیج ڈراموں میں نظر آتاہے ،جسے شرفاء نے کبھی پسندنہیں کیا۔سٹیج ڈرامے توایک محدودطبقہ ہی پسند کرتاہے لیکن اب توالیکٹرانک میڈیاکی بدولت گھرگھرمیں سٹیج ڈرامے نظرآتے ہیں ۔تقریباََتمام نیوزچینلز اِس مرضِ بَدمیں مبتلاء ہوچکے ہیں لیکن کیاکریں ’’ریٹنگ کاسوال ہے بابا‘‘۔
َ پرویزمشرف نے اپنے دَورِآمریت میں پتہ نہیں کِس ’’ایجنڈے‘‘کے تحت الیکٹرانک میڈیاکو پروان چڑھایااور پھروہ اتنا’’چڑھ‘‘ گیاکہ خود پرویزمشرف کے قابومیں بھی نہ رہا۔ جمہوری ملکوں میں میڈیاآزاد ہی ہواکرتاہے اوربے باک بھی لیکن جتنی آزادی اور بے باکی ہمارے ہاں پائی جاتی ہے اُتنی شایددُنیاکے کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں ہوگی ۔آج وزیرِاعظم صاحب کہہ رہے ہیں کہ میڈیااپنا ’’ضابطۂ اخلاق‘‘خود تیارکرے لیکن کیاضابطۂ اخلاق کے بغیرہی میڈیا ’’سَرپَٹ‘‘ ہے؟۔ اگرایسا ہی ہے توپھر پیمرانامی ایک ادارہ بھی ہواکرتاتھا ،اُس کا کیابنا؟۔ ہمارے ٹھنڈے ٹھار وزیرِاطلاعات جناب پرویزرشید تواپنی بے بسی کاہروقت روناروتے رہتے ہیں اوریہ بھی غالباََاُنہی کافرمان ہے کہ پیمراکا توکیبل آپریٹرزپر بھی زور نہیں چلتا ،میڈیاہاؤسز پرکیا خاک چلے گا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ میڈیاہاؤسز کے لیے ضابطۂ اخلاق بھی حکومت کوخودہی تیارکرنا پڑے گا اوراُس پر عمل درآمدکے لیے پیمراکو مضبوط اورفعال کرنے کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہی ہے کیونکہ نیوزچینلز مالکان تومحض کاروبار کررہے ہیں اوراُنہیں اپناکاروبار چمکانے کے لیے قومی وملّی یکجہتی نہیں، ریٹنگ کی ضرورت ہے ۔