منشیات

Published on November 29, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 326)      No Comments

\"Sultan-Nama\"
ملک عزیز پاکستان کے اندر منشیات کا استعمال اس قدر زیادہ ہوچکا ہے۔کہ تقریبا ہر شخص کسی نہ کسی طریقے سے اس کے استعمال میں مصروف ہے جبکہ ہم ایک نام کے اسلامی ملک میں رہتے ہیں لازمی طور پر ہم مسلمان ہیں مگر اس کے باوجود کہ ہمارے مذہب نے جو کہ انسانیت کو سیدھے رستے پر لگانے کے لیے اس دنیا پر اللہ تعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہے اس میں ہمیں نشہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ
ۂہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔اور قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے.اور تم نماز کے قریب نہ جاؤجب کہ تم نشہ کی حالت میں ہو۔ نشہ کی لت اتنی بری ہے کہ اس سے کئی گھرانے تباہ ہو چکے ہیں کئی گھرانوں کے اکلوتے چراغ جو کہ ما ں باپ بہنوں بھائیوں کی امیدوں کا واحد مرکز ہوتے تھے صرف اس لت کی وجہ سے بری طرح خود کو اور اپنے خاندان کو تباہ کر چکے ہیں نشہ کرنے والوں کو جب نشہ پورا کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ملے تو وہ چوری کرنے اور مرنے مارنے سے بھی باز نہیں آتے۔شہروں کے اندر جیسا کہ لاہور میں اکثر جگہوں پر فