پاکستان ترقی کی شاہراہ پر

Published on May 14, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 407)      No Comments

Mazhar
ماؤزے تنگ نے کہا’’سو طرح کے پھولوں کو بہاردکھانے دو ،سو طرح کے افکارکو مقابلہ کرنے دو ۔خوشبووہی حاوی ہوگی جوبہتر ہے ،رنگ وہی غالب آئے گاجو حقیقی ہوگا‘‘۔روشنی زمان ومکاں کی پابند ہوتی ہے نہ خوشبواِس لیے یہ طے کہ سچ کی خوشبوپھیلے گی اورعدل کی روشنی بھی ۔شگفتِ بہارکی ترسی ہوئی قوم اِس انتظارمیں کہ’’ میزانِ عدل‘‘ کس کوکھراقرار دیتی ہے اورکسے کھوٹا، کس کاوجود بادِنسیم کے جھونکوں سے معطرہوتا ہے اورکون بادِسموم کے ہاتھوں راندۂ درگاہ ۔ جوڈیشل کمیشن کی تیزی اورتیز رفتاری کو مدِنظر رکھتے ہوئے یقین ہوچلا کہ دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہونے کوہے ۔ہم تویہی سمجھتے ہیں کہ قوم نے نوازلیگ کوہی اپنے مینڈیٹ سے نوازا لیکن اگراعلیٰ ترین عدالت کافیصلہ کچھ اورہوگا توبدبخت ترین ہوگاوہ شخص جونوازلیگ کی حمایت میں اپناقلم آلودہ کرے گا۔حیرت مگریہ کہ جابجا عدالتیں سج چکیں،الیکٹرانک میڈیاکے اینکرزججز کے فرائض سنبھال چکے اوربلائے جانے والے مہمان’’ مَن بھاتی‘‘ تشریحات میں مصروف،حالانکہ جب معاملہ عدالت میں ہوتاہے توفیصلہ آنے تک اُس پربحث نہیں کی جاسکتی لیکن ہماراالیکٹرانک میڈیاتو ماشااللہ کچھ زیادہ ہی آزاد وبے باک اورپیمرا خوابِ خرگوش کے مزے لوٹتی ہوئی۔عدالتیں بھی اِس ’’میڈیائی احتساب‘‘سے نالاں اور تنبیہ کرتی ہوئی لیکن کسی پرپرکاہ برابر بھی اثرنہیں۔جب نوازلیگ اورتحریکِ انصاف، دونوں جوڈیشل کمیشن پرمتفق توپھریہ ’’شاہراہی عدالتیں‘‘کیوں؟۔ اگرفیصلے سڑکوںیا نیوزچینلز پرہی ہونے ہیں تو پھرعدالتی نظام ٹھپ کردیں۔درست کہا وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد نے کہ ’’ججزاُن کوشٹ اپ کال کیوں نہیں دیتے‘‘۔
خاں صاحب کی عدالت توہر روزکسی نہ کسی جگہ سجتی ہے ۔اُنہوں نے چارروز پہلے نادراآفس کے سامنے کچھ کاغذات لہراتے ہوئے فرمایاکہ ’’یہ نادراکی پری سکین رپورٹ ہے‘‘۔پھرصحافیوں کے سامنے اُس رپورٹ کے مندرجات کے بارے میں جوکچھ کہا نادرا کی رپورٹ سامنے آنے پر سب جھوٹ ثابت ہوااورپتہ چلاکہ جوکچھ خاں صاحب فرمارہے تھے اُس کاتو پورے’’ افسانے ‘‘میں کہیں ذکرتک نہ تھا۔ پھربھی خاں صاحب کی پیشانی عرقِ ندامت سے تَرنہ ہوئی البتہ اُنہوں نے اُن 93ہزارووٹوں کوجعلی قراردے دیاجن کے بارے میں نادرانے لکھاکہ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق ممکن نہیں۔ اب خاں صاحب فرماتے ہیں کہ وہ ایک ایک شناختی کارڈکی خود پڑتال کریں گے کیونکہ اُنہوں نے 26 لاکھ روپیہ جمع کروایاہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نادرانے کہیں بھی نہیں لکھا کہ حلقہ 122 کے 93852 ووٹ جعلی تھے ۔نادرانے نہ صرف اِن ووٹوں کی تصدیق کی بلکہ یہ بھی بتایاکہ اِن ووٹرز کے شناختی کارڈاصلی تھے جوکہ اسی حلقے میں رجسٹرڈتھے اورہر ووٹرنے درست پولنگ سٹیشن پرووٹ ڈالا البتہ جن کاؤنٹرفائلز کااستعمال کیاگیا ،نادرا اُس کی تصدیق نہیں کر سکاکیونکہ اِن کاؤنٹرفائلز پر ثبت انگوٹھوں کے نشانات کامعیار ناقص تھاجس کی بناپر نادراکا نظام اِن ووٹوں کی تصدیق نہیں کر سکا۔ اب خاں صاحب نے شناختی کارڈزکی خودتصدیق کرنے کااعلان فرمادیا گویااُنہیں نادراپر بھی اعتماد نہیں۔اُنہوں نے تویہ بھی کہاکہ ’’نادراکے تصدیق شدہ 70 ہزاربیلٹ پیپرزمیں سے کم ازکم 15 ہزارجعلی ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر خاں صاحب کے مطابق حلقہ این اے-122 میں صرف 55 ہزاربیلٹ پیپرہی ’’اصلی‘‘ ہیں باقی سب جعلی اوریہ بھی کہ یہ تمام درست (55 ہزار)ووٹ صرف اورصرف خاں صاحب ہی کے بیلٹ بکس کی زینت بنے اورباقی سب اُمیدواروں کوصفر ووٹ ملے۔ توپھراِس حساب سے تو خاں صاحب کے حاصل کردہ 84 ہزار ووٹوں میں 26 ہزار جعلی قرارپاتے ہیں۔کیا خاں صاحب قوم کویہ بتانا پسندکریں گے کہ اُنہوں نے یہ ’’جعلسازی‘‘ کیسے اورکس کے ذریعے سے کی؟۔اگرخاں صاحب نے دھاندلی نہیں کی توپھر 26 ہزار جعلی ووٹ کیافرشتے ڈال گئے ؟۔حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اُس مقناطیسی سیاہی کاشاخسانہ ہے جو پی سی ایس آئی آرنے الیکشن کمیشن کومہیاکی ۔2013ء کے الیکشن کے بعد پارلیمنٹ کے ابتدائی اجلاسوں میں ہی وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے یہ واضح کردیاتھا کہ اگرکسی بھی انتخابی حلقے کے ووٹوں کے انگوٹھوں کے نشانات کی نادراسے تصدیق کروائی جائے تووہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ہرحلقے میں پچاس سے ساٹھ ہزارانگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق نہیں ہوسکتی جس کی ایک وجہ توانتخابی عملے کی نااہلی اوردوسری ناقص مقناطیسی سیاہی کا استعمال ہے ۔
محترم خاں صاحب کادعویٰ تھا کہ اُردوبازارسے جعلی بیلٹ پیپرچھپوائے گئے جبکہ نادرارپورٹ کے مطابق تمام بیلٹ پیپرالیکشن کمیشن کے مہیاکردہ ہیں اور کوئی ایک بیلٹ پیپربھی جعلی نہیں نکلا ۔نادرارپورٹ کے مطابق لگ بھگ 7100 بیلٹ پیپرزایسے ہیں جو بدانتظامی ،انتخابی عملے کی نااہلی یاکسی اوروجہ سے منسوخ کیے جاسکتے ہیں ۔اگریہ سارے ووٹ محترم ایازصادق کے کھاتے سے نکال بھی دیئے جائیں توپھر بھی جیت ایازصادق کی ہی ہوتی ہے ۔اِس کے باوجود شنیدہے کہ اب ’’آزادی کنٹینر‘‘لاہورکی سڑکوں پر رواں دواں ہوگا۔ سمجھ سے بالاتر کہ آخرمحترم عمران خاں چاہتے کیاہیں ۔کیاوزارتِ عظمیٰ کے حصول کی خاطروہ ملکی سا لمیت ہی داؤپر لگادیں گے ؟۔جب اُن کی ضدپر جوڈیشل کمیشن تشکیل پا چکا تواب فیصلے کاانتظار کیوں نہیں کیاجاتا ۔کیاجوڈیشل کمیشن پراعتبارنہیںیا مقصدکچھ اورہے؟۔ ویسے تحریکِ انصاف پنجاب کے صدر اعجازچودھری ایک ٹاک شو میں دل کی بات زبان پرلے آئے ۔اُنہوں نے کہا’’موجودہ دورِحکومت میں چینی صدرکا دورہ مستقبل کے سہانے خوابوں کے علاوہ کچھ نہیں‘‘۔ حقیقت یہی ہے کہ تحریکِ انصاف چینی صدرکا دورہ اور46 ارب ڈالرزکے منصوبوں کو ہضم نہیں کر پارہی کیونکہ اگریہ منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچ گئے توتحریکِ انصاف کامستقبل تاریک ہوجائے گااور وہ خوابوں ،خیالوں میں بھی اقتدارکے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکے گی ۔ شایدیہی وجہ ہے کہ تحریکِ انصاف نے ایک دفعہ پھرسڑکوں پر نکلنے کافیصلہ کیاہے ۔
یہ خبربھی تحریکِ انصاف کے لیے کسی تازیانے سے کم نہیں کہ جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم کردہ تین رکنی بنچ نے حلقہ 125 میں الیکشن ٹربیونل کافیصلہ معطل کرکے خواجہ سعدرفیق کی قومی اسمبلی کی نشست کوبحال کردیاہے اورپی پی 155 کی صوبائی نشست بھی بحال کردی گئی ہے ۔غیرجانبدار تجزیہ نگاروں کا یہی خیال تھاکہ اگرالیکشن ٹربیونل کافیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیاتو فیصلہ نوازلیگ کے حق میں ہی آئے گا۔شاید اسی خبرنے خاں صاحب کی تلملاہٹ میں اضافہ کردیا ہے اوریوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ
خواہش تو ہے کہ دِل کو سکوں آشنا کریں
کم ہوں نہ شورشیں ہی تو کیا کریں
اورہم بھی تحریکِ انصاف کے لیے دعاگو ہیں کہ
آئے نہ پھر بہار اُڑانے تیرا مذاق
اے برگِ زرد آ تیرے حق میں دعا کریں

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Themes