موت کا ایک دن متعین

Published on January 6, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 453)      No Comments

Ch Nasir
آیت قرآنی ہے ،، کل نفس ذائقہ الموت،،جس کا مطلب ہے کہ ہر چیز موت کا ذائقہ چکھے گی یہ نظام قدرت ہے کہ جو چیز پیدا ہوئی اُسے فنا ہونا ہے باقی رہے گی تو بس اللہ رب العزت کی ذات اقدس۔ لیکن آج کا انسان اِس غلط فہمی میں مبتلاہے کہ وہ لافانی ہے دنیاکے دھوکے فریب اور رنگیوں میں ایسا مگن ہے کی اُسے یہ ہو ش ہے نہیں کہ مرنے کے بعد اُس عالی مرتبہ اور جاہ وجلال والے مالک کے سامنے پیش ہونا ہے جو اگر رحمن اور رحیم ہے تواُسی کا نا م قھار بھی ہے وہ ایک ایسا منصف ہے جس کے سامنے بادشاہ وفقیر،اعلیٰ وادنیٰ،امیروغریب، گورا اور کالا سب برابر ہیں مرنے کے بعد انسان کے ساتھ صرف اُس کے اعمال جاتے ہیں جس نے نیک اعمال کیے اور لوگوں سے حسن سلوک کا برتاؤ کیا اُس کیلئے رب العزت کی طرف سے انعامات مقرر ہیں اور جس کے اعمال بَدہوں گے اُس کے لئے دہکتی ہوئی آگ ہے جب ہم لوگوں سے سورج کی تپش برداشت نہیں ہوتی تو جہنم کی آگ کیسے برداشت ہوگی۔موت کو بھول کر آج انسان زندگی کی آسائشوں اور راحتوں کے حصول کے لئے ہر نا جائز طریقہ اپنا رہا ہے ایک مزدور سے لے کروزیراعظم اور صدر تک قریباً ہر شخص مال کمانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا فرق صرف اِتنا ہے کہ جس کا جتنا اختیار ہے وہ اُتنا ہے لمبا ہاتھ مارتا ہے ایک عام آدمی بھی اُس وقت تک ہی شریف شہری رہتا ہے جب تک اُسے موقع نہیں ملتا اگر ایک عام آدمی کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جا ئے تو وہ بھی کرپشن کرے گا ہوسکتا ہے کہ وہ اربوں ، کروڑوں کی بجائے لاکھوں پر اکتفا کرے کیونکہ اُس کی سوچ و ہیں تک محدودہے پاکستان میں جتنے حکمران آئے قربیاً سب نے اپنے اپنے دور میں کرپشن کی تمام سابقہ حدیں عبور کیں کبھی ٗ ٗ قرض اُتارو،ملک سنوارو‘‘کے نا م پرعوامی دولت لوٹی تو کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘کے ذریعے ،کبھی موٹروے اور کبھی رنیٹل پاور کی صورت میں اقریاکو خوش کیا گیا لیکن کسی کا احتساب نہ کیاگیا ہرروزکرپشن کی ایسی تاریخ رقم کی جارہی ہے کہ الحفیظ الامان ۔ وکلا گردی کی بیشتر مثالیں منظر عام پر آئیں لیکن انصاف کے دعویدار خاموش رہے۔ جعلی ڈگریوں کی تصدیق ہوئی لیکن کوئی پابند سلاسل نہ ہوا ماسوائے چند ایک کے تعلیم کے ایسے وزیر آتے رہے جہنیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ قرآن پاک کے پاک کے کل کتنے سپارے ہیں اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا وزیر داخلہ بھی تھا جسے سورۃ اخلاص ہی نہیں آتی تھی ایسے وزیر صحت رہے جہنیں اِس شعبہ کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں تھا ایسے وزیر پانی وبجلی آئے جو انجینئرنگ کے کبھی پاس سے بھی نہیں گزرے ایسے وزیر تعلیم وتربیت رہے جن کی اپنی ڈگری سوالیہ نشان تھی ایسے مذہبی رہنماکی گرفت مضبوط رہی جو فرقہ واریت کو ہوادیتے ہیں ایسے بیوروکریٹس ہیں جو