جائیں تو جائیں کہاں

Published on February 25, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 390)      No Comments

mys3
آج پاکستان اپنی تاریخ کے سخت ترین دور سے گزر رہا ہے یہ کہا جاتا ہے مگر پاکستان کی تاریخ کو جاننے والے جانتے ہیں کہ ہر دور ہی سخت ترین رہا ہے اور ایسا ہی کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان مشکل ترین ،سخت ترین دور سے گزر رہا ہے ۔اس وقت پاکستان میں ایک طرف دہشت گردی کا عفریت ہے ۔ دوسری طرف حکومت دہشت گردی کی وجوہات کو ختم کرنے کی بجائے دہشت گرد کو ختم کرنے کے در پے ہے جس سے ملک میں مزید دہشت گردی بڑھتی جا ری ہے ۔ایک طرف بے روزگاری، غربت، ہے تو دوسری طرف کرپشن ،رشوت ،سے جمع کی ہوئی دولت سے سوئس بینک بھرے پڑے ہیں ۔ملک میں بد انتظامی کا راج ہے،ناانصافی کو انصاف سمجھا جاتا ہے اور بے اتفاقی پر اتفاق ہے اور فرقہ واریت ،لسانی،نسلی،تعصب اور اختلاف اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہاہے ۔
دنیا کے ایک فیصد امیر لوگوں کے پاس دنیا کے ننانوے فیصد اثاثے ہیںیہ ہی حال پاکستان کا جس کی نصف سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔غریب آدمی ٹیکس دے رہے ہیں اور امیر اول تو ٹیکس دیتے نہیں دوم قرضے لیتے ہیں اور ان کو معاف کروا لیتے ہیں ۔کیسا ظلم ہے کتنا اندھیرا ہے ،کہاں انصاف ہے ۔ عام آدمی دن بدن غربت کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو کہ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد اور پاکستان کی حکومت کے مطابق 54 فیصد ہے ۔یہاں ایک دلچسپ بات کا ذکر مناسب ہو گا کہ ۔حکومت نے خط غربت کی تعریف ہی بدل دی ہے ۔ اب یومیہ دو ڈالر یعنی قریباً200 روپے روزانہ (6000 روپے ماہانہ) کمانے والے لوگ خط غربت سے نیچے شمار کیے جاتے ہیں۔اور جو 6000 ماہانہ کما رہا ہے وہ غریب نہیں ہے ۔اس بات پر رونا یا ہنسنا آپ کے اختیار میں ہے ۔ مالی سال 2014 میں حکومت نے ایک مزدور(نوکری پیشہ افراد) کی ماہانہ 12000 تنخواہ مقرر کی ہے ۔اب اس کا نفاذ کہاں ہے یہ تو حکومت کو ہی علم ہو گا ،ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں ،ہوٹل ،مل ،فیکڑیوں ،کارخانوں ،بھٹہ ،ورکشاپوں ،دکانوں ،زمینداروں ،وغیرہ وغیرہ میں کام کرنے والوں کو 3000 سے 6 یا 7 ہزار تک تنخواہ مل رہی ہے اور پرائیویٹ سکولز اور کالج میں تو تنخواہ شرم ناک حد تک کم ہے ۔چونکہ انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے ،اور پھر انصاف بھی بکتا ہے اس لیے غریب اتنی کم تنخواہ پر کام کر رہے ہیں شکایت لے کر بھی جائیں تو کہاں جائیں ،کس سے منصفی چاہیں وہاں بھی امیر کے حق میں ہی فیصلہ ہونا ہے ۔اگر اپنا حق ،انصاف لینے کے لیے جہاں کام کر رہے ہیں کوئی غریب الجھے تو چھٹی پکی اور اس کی جگہ لینے کے لیے ،اس سے بھی کم تنخواہ پر کام کرنے والوں کی لائن لگی ہوتی ہے وہ دڑتا ،کام کرتا رہتا ہے ۔
کرپشن ،رشوت ،سے جمع کی ہوئی دولت سے سوئس بینک بھرے پڑے ہیں۔لوٹی دولت واپس لانے کے دعوے دار اپنی وعدے بھول چکے ہیں اس بات کو جانتے ہیں کہ قیامت میں وعدوں کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔کم آمدن جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے ،اس پر ناقص خوراک وہ بھی ملاوٹ شدہ ،عام ضرورت کی اشیاء میں بھی ملاوٹ کی جاتی ہے اور یہ ملاوٹ کرنے والے ہنود و یہود نہیں ہیں اس نبی رحمت ﷺ کے امتی ہونے کے دعوے دار ہیں جس کا فرمان ہے کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ، روزگار اور صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی، قرض اور کرایہ کی پریشانی، اور اس پر حکومتی بے توجہی،حکومت کی ترجیحات میں عوام کی بھلائی کا نام و نشان نہیں ہے ۔ ایسے حا لات میں لوگ مریض بنتے ہیں یا مجرم۔ صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لئے جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند افراد کی
ضرورت ہوتی ہے ۔ کرپشن،رشوت ستانی، اقربا پروری،انصاف کی عدم فراہمی،وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ نظام حکومت فیل ہو چکا ہے ۔ چوری، ڈکیتی،خود کشی ،خود کش حملے جیسے رجحانات اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ عنان۔۔ حکومت غیر سنجیدہ لوگوں کے ہاتھ میں ہے ۔اب ایک غریب کے پاس جو راستے بچے ہیں ان میں سے اول یہ کہ بے غیرت بن کر جئے ،چند سکوں کے لیے تذلیل برداشت کرتا رہے ،امید پر زندہ رہے ،دن گزر ہی جاتا ہے ،اس تذلیل کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرے ،پانچ سال بعد ووٹ دے ،اس کے ساتھ کوئی ظلم ہو جائے تو خاموشی سے پی جائے ،اندر ہی اندر کڑھتا رہے ،سسک سسک کر جیتا رہے ، پاکستان میں غربا کی اکثریت ایسے ہی جی رہی ہے ۔دوم اس نظام سے بغاوت کرے بندوق اٹھائے ،ڈاکے ڈالے اگر کسی صاحب اقتدار کا سایہ مل گیا تو زندگی آرام سے بسر ہو جائے گی نہیں تو کسی تاریک راہ میں مارا جائے گا ،ایسا بہت کم افراد کرتے ہیں ۔تیسرا راستہ خود کشی ہے ۔چوتھا خود کش حملہ آور بننا ۔یہ ر ا ستے آسان ہیں ۔مشکل تو زندہ رہنا ہے ۔مرنا تو بہت آسان ہے ۔پانچواں راستہ جھوٹ بے ایمانی ،دھوکہ دہی سے حالات کو بدلنا ہے ۔آخرت کے خوف سے کچھ یہ بھی نہیں کر سکتے ایسے میں میرے جیسے بزدل جائیں تو جائیں کہاں ؟

Readers Comments (0)




WordPress主题

Weboy