زبان ہماری پہچان۔

Published on September 9, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 628)      1 Comment

amirتحر یر ۔۔۔ ا میر ا نساء
۔ 1867 میں جب اردو ہندی تنازعہ چلا تو ہندو رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی کو یکسر ختم کر دیاجائے اور اس کی جگہ ہندی کو بطور سرکاری زبان رائج کیا جائے ۔ہندوؤں نے برطانوی بل بوتے پر پہلا حملہ ہی اردو زبان پر کیا اورایک شعوری تحریک شروع کی جس کے تحت اردو زبان سے اسلامی اور مسلمان لفظیات کو نکال کر اس میں زبردستی سنسکرت ا لفاظ شامل کرکے ہندی کے نام سے ایک نئی زبان بنا لی گئی اور یہ کہا گیا کہ اردو قرآن کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اسکی جگہ ہندی یا دیونا گری رسم الخط جاری کیا جائے ۔سر سید احمد خان نے حالات اور حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے وا شگاف الفاظ میں کہا تھا۔۔۔’’ اگرہندوؤں کی تنگ نظری اور تعصب کا یہی عالم رہا تووہ دن دور نہیں جب ہندوستان ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا میں تقسیم ہو جائے گا ‘‘۔۔۔
جس اردو زبان کی وجہ سے بر صغیر پاک و ہند کو تقسیم کرنے کی با ت کی جانے لگی آج اُس اردو زبان کا ہم نے کیا حال کر دیا ہے ہم نے اس میں دوسری زبانوں کے الفاظ بھی شامل کر دیے ہیں جیسے کہ ’’ وقت ‘‘ کی جگہ ’’ ٹائم ‘‘ ۔’’ مصروف‘‘ کی جگہ ’’بزی‘‘ اور اسی طرح اور بہت سے الفا ظ بلِا تکلف ہم نے اردو زبان کا حصہ بنا دیئے ہیں۔آج جب میں نے یہ خبر پڑھی کہ ۔۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت اُردو کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دے دیا۔‘‘
تو پڑھ کر خوشی بھی ہو ئی کے۔۔ چلو دیر آئے درست آئے۔اور حیرت بھی ہوئی کہ جس زبان کو رائج کرنے کے لیے ہمارے رہنماوں نے مظالم برداشت کیے ، جس زبان کو وقت کے ساتھ ساتھ نئی جد توں سے متعارف کروانا چاہیے تھا آج اسے نئے سرے سے رائج کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ جو زبان ہماری پہچان ہے جسے بولنے پر ہمیں فخر ہونا چاہیے آج اس زبان کو بولتے ہو ئے ہم خود کو کمتر سمجھتے ہیں ۔ اگرہمارا بچہ کسی سے اردو میں بات کر رہا ہو تو اپنے آپ کو پڑھے لکھے کہلوانے والے اسے باعث شرم تصور کرتے ہیں۔اور اگر یہی بچہ کسی سے انگلش میں بات کرتا ہو تو ماں باپ بھنویں سنوار سنوار کر فخریہ لہجے میں بتاتے پھرتے ہیں وہ دراصل ا نگلش سکول میں پڑھتا ہے نا ما شا اللہ فر فر انگریزی بولتا ہے ہاں اردو لکھنے اور بولنے میں تھوڑا کمزور ہے ۔کیا ہی عجب بات ہے کہ جس زبان کو ہمیں فروغ دینا چاہئے ہم اسے ہی اپناتے ہوئے جھجک محسوس کرتے ہیں ۔اسی طرزِ عمل سے نہ ہم گھر کے رہیں نہ گھاٹ کے۔میں انگر یز ی بولنے یا سیکھنے کے خلاف ہرگز نہیں ہوں مگر اس کو اولین ترجیح تو نہ دیں نہ انگر یزی سیکھنا ضروری ہے پر مجبو ری نہیں ۔۔ ہم اسے سیکھے تا کہ بین الاقوامی سطح پر اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکے، نہ کے اُن کے سامنے انگر یزی بول کر اپنے آپ کو ویل ایجو کیٹیڈ ظا ہر کریں جو اس کی a, b,c سے بھی واقف نہیں ۔آج کل ما ئیں بچوں کو دادا ،نانا کے پاس جانے سے صرف اس لیے روکتی ہیں کے دادا کے ساتھ اردو میں بات کرے گا تو انگلش کا لب و لہجہ خراب ہو جائے گااس بات کے پیشِ نظر کہ بچہ کی تربیت ہو یا وہ کو سبق آموز باتیں سیکھ سکے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم سونے سے پہلے روزانہ دادی امی سے کہانی سنا کرتے تھے جس کا انجام کوئی اخلاقی بات ہوا کرتی تھی کے دیکھا کہانی میں اس نے جھوٹ بولا تو اس کو کسی سزا ملی یا اگر کوئی دھوکا دے تو کیا انجام ہوتا ہے ، وہ تربیتی باتیں ابھی بھی ذہین پر نقش ہیں کہ جھوٹ نہیں بولنا ،بڑوں کی عزت کرنی ہے ،چھوٹے سے پیار ،حق نہیں مارنا کسی کا وغیرہ وغیرہ۔کہانی کہانی میں بچے کو اچھی تر بیت دی جاتی تاکہ وہ معاشرے کا مہذب شہری بن سکے۔ آجکل ماں باپ اپنی اپنی ملازمت میں مصروف ہیں بچے سارہ دن day care میں گزارتے ہیں ماوٗں کے پاس اپنی اولاد کے لیے وقت نہیں باپ بھی مصروف تو بچوں کی تر بیت کون کرے گا کون پھر سے شیح عبدالقادر جیلانی بنے ،کون اقبال اور قائد بنے؟؟؟؟؟ یہ لمحہِ فکریہ ہے کہ ہم کس سمت چل رہے ہیں ہمارے کل کے معمار کیسی تر بیت پا رہے ہیں ۔۔ہم نے استینڈرز کے نام پر اپنی طرزِ زندگی ہی بدل ڈالی۔ہمارا تو وہی حال ہوا ’’ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘‘ انٹر نیٹ ،میڈیا ٹی وی پہل نے پہلے ہم سے کتاب چھینی اور پھر ہماری زبان ۔۔۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اگر کسی قوم کو پستی میں دھکیلنا ہو تو اس سے اس کی زبان چھین لو ۔۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور نتیجہ آپ کے سا منے ہے ۔
خدارا اپنی زبان کی قدر کریں اس کو فروغ دیں اس کے لیے کوشاں رہیں ہمارے ملک میں ابھی بھی کچھ لوگ ہیں جوالیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اپنی زبان کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں جیسے یو نیو رسل اردو پوائنٹ، قلم اردو ویب سائٹ اور ا نجمنِ اردو جو خالص اردو زبان کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہمیں بھی اپنا فرض نبھانا چاہیے ۔ کوکب اقبال اور محمود اختر نقوی کی دی جانے والی درخواستوں پر جو 12 سال پہلے دائر کی گئی تھیں 26 اگست 2015کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپر یم کو رٹ آف ماکستان نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور آج اسے بطور دفتری زبان رائج کرنے کا حکم جاری کر دیا۔دعا ہے کہ اس فیصلے پر جلد عمل درآمد بھی کروایا جائے نہ کہ ا سے صرف کا غذات میں ہی محفوظ رکھا جائے اور ملک میں اس کی دور دور تک کوئی جھلک دکھائی نہ دے۔۔۔۔

Readers Comments (1)
  1. Babar Satti says:

    bhot khob keep it up Allah ap ko is field mein kamyabi dy. Ameen





Weboy

WordPress主题