فلسفہ حیات

Published on April 22, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 455)      No Comments

  Zakeerایک وقت تها جب میرے آس پاس رونق ہی رونق تهی مجهے نہیں پتہ کہ جو لوگ میرے ساتھ ہیں میں ان میں سے کتنے لوگوں کو جانتا ہوں مگر میں جہاں بهی جاتا ملنے والوں کی ایک لائن بن جاتی تهی مگر میری سوچ مجهے مجبور کرتی تهی کہ آخر یہ لوگ کون ہے جو میرے ساتھ ہیں کیا وجہ ہے جو یہ لوگ میرے ساتھ ہے مگر اتنا کچھ سوچنے کے باوجود بهی میری سوچ میں کچھ نہ آتا تها مگر ایک سوچ تهی جو مجهے اس بارے سوچنے پر مجبور کرتی تهی وقت کی سوئی چلتی رہی اور میرے ساتھ لوگ ملتے گئے اور یہ تو قدرت کا قانون بهی ہے کہ ہر انسان پر وقت ایک جیسا نہیں رہتا کبهی کبهی ہماری غلطیاں ہی ہمارے سامنے ہوتی ہے ایک وقت ایک عرصہ گزر گیا اور پهر میری زندگی میں بهی وہ وقت آ گیا جس کا میں نے سوچا بهی نہ تها میری کچھ غلطیوں کی وجہ سے وقت کی گهڑی میرے سے الگ ہونا شروع ہو گئی اور مجهے محسوس ہونا شروع ہو گیا کہ یہ وقت کی گهڑی کی سوئیاں روک گئی ہے میری زندگی میں وہ ٹائم بهی آ گیا ہے جو میں نے کبهی سوچا بهی نہیں تها زندگی میں ہر خوشی چاہے کوئی بهی ہو آخر بتا کر آتی ہے انسان کی زندگی میں آج جو بهی خوشی ہے وہ انسان کو پہلے ہی بتا کر آتی ہے پهر انسان اس خوشی کی آمد پر بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر لیتا ہے انسان ان خوشیوں میں اکثر اوقات تو اپنوں کو بهی بهول جاتا ہے مگر افسوس کہ یہ انسان کی بهول ہوتی ہے کہ خوشیاں ہمیشہ اس کے پاس رہنگی دوسرا طرف دیکها جائے تو پریشانی جو بهی ہو کوئی بهی ہو جیسی بهی ہو مگر کبهی بهی آپ کو بتا کر نہیں آتی ہمیشہ آپ کے سامنے آ کر لہراتی ہے جب آپ کے سر پر پریشانی لہراتی ہے تو پهر اچانک پریشانی دیکھ کر کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل بهی نہیں رہتے اور پریشانی کیا ہے پریشانی سے زیادہ آپ کو اپنے ہی بتا دیتے ہے کہ پریشانی کس چیز کا نام ہے ہمیشہ خوشیوں میں غیر بهی اپنے ہوتے ہے جیسا میرا ساتھ ہوا تها میری زندگی میں وہ لوگ بهی شامل تهے جن کو میں نہیں جانتا تها مگر وہ لوگ میرے ساتھ نہیں میری دولت میری خوشحال زندگی کے ساتھ تهے اور میں پاگل یہی سمجهتا رہے کہ یہ لوگ میرے ساتھ ہیں اور جب پریشانی آپ کے سر پر آپ کے گهر کی دہلیز پر آتی ہے تو ایسے لوگ جو آپ کی خوشیوں آپ کی خوشحالی پر آپ کے ساتھ تهے سب سے پہلے وہی لوگ پریشانی کے آنے پر آپ سے الگ ہوتے ہے اور پهر آپ کو اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس دنیا میں کون اپنا ہے اور کون پریا ہے۔ دکھ کی سلطنت کو جب بھی پیچھے مڑ کے دیکھا تو اس کےشھنشاہ کچھ اپنے ہی احباب نکلے۔ پھر تو سمجھ بھی نہیں آتی کہ شور کروں واویلہ کروں۔ کہ سر پیٹوں کچھ سمجھ نہیں آتی۔ خیر زندگی اسی چیز کا نام ہے کبھی دکھوں کی دہلیز پہ ٹکریں مارتی ہے اور کبھی سکھوں کے چونترے پہ بٹھا دیتی ہے۔معاشرہ بالعموم تو مل جل کر ایک دوسرے پر انحصار کرے زندگی گزارنے کا نام ہے لیکن اب کے تو معاشرے کی تعریف ہی بدلی پڑی ہے کہ جہاں دیکھوغیبت، حسد ، جلن،چاپلوسی،اور عجیب نفسا نفسی کا عالم ہے ہر بندہ دوسرے سے آگے بڑھنے کی ریس کے ساتھ ساتھ اس کی ٹانگیں کھینچ کے خود کو آگے لانے کی کوشش میں ہے۔ بحرحال بندے کو دنیا تما م دکھوں اور پریشانیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ ہر وقت خالق کل اللہ رب العزت کو یاد رکھنا چاہیے اور اس کا شکر ادا کر نا چاہیے۔ اور اسی پر توکل کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ خود ہی تو فرماتا ہے کہ اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ عطا کروں اور جو بندہ بھی مجھ پر توکل کرتا ہے تو میں اس کے لیے کافی ہوں۔ ہمیں ہر حال میں شکرو توکل کا معاشرہ ترتیب دینا چاہیے چاہیے تاکہ غم ِ جاناں اور غمِ دنیا اور غمِ معاش کے وبال سے بچا جا سکے ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Weboy