خود کو مطلق العنان سمجھتے ہیں ایسے پولیس افسران ہیں جو مجرموں کی پکڑنے کی بجائے اُن کا سہارا بنتے ہیں ایسے پٹواری ہیں جن کا دین ایمان پیسہ ہے ایسے ڈاکٹر ہیں جو چندروپوں کی خاطراپنے مقدس شعبے کو بدنام کررہے ہیں سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کے اِس نفساتی کے دور میں اساتذہ بھی کرپشن میں کسی سے کم نہیں جہاں قوم کے معمار بے ایمان اور بددیانت ہو ں جائیں وہاں قوم کا کیا حال ہوگا۔اِس سب صورتحال کی صرف ایک وجہ نظر آتی ہے کی ہم لوگ روز حشر کوبھول چکے ہیں ۔چند روپوں کی خاطر بے گناہ اور معصوم لوگوں کو دھماکوں سے اُڑایاجارہاہے اُن دھماکوں میں مرنے والوں کی چیخیں کسی کے کانوں تک نہیں پہنچتیں ہرکوئی بے حس چادر اوڑھ کر اپنی دھن میں مگن ہے اُس ماں کا درد کوئی نہیں سمجھ سکتا جس کی آنکھ کے تارے کے ٹکڑیبھی نہیں ملتے ۔فرعونیتااپنے انتہا کو پہنچ چکی ہے لیکن کہیں کوئی موسیٰ نظر نہیں آرہا۔ہمارے ملک پاکستان کسی معجزے سے کم نہیں جسے ہر کوئی کھارہاہے لیکن وہ پھر بھی ختم نہیں ہورہا ۔یہ قدرت خداوندی ہے کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیاگیا پوری دُنیا میں یہ واحد اسلامی ملک ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی لیکن دولت کے پجاریوں نے پوری دنیا میں اِس کا تشخص مجروح کردیا ہے کوئی زلزلہ،طوفان اور قدرتی آفت بھی ان لوگو ں کی آنکھیں کھولنے سے قاصر ہے کیا حیرت انگیزاور مضحکہ خیز بات ہے کی غریب عوام کی بھلائی کے دعوے دار وہ لوگ ہیں جو خود وڈیرے اور مالدار تاجر ہیں جہنوں نے کبھی غربت کا ایک دِن بھی نہیں دیکھا ہوتااور کتنی بے وقوف عوام ہے جو اُن کی چکنی چیڑی باتوں میں آجاتی ہے ۔میرا تمام ارباب اختیار سے سوال ہے کہ معصوم لوگوں پر ظلم و ستم کب ختم ہونگے ؟حوا کی بیٹیوں کی عزت کب اختیار ہوگی؟ لوگو ں کو انصاف کب ملے گا؟ کرپشن کب ختم ہوگی؟اقرباپروری اور سفارش کلچر سے جان کب چھوٹے گی؟ مجھے یقین ہے کہ اِس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہ ہو۔اگر معاشرہ میں یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب سسکتی آہوں اور ٹوٹے دِلوں کی پرسوز فریاد پر غضب الہٰی جوش میں آئے گا اور ہرچیز تہس نہس اور ملیامیٹ ہوجائے گی روزحشر جب رب کائنات کی عدالت میں عدل کیاجائے گا توکون ہے ایسا جو گناہ گاروں کوگرفت سے بچاسکے اُس دن ہم میں سے ہر ایک یہ سوچ رہا ہوگا کہ کاش مجھے زندگی دوبارہ مل جائے اور میں اعمال صالح لے کر رب العزت کے حضور میں حاضری دوں لیکن اُس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی کوئی دولت ،کوئی طاقت،کوئی تدبیر، کوئی مکاری،کوئی عیاری کچھ بھی کام نہ آئے گی دنیاوی زندگی جوکہ فانی ہے اُس میں زندگی ہے اُس کے بارے میں ذراتدبیر نہیں کرتے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ اُس ابدی زندگی کی تیاری کرلیں ورنہ بہت دیر ہوجائے گی کیونکہ ہر کسی کی موت کا ایک وقت مقرر ہے

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Premium WordPress Themes