صبح بے نور کو میں نہیں مانتا

Published on May 18, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 472)      No Comments

Sultan
ظلم کے اس دستورکومیں نہیں مانتا یہ خوبصورت الفاظ ہمارے ہر دلعزیز قابل صد احترام جناب خادم اعلیٰ پنجاب کم و بیش ہر تقریر میں جذباتی انداز میں سناتے ہیں مگر یہاں پر ایک بات قابل غور ہے شاید وہ بڑے کرب سے اپنے دل کے ارمانوں کو زبان پر لاتے ہوں گے جن کا حقیقت سے کم تعلق ہے موجودہ دور میں چونکہ پرویپگنڈے پر حد سے ذیادہ انحصار کیا جاتا ہے اسی چیز کو مد نظر رکھ کر مشیروں نے خادم اعلیٰ کو یہ پٹی پڑھا دی ہے رات میری ملاقات ایک ایسے خاندان سے ہوئی جو کئی دن تک لاہور کے ہسپتالوں میں زلیل وخوار ہو کر واپس اپنے گھر آئے بیٹھے تھے ان کی داستان سن کر ہر ذی روح کی آنکھوں سے آنسو ضرور ٹپک پڑیں گے ،بہترین سہولیات کے بلندو باغ دعوے کرنیوالوں نے پچھلے کئی سالوں سے کوئی ایسا جامع منصوبہ تشکیل نہیں دیا ہے جس سے جنوبی پنجاب تو دور کی بات بالائی پنجاب والوں کو اپنے علاقے میں صحت کی اچھی سیولتیں میسر ہوں لاہور کے موجودہ ہسپتال لاہوریوں کیلئے ہی ناکافی ہیں صوبے کی باقی عوام کو سوائے لولی پاپ کے کچھ نہیں دیا ہے پنجاب پر سب سے زیادہ حکمرانی بھی بد قسمتی سے آپ ہی کی رہی ہے مگر آج بھی میو ہسپتال میں مختلف وارڈز میں مریضوں کو فرش پر لٹا کر طبی امداد دی جاتی ہے مائی !ڈیئر خادم اعلیٰ صاحب کدھر گئیں آپکی صحت کے حوالے سے کاوشیں قوم آپ سے سوال پوچھتی کوئی قتل ہوجائے ذیادتی کے بعد یا کسی کی عزت نوچ لی جائے آپ فوراداد رسی کیلئے جائیں اچھا اقدام ہے مگر اس کے بعد انصاف فراہم کرنا کیا ’’انڈیاء کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری ہے‘‘تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں اگر آپ نے کسی کو انصاف دلایا ہے تو میڈیاء پر آکر ناقدین کے منہ بند کردیں آپ کے ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی کے فقدان کو لفظ شرما کر لکھنے سے قاصر ہیں ’’اپنے علاج کیلئے آپ بیرون ملک چلے جاتے ہیں مگر غریب عوام یہا ں پر سسک سسک کر دم توڑ دیتے ہیں کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں ہے جو احتجاج نہ کر رہا ہو یہاں پر ایک بزرگ کسان نے بڑے پتے کی بات کہی اسے سن کر میرے تو رونگٹھے کھڑے ہو گئے ’’کیا خوب کہا جو وزیر اعلیٰ پچھلے پندرہ سالوں میں کسانوں کو گندم کیلئے باردانہ میرٹ پر فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا وہ باقی صوبے کو کیسے بہترکرے گا ہر طرف اقرباء پروری کا راج ہے مسلم لیگ(ن)والے ہی میرٹ کی دھجیاں اُڑاتے ہیں دھمکیاں دیتے ہیں کام نہ کرنیوالوں کو ۔میرے صوبے کی شان میاں شہباز شریف آپ پینے کے صاف پانی کے منصوبوں کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں غریب عوام کے ساتھ ہونے والے ظلم پر آپ آبدیدہ بھی ہو جاتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ بعض لمحے ہی ایسے ہوتے ہیں ضبط جواب دے جاتا ہے باقی صوبہ جائے بھاڑ میں ا
آپ صرف لاہور کو صاف پانی فراہم نہیں کر سکے جب لاہور میں سڑکوں کو بنانے کی منصو بہ بندی کرتے ہیں تو پتہ نہیں کون بیمار زہن کے لوگ وہ فزیبلٹی رپورٹس بناتے ہیں پہلے بنا دو پھر اُکھاڑ دو اپوزیشن کہتی ہے یہ ڈارامہ ہے کمیشن کیلئے ان کی بات میں صداقت ہے لاہور کی سڑکوں کا جیسے بیڑا غرق کیا گیا یہ بات ساری دنیا جانتی ہے مین ملتان روڈ کو بنے ابھی بمشکل چھ ماہ کا دورانیہ ہوا تھا آپ نے ادھیڑنے کا حکم صادر کر دیا اربو ں روپے خرچ ہوئے تھے جناب آپ کی جیب سے نہیں اس غریب قوم کی جیبوں سے نچوڑ کر نکالے جانیوالے روپوؤں کی قدر آپ کیا جانیں اگر اورنج لائن ٹرین بنا نی تھی میں اس بات کا مخالف نہیں ہوں مگر یہ بتا یا جائے ملتان روڈ پر پہلے اربوں روپے کیو ں ڈبو دیئے گئے ۔
آج ترقیاتی کاموں میں کمیشن مافیااتنا سرگرم ہے کہ ٹھیکدارکو اپنا چولہا جلانے کیلئے دونمبری کرنا پڑتی ہے میرے خادم اعلیٰ صاحب قوم اس ظلم کے دستور نہیں مانتی اس صبح بے نور کو نہیں مانتی آپ کے ہی دور آج بھی بچے بغیر چھت کے پڑھنے پر مجبور ہیں بیرون ملک میں 40 بچوں کیلئے ایک ٹیچر لازمی ہے مگر آپ کی سلطنت میں 120 بچوں کیلئے ایک استاد ضروری ہے وہ بھی ایسے کمرے میں بیٹھ کر پڑھانے پر مجبور ہو تا ہے جس کی مثال آپ ایسے سمج لیں جیسے اغواء کار مغویوں کو دھنسا کر رکھتے ہیں کمرے کی چھت ہے کوئی پنکھا نہیں نہ اس کا فرش ہے نہ کھڑکیاں نہ پینے کا ٹھنڈا پانی مزید بدقسمتی بچے نیچے فرش پر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں فرنیچر نام کی کوئی چیز نہیں ہے یہ سب ضلع قصور کی تحصیل کوٹرادھاکشن میں وقوع پذیر ہے ایسا ہی حال باقی ضلع کے سکولوں کا ہے جناب اس کے بعد مزے کی بات یہ ہے کہ ’’اسی تحصیل میں مسلم لیگ (ن)کے منہ بولے ایک رہنماء اپنے حلقے میں ایم پی اے اور ایم این اے کی طرف سے ملنے سات کروڑ کی گرانٹ اس تناسب سے لگا رہے ہیں کی ایک گلی میں اگر دس گھر ہیں تو اس میں سولنگ ایسے لگوایا جارہا ہے کہ پہلے تین گھروں نے ووٹ دیئے اس کے بعد اگلے دو گھروں نے نہیں دیے اس کے بعد اگلے تین گھروں نے دیے سو جنہوں نے ووٹ دیے ان کا سولنگ معہ نالی بنوا دیا باقی کو درمیان میں چھوڑ دیا ’’وجہ محبت یہ ہے کہ موصوف بلدیاتی الیکشن میں مالدار ہونے کے باوجو د ہار گئے تھے ،میری تحصیل کوٹ رادھاکشن میں سڑکوں کا حال ایسا ہے جیسے آپ کسی جنگ زدہ علاقے سے گزریں لوگ اپنے مریضوں کو ہسپتال جانے سے پہلے ہی اپنے ہاتھوں میں دم توڑتا دیکھتے ہیں ایک وضاحت دینا چاہوں گا مجھے اکثر مسلم لیگ(ن) والے یہ طعنہ مارتے ہیں کہ آپ زہنی طور پر ہی ہمارے خلاف ہیں مگر یہ بتا دوں کہ میں ووٹر سپورٹر بھی میاں صاحب کا ہوں مگر میرے علاقے میں ترقیاتی کاموں میں ایم پی اے پی پی 175 صاحب یہ کہتے ہیں کہ تیس گھروں والا محلے کا کام جینوئین نہیں ہے مگر اپنے چہیتوں کے گھروں میں چولہوں اور بھینسوں کے باڑوں تک سولنگ و نالی بنانا جینوئین ہے بات ہو رہی تھی زہنی طور پر خلاف ہونے کی تو جناب میں ایک حقیقت پسند پاکستانی بھی ہوں رائے ونڈ میں 70 لاکھ روپے والا پارک ایک سے ڈیڑ ھ لاکھ میں تیا ر ہو جاتا ہے باقی پیسے ہضم ہو جاتے ہیں ایسے تین پارک مزید بھی تیار ہو چکے ہیں ۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress主题