زبان کارَس

Published on May 6, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 323)      No Comments

Mazhar
ایک زبان درازشخص کامارے بھوک سے براحال تھا۔کئی دَرکھٹکٹانے کے بعد بالآخر اُسے ایک گھرسے مٹھی بھرکچے چاول مل گئے لیکن مئلہ یہ آن پڑا اِن چاولوں کو پکائے کون ؟۔کافی تگ ودَوکے بعدایک بڑھیااُس کے چاول پکانے کوتیار ہوگئی ۔جب بڑھیانے چاول چولہے پرچڑھائے تواُس شخص نے بڑھیاسے پوچھاکہ اِس بڑھاپے میں اُس کاذریعہ معاش کیاہے اورگزربسر کیسے ہوتی ہے ۔بڑھیانے جواب دیاکہ اُس کاایک ہی جوان بیٹاہے جومحنت مزدوری کرکے اتناکما لاتاہے کہ زندگی آرام سے گزررہی ہے ۔اُس زبان درازنے بڑھیاسے سوال کیا ’’اماں !اگرتمہارا بیٹامَرجائے توپھر تمہاراکیا بنے گا؟‘‘۔بڑھیا غصّے میںآ کربولی ’’ اپنی جھولی پھیلاؤ‘‘ اُس شخص نے اپنی جھولی پھیلائی تو بڑھیانے اُبلتے چاول اُس کی جھولی میں اُنڈیل کرکہا ’’اب یہاں سے دفع ہوجاؤ ‘‘۔ گاؤں کی گلی سے گزرتے ہوئے اُبلے چاولوں کا پانی اُس زبان درازکی جھولی سے ٹپک رہاتھا ۔لوگوں نے پوچھاکہ اُس کی جھولی سے کیاٹپک رہاہے؟۔ اُس نے جواب دیا’’زبان کارَس‘‘۔
محترم الطاف حسین کی تقریرنے بحرسیاست میں ایسا ارتعاش پیداکیاکہ ہرطرف ہلچل سی مچی ہوئی ہے ۔غیرپارلیمانی زبان اورالزام تراشی تواب ہماری سیاست کاجزوِلاینفک ،جس کے جومُنہ میںآتا ہے ،بولتا چلاجاتا ہے لیکن الطاف حسین نے توہر ’’حَد‘‘ پھلانگ دی ۔فوج کا ردِعمل مناسب اوربَروقت ، ISPRکے میجرجنرل عاصم باجوہ صاحب نے اِس خطاب کو بیہودہ قراردیا ۔اُن کے ٹویٹ کے بعداب ہرکوئی’’ حصّہ بقدرِجثہ‘‘ ڈال رہاہے اورکچھ توجثے سے بھی زیادہ ۔بلوچستان اسمبلی کی مذمتی قرارداد پاس ہوچکی ۔سندھ اورپنجاب کی اسمبلیوں میں بھی ایسی ہی قراردادیں لانے کاشور اورسینٹ و قومی اسمبلی میں بھی اسی کی بازگشت ۔الطاف حسین صاحب نے معافی مانگ لی اورایم کیوایم والے وضاحتیں پیش کر کرکے تھک چکے لیکن سیاست دانوں میں خونِ گرم کی لہریں ابھی تازہ دَم ۔سب سے معتدل اورمتوازن ردِعمل قائدِایوان اورقائدِحزبِ اختلاف کا ۔محترم وزیرِاعظم نے فرمایا ’’معافی مانگناایک اچھااقدام ہے‘‘اور سیدخورشیدشاہ نے کہا’’جب معافی مانگ لی گئی توپھر معاملہ ختم ہوجانا چاہیے ‘‘۔ لیکن کچھ لوگ ایم کیوایم سے گِن گِن کے بدلے لینے کے درپے ۔سوال یہ کہ اگرواقعی ایم کیوایم ایک دہشت گردجماعت ہے ، ٹارگٹ کلرزاور بھتہ خوراُس کی پناہ میں ہیں ،اُس کے اپنے نو گوایریاز اورعقوبت خانے ہیں،اسے بھارت سے فنڈنگ ہوتی ہے اوراُس کے کارکن’’ را‘‘ سے تربیت حاصل کرتے ہیں توپھر اِس جماعت پرپابندی چہ معنی دارد؟۔اُس کے ساتھ تو وہی سلوک ہوناچاہیے جوطالبان نامی دہشت گردوں کے ساتھ کیاجا رہاہے ۔لیکن اگریہ محض الطاف حسین کی لغو ،بیہودہ اوربے بنیاد تقریرکا ردِعمل ہے توپھر
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں
اگرایم کیوایم کوقومی دھارے میں لانا مقصودہے توپھر اِس کاطریقِ کاریہ تونہیں ،جو نظر آرہاہے ۔حکمرانوں کو چاہیے کہ اکابرینِ ایم کیوایم کواُن کی سیاسی حدودوقیود سے آگاہ کریں اورپھر اِس پرسختی سے عمل درآمد بھی ہو۔اُنہیںیہ سمجھاناکچھ مشکل نہیں کہ محض اُن کے قائدکی تقریروں کا ردِعمل ہے جوگاہے بگاہے اُنہیں وقفِ مصیبت کرتارہتا ہے ۔ حضرت علیؓ کاقول ہے ’’زبان ایک ایسادرندہ ہے کہ اگر تُو اسے کھلاچھوڑدے تو عین ممکن ہے کہ تجھے ہی پھاڑکھائے‘‘۔الطاف حسین صاحب کی زبان کبھی بھی اُن کے قابومیں نہیں رہی ۔یہ آج کی بات نہیں،عشروں سے ایساہی ہوتاچلا آرہا ہے ،کبھی گھریلوسامان بیچ کراسلحہ خریدنے کاحکم ،کبھی کارکنوں کو فوجی ٹریننگ حاصل کرنے کی ہدایت ،کبھی ’’چھڑی اوربِلے‘‘پر طنزاور کبھی یہ کہ ’’دیکھتے ہیں دریائے سندھ کاپانی کس کے لہوسے سرخ ہوتاہے‘‘۔ یہ الطاف حسین صاحب کی زبان کارَس ہی ہے جوایم کیوایم کووقفِ مصیبت اورگرفتارِبلاکرتارہتاہے۔ شیخ سعدی کہتے ہیں’’وہ شخص جس کی زبان کَٹی ہوئی ہو،اُس شخص سے بدرجہابہتر ہے جس کی زبان قابومیں نہ ہو‘‘۔ لیکن حقیقت تویہی ہے کہ اعضائے جسمانی میں سے سب سے زیادہ نافرمان زبان ہی توہے اورالطاف حسین صاحب کی زبان کچھ زیادہ ہی نافرمان ۔ہم نے توانہی کالموں میں کئی باردست بستہ استدعاکی کہ
اتنا نہ اپنی جائے سے باہر نکل کے چل
دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ ، سنبھل کے چل
لیکن نقارخانے میں تُوتی کی آوازبھلاکون سنتاہے اورالطاف حسین صاحب تو ویسے بھی ’’مَن موجی‘‘قسم کے انسان ہیں ۔وہ اپنے کارکنوں سے گھنٹوں بلکہ پہروں کبھی ویڈیواور کبھی آڈیولنک پر خطاب کرتے رہتے ہیں اور خودسامعین کوبھی پتہ نہیں ہوتا کہ اُنہوں نے کب ، کیاکہہ گزرناہے ۔یہ اُن کی ذہنی رَو کاشاخسانہ ہے کہ وہ کبھی تلاوت کرتے کرتے لہک لہک کرگانا ،گاناشروع کردیتے ہیں اور کبھی گاناگاتے گاتے تلاوت۔یقین ہے کہ اُن کاہرخطاب الیکٹرانک میڈیاکے لیے بھی ہمیشہ ’’باعثِ آزار‘‘ ہوتاہے لیکن میڈیامجبوراور بے بس کہ اگر ’’الطاف بھائی‘‘کا براہِ راست خطاب نہ دکھایاگیا توکراچی میں رہنامشکل بلکہ انجام ولی خاں بابر جیسا۔اِس ’’میڈیائی بے بسی‘‘کا اعلاج صرف حکمرانوں کے پاس لیکن وہ بھی خاموش اور ’’ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم‘‘کی عملی تصویر۔پیپلزپارٹی کوسب پتہ لیکن سیاسی مصلحتیں دامن گیر ،نوازلیگ بھی خوب آگاہ مگر فی الحال خاموش۔ پیمرا محض عضوِمعطل ،اگرفعال ہوتاتو میڈیاچاہے جتنابھی آزاداور بے باک ہواپنی حدودوقیود سے باہر نکل کر ایسے بیہودہ خطابات کی لائیو نشریات سے گریزہی کرتا۔ حل توبہت آسان کہ کسی بھی رہنماء کابیان براہِ راست نشرنہ کیاجائے اورآڈیو،ویڈیو خطاب پرمکمل پابندی ۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہماراپیمرامکمل طورپر فعال اورسیاسی آلائشوں سے پاک ہولیکن یہاں تو صورتِ حال یہ ہے کہ پیمرانامی ادارہ صرف تنخواہوں اور مراعات کے حصول کے لیے قائم کیاگیاہے۔ عوام کی رگوں سے کشیدکیے گئے خون پرپلنے والے اِس ادارے کی فعالیت پہلے کبھی نظرآئی ،نہ اب آنے کی توقع ۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Premium WordPress Themes