پانامہ لیکس کے معاملے پر سٹینڈ نہ لیتے تو معاملہ ختم ہوچکا ہوتا، عمران خان

Published on June 3, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 299)      No Comments

Imran
اسلام آباد: (یواین پی) تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ اگر ہماری پارٹی پانامہ لیکس کے معاملے پر سٹینڈ نہ لیتی تو یہ معاملہ ختم ہوچکا ہوتا اور بڑی پارٹیاں خاموش ہو چکی ہوتیں، وفاقی حکومت نے قومی خزانے سے اب تک 8 ارب روپے کے اشتہارات جاری کئے جو کہ قوم کے ساتھ زیادتی ہے، پہلی دفعہ ساری اپوزیشن پانامہ لیکس کے معاملے پرٹی او آرز پر متفق ہے اور اب جو بھی اس سے پیچھے ہٹا وہ مولانا فضل الرحمن بن جائے گا اور عوام اسے معاف نہیں کریں گے، متحدہ اپوزیشن کو اگر پی پی پی لیڈ کر رہی ہے تو اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل ایشو یہ ہے کہ عوام کی لوٹی گئی دولت کا حساب مانگا جائے۔ متحدہ اپوزیشن سے باہر نکلنے والا سیاسی طور پر تباہ ہو جائے گا، اگر موجودہ نظام کے تحت ہی الیکشن ہوئے تو ہم واضح اکثریت نہیں حاصل کر سکیں گے لیکن حکومت کو چیلنج ضرور دیں گے، اس سال کے اختتام پر عام انتخابات دیکھ رہا ہوں، پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا اپوزیشن کا کام نہیں بلکہ وزیر اعظم کا کام ہے، ہمارا وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آنا پسند ہی نہیں کرتا اور اگر آتا بھی ہے تو جھوٹ بولتا ہے، آئندہ الیکشن میں کے پی کے کی حکومت کی کارکردگی کو رول ماڈل کے طور پر پیش کریں گے، وزیر اعظم الزام نہیں لگاتا اگر کوئی جرم کرے تو اسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے، اداروں کو مضبوط کرنا ہے تو ان سے سیاسی مداخلت ختم کرنا ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ پر سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ عمران خان نے کہا کہ ہماری پارٹی نے پہلے دن سے ہی پانامہ لیکس پر اصولی مؤقف اختیار کیا اور ہم چاہتے ہیں کہ بیرون ملک بنائی گئی کمپنیوں میں دولت کیسے پہنچائی گئی، مگر اس کے جواب میں حکومت نے ہم پر الزام لگانا شروع کر دیئے، حالانکہ میں نے اپنے فلیٹ کی فروخت اور اس کی رقم پاکستان منتقلی کے ثبوت بھی فراہم کر دیئے ہیں۔ اس حوالے سے بھی ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے کہ اگر میں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو حکومت میرے خلاف ایکشن لے۔ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ وزیر اعظم الزامات لگائے وزیر اعظم کے پاس تو اختیار ہے کہ اگر اس کے پاس ثبوت ہیں تو وہ فوراً قانون کو حرکت میں لائے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خواجہ آصف جیسے لوگ سید خورشید شاہ کو سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ہم حالات خراب نہیں کرنا چاہتے مگر ہمارے پاس بہت ثبوت ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ یہ صریحاً بلیک میلنگ ہے، کیونکہ ثبوت کے باوجود کارروائی نہ کرنا اورحاتم طائی کی طرح بڑھکیں مار رہے ہیں کہ ہم جان بوجھ کر کارروائی نہیں کر رہے، ہم نے یہ بھی کہا کہ جوٹی او آرز حکومت کیلئے ہیں وہی ہمارے لئے ہوں گے۔ عمران خان نے کہا کہ عوام بہت باشعور ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم ہو چکا ہے، اسرائیل پر تنقید بھی سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر ہی ہوئی ہے۔حکومت اپنی بری گورننس کے تاثر کو چھپانے کیلئے قومی خزانے سے اشتہارات پہ اشتہارات دیئے جا رہے ہیں اور عوام اس کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ ٹی او آرز کے ایشو پر پوچھے گئے سوال پر عمران خان نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ متحدہ اپوزیشن کو پی پی ہی لیڈ کر رہی ہے یا کوئی دوسری جماعت کر رہی ہے، اصل معاملہ یہ ہے کہ پہلی بار متحدہ اپوزیشن نے متفقہ ٹی او آرز کے ذریعے ایک ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ وفاقی حکومت کو جواب دینا پڑیگا اور جو بھی متحدہ اپوزیشن سے نکلے گا وہ سیاسی تباہی کا شکار ہو جائے گا اور عوام اس کو مولانا فضل الرحمن ہی سمجھیں گے۔ آئندہ الیکشن کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ اگر موجودہ سسٹم کے تحت ہی آئندہ الیکشن ہوئے تو ہم واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائیں گے۔ کیونکہ مخالفین کو دھاندلی کے تمام طریقے پتہ ہیں، ہم نے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ بے ضابطگیاں ہوئیں اور عوام جان گئے کہ انہیں ڈیڑھ کروڑ ووٹ کیسے مل گئے، جبکہ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت کی کارکردگی بہت بہتر تھی، ہمیں آہستہ آہستہ اس سارے کھیل کی سمجھ آگئی ہے، جسٹس (ر)ریاض کیانی جیسے لوگوں نے ان کیلئے کام آسان کئے رکھا، عمران خان نے کہا کہ میاں برادران کے تمام منصوبے جھوٹ پر مبنی ہیں، یہ بڑے پراجیکٹ اس لئے شروع کر دیئے ہیں تاکہ زیادہ کمیشن حاصل کر سکیں۔عمران خان نے کہا کہ 2013ء کے الیکشن میں ہماری تیاری پوری نہیں تھی لیکن اب ہم تیار ہیں اور پہلے سے زیادہ بہتر نتائج آئیں گے۔2013ء کے الیکشن میں ہم نے نئے لوگوں کو ٹکٹ دیئے اور 80 فیصد یہ لوگ الیکشن ہار گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی کے اندرونی اختلافات کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے یہ ساری پارٹیوں میں ہوتے ہیں۔ اور پانامہ لیکس کے ذریعے اگر احتساب ہوگیا تو آئندہ الیکشن میں بہترین امیدوار ہمارے ساتھ ہوں گے، کیونکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کے خلاف عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف 1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے نئے لوگوں کو ٹکٹ دیئے اور ہم نے بڑے بڑے سیاسی برج الٹتے ہوئے دیکھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اس وقت ایوب خان کی بیماری اور مسلسل آمریت کی وجہ سے جو گھٹن تھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس وقت اس دور سے بھی زیادہ گھٹن ہے اور ہم جیتیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس سال کے اختتام پر عام انتخابات دیکھ رہا ہوں۔ عمران خان نے کہا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل تھی یا ہے ان کی مثال اس طرح ہے جیسے مجرم کو باقی لوگ بھی مجرم ہی نظر آتے ہیں، یہ الزام وہی لوگ لگاتے ہیں جو خود آمریت کی گود میں بیٹھ کر سیاستدان بنے، ہم نے ایک سال تک مسلسل مطالبہ کیا کہ 4 حلقے کھولے جائیں اور جب نہ کھولے گئے تو ہم نے سڑکوں پر آنے کا اعلان کیا اور اب بھی اگر ہمیں انصاف نہ ملا تو ہم سڑکوں پر آئیں گے، اگر ٹی او آرز پر ٹال مٹول کیا گیا اور ڈیڈ لاک رکھا گیا تو باقی پارٹیوں کا ہمیں علم نہیں، ہم ضرور سڑکوں پر آ جائیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ مجھے بہت دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے، اچھی خارجہ پالیسی کیلئے مستقل وزیر خارجہ کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت بھارت میں یہ تاثر دیتی ہے کہ نواز شریف دوستی چاہتے ہیں اور فوج ایسا نہیں چاہتی، ایسا کرنا قطعی طور پر غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بھارت اور افغانستان سے برابری کی سطح پر خارجہ پالیسی بنانا ہوگی۔ پاکستان کو استحکام دینے کیلئے پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات بہت ضروری ہیں اور پاکستان کو مضبوط کرنے کیلئے بھی ضروری ہے زیادہ پیسہ انسانوں پر خرچ کیا جائے۔ عمران خان نے کہا کہ اگرچہ صدارتی طرز حکومت بہترین نظام حکومت ہے مگر پاکستان میں چھوٹے صوبے اس کی شدید مخالفت کریں گے۔ عمران خان نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ شوکت خانم ہسپتال پر ہاتھ ڈالنے والے اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں ہیں۔ ان کی نیت بلیک میل کی ہے اور یہ مافیاز ہیں، ملک کی بہتری کیلئے آزاد احتساب اور بیورو کریسی کو ٹھیک کرنا بہت ضروری ہے سیاسی مداخلت کی وجہ سے پولیس نظام خراب ہوا ہے، کے پی کے میں آئی جی ناصر درانی نے 5 ہزار پولیس والوں کا احتساب کیا ہے، ہم نے کے پی کے میں بہترین تبدیلیاں کی ہیں اور مزید بھی کام کر رہے ہیں آئندہ الیکشن میں ہم کے پی کے کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے، اگر وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آنا ہی پسند نہیں کریں گے تو پھر ادارے کیسے مضبوط ہوں گے؟ ہمارے وزیر اعظم بہت مشکل سے ایوان میں آئے اور آ کر بھی جھوٹ بولا۔ انہوں نے کہا کہ حامد ناصر چٹھہ کے بیٹے کے مقابلے میں حکومتی امیدوار 2400 ووٹوں سے ہار چکا تھا انہوں نے رزلٹ روک کر ہمیں دھاندلی کے ذریعے 1600 ووٹوں سے ہرا دیا، لیکن پنجاب سمیت پورے ملک میں مستقبل ہمارا ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Themes