ارمان ِ دل

Published on June 8, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 844)      No Comments

Uzma-1
قسط نمبر16
رائٹر۔۔۔ عظمی صبا
یہ تم کیا باتیں کر رہے تھے ان نک چڑھیوں سے۔۔۔؟؟؟حیا یونیورسٹی کی ہال میں کرسی پر  اسے بیٹھا دیکھ کر فوراََ  اس کے پاس آ کر پوچھ رہی تھی۔
کن نک چڑھیوں سے؟؟؟وہ کتاب کو پڑھتا ہوا ایک آنکھ اٹھا کر اس پر گہری نظر ڈالتے ہوئے پوچھنے لگا۔
تم بہتر سمجھتے ہو۔۔۔کہ۔۔۔
میں کن کی بات کررہی ہوں۔۔۔وہ زچ ہو کر بولی۔
شاہ میر۔۔۔۔
تم نہیں جانتے کتنی آوارہ لڑکیاں ہیں یہ سب۔۔۔وہ ان لڑکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے سمجھا رہی تھی۔
تو اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟؟؟؟وہ شرارتی انداز میں تنگ کرنے لگا۔۔
What do you mean????
وہ چونکی۔
تم نے مجھے آوارہ کہا؟؟؟؟وہ چلائی۔
ارے ن۔۔نن۔۔نہیں۔۔۔۔۔!!وہ ہکلاتے ہوئے بولا۔
آہستہ۔۔۔!!وہ ادھر ادھر  دیکھ کر اسے کہنے لگا۔
میں نے ایسا کب کہا؟؟؟
واہ۔۔۔۔
تمہاری سہیلیوں کی اصلیت سے تمہیں آگاہ کر رہی ہوں اور  تم ہو کہ۔۔۔۔
مجھے ہی۔۔۔۔۔۔!!وہ غصہ سے منہ پھلاتے ہوئے وہاں سے جانے لگی۔
ارے۔۔۔۔رکو تو۔۔۔۔!!!
حیا۔۔۔۔۔۔حیا۔۔۔۔!!!وہ اس کے پیچھے جاتے ہوئے۔
پیچھے مت آؤ میرے۔۔۔!!وہ غصہ سے مڑی اور پھر لائبریری کی طرف چلی گئی۔
اوہ۔۔۔۔گاڈ۔۔۔۔۔!!وہ سر پر ہاتھ مارتے  ہوئے خود کو کوسنے لگاجبکہ ارد گرد تمام اسٹوڈنٹس  اس کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے کیونکہ پوری یونیورسٹی میں صرف حیا  ہی اس سے ایسے بات کرتی تھی  باقی سب تو اس پر مرتی تھیں۔
٭٭٭٭
کدھر گم ہو جناب؟؟؟
 دیر سے کیوں آئی ہو؟؟؟ وہ اس کے آفس  ر وم میں جاتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی۔
بس۔۔۔۔
 کا کام کرتی رہی ہوں یار۔۔۔۔۔۔!! رات کو پریزنٹیشن  
آنکھ دیر سے کھلی۔۔۔۔۔وہ تھکن کا اظہار کرتے ہوئے کمپیوٹر پر کام کر رہی تھی۔
ا م م م م۔۔۔۔۔!!!
ناشتہ کیا؟؟؟اس سے پوچھتے ہوئے اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔
 نہیں یار۔۔۔۔!!یو۔ایس۔بی کو لگاتے ہوئے وہ بولی۔
کیوں؟؟؟وجہ جانتے ہوئے۔
بس دل نہیں کیا ۔۔۔۔ماؤس کو ہاتھ میں لیئے ہوئے ۔
ارے کیوں؟؟؟
چھوڑو یہ کام۔۔۔۔
اٹھو کافی پیتے ہیں۔اسے زبردستی اٹھنے کےلئے کہتے ہوئے۔
یار۔۔۔۔۔!!!
دل نہیں چاہ رہا نا۔۔۔۔۔!!وہ منع کرتے ہوئے بولی۔
اٹھو۔۔۔!!وہ اونچی آواز میں بولی۔۔
انشراح۔۔۔۔!!!اس پر گہری نظر ڈالتے ہوئے بولی۔
او۔کے،او۔کے،،،!!جلدی سے کرسی پر سے اٹھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اب ضد کرکے وہ پورا روپ سر پر اٹھا لے گی۔۔۔۔!!!
 ۔۔۔۔!!!انشراح اس کو دیکھتے ہوئے فاتحانہ طور پر مسکرائی ۔
 ویسے میری ماما تو بریک فاسٹ   کے بغیر مجھے آنے ہی نہیں دیتیں۔
وہ خوش ہوتے ہوئے اس کو بتا رہی تھی۔۔۔۔!!
جبکہ مسکان مسکراتے ہوئے اس کی بات سن کر اس کی آنکھ بھر آئی ۔
کیا ہوا؟؟اس کو افسردہ اور آنکھوں میں نمی کو دیکھتے ہوئے۔
کچھ نہیں۔۔۔۔!!!
چلو۔۔۔۔!!!کافی پینے ۔۔۔!!بمشکل ہنستے ہوئے بات کو بدلنے لگی۔
ہاں۔۔۔!!جواباََ َ انشراح مسکرائی۔
کیسی ہیں مس مسکان؟؟؟وہ قدرے خوش دلی سے کہتے ہوئے مسکرایا۔
جی۔۔۔۔سر۔۔۔۔۔۔!!
اللہ کا شکر ہے !!!وہ ذرا کنفیوز ہوتے ہوئے بولی۔
آپ ٹھیک  تو ہیں نا؟؟؟اس کی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہوئے۔
جی۔۔۔۔!!!
وہ۔۔۔۔سر۔۔۔۔۔!!!بات کرتے کرتے بوکھلا سے گئی۔
جی۔۔جی۔۔۔کہیئے۔۔۔؟؟؟
سر۔۔۔
 اگر میری جگہ انشراح پریزنٹیشن دے دے۔۔۔۔تو۔۔۔۔!!
ارے۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔ وہ کاٹتے ہوئے اس کی بات کو اچانک چونکا۔
امپاسبل ۔۔۔مس مسکان۔۔۔
 لاسٹ تونٹی منٹس میں اس کو کیسے دے دوں؟؟؟  
اینی وے۔۔۔ریلیکس رہیئے پلیز۔۔۔۔!!سمجھانے والے انداز میں بات کرتے ہوئے مسکرایا۔
جی۔۔۔۔!!!اور وہ خاموشی سے کہتے ہوئے فوراَ َ  وہاں سے اٹھ گئی مگر پریشانی کے عالم میں ہی تھی۔دل اور دماغ دونوں اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
٭٭٭
Welcome to all of you….!!
Hope you will enjoy our environment,
Our product and services well…..
  ایز یو نو ہماری گارمنٹس نے پوری مارکیٹ کوکیپچر  کیا ہوا ہے اور ہوٹل کی سروسز   تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔۔۔۔ ہم ان سب کے ساتھ ساتھ ایک اور   
بہت ضروری ہے۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے کانفرنس روم میں بول  رہی تھی۔, پروجیکٹ شروع کر رہے ہیں ۔۔۔۔اس کے لئے آپ کی اٹینشن ،ٹرسٹ اور انوسٹمنٹ   
سکرین پر نئے ہاؤسنگ پلان کی سلائیڈز کو بریف کرنے لگی۔۔۔۔ابھی بات مکمل نہیں کر پائی تھی کہ اس کا دھیان جواد پر پڑا جو دھمکی آمیز نظروں سے اس کا تعاقب کیے جا رہا تھا۔وہ بار بار اسے اگنور کرنے لگی مگر اچانک اس کا غصہ والا چہرہ دیکھ کر بوکھلا گئی ۔حسن صاحب ،ارمان،شکیل اور انشراح سب اس کی حالت پر حیران تھے کیونکہ  پہلی پریزنٹیشن  میں کامیابی دکھائی اور اب کنفیوز ۔۔ انہیں یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی۔
مسکان۔۔۔!!انشراح آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے آہستہ سے اس کا نام لینے لگی۔۔۔مگر وہ سامنے کھڑی بمشکل ہی بول پائی۔
We are launching new cosmetics products along these plans
جواد پھر سے اسے اشارۃََ خاموش رہنے کا کہنے لگا۔۔۔
Sorry I can’t speak anymore
بوکھلاتے ہوئے وہ کرسی پر بیٹھتے ہی دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر سے نیچے رکھے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
اس کے ذہن میں صرف جواد کی باتیں ہی گردش کرنے لگیں اور قہقہے اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔۔۔
مسکان۔۔۔۔!!انشراح ارمان کی طرف دیکھ کر فوراَ َ اٹھی اور اس کے پاس آگئی۔۔۔!!!
کیا ہوا؟؟؟؟
مسکان۔۔۔!!!وہ اسے بار بار ہلانے لگی۔۔۔
میں نہیں کر پاؤں گی انشراح پلیز ۔۔اس کےاتنا کہنے سے سبھی کانفرنس  میں موجود لوگ اٹھ  کھڑے ہوئے۔
سوری حسن صاحب۔۔۔!!!
   کرنے آئے ہیں ۔۔۔ ٹائم ویسٹ کرنے نہیں   ہم یہاں   انویسٹ
اب کی بار ایسا مذاق ہو گا۔۔۔۔
ہمیں اندازہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔باری باری سب لوگ کانفرنس روم سے باہر چلے گئے اور جاتے ہوئے غصہ کا سخت اظہار کر کے گئےجبکہ مسکان ویسی کی ویسی میز پر سے اوندھے ہاتھوں کو سر پر رکھے ہوئے منہ کو چھپا کر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔جواد شاطرانہ مسکراہٹ دینے لگا۔۔۔
واہ ۔۔۔۔لڑکی ۔۔۔۔۔۔!واہ۔۔۔۔کیا عمدہ کام کیا تم نے۔۔۔دل ہی دل میں اسے سراہتے ہوئے مسکرایا۔جبکہ حسن صاحب اور ارمان فوراَ َ وہاں سے چلے گئےاور
  اور انہیں ایکسکیوز کرنے لگے۔۔۔کئی عذر پیش کئے اور اس کے بعد وہ لوگ راضی ہوئے کہ کل کی میٹنگ میں صرف ایم۔ڈی اور ڈائیریکٹر  کو بھیجیں گے۔۔۔!
وہ لوگ تو راضی ہو گئے مگر ارمان کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔۔۔۔۔یہ تو حسن صاحب نے معاملہ سنبھالا ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔
٭٭٭
جاری ہے
 

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Theme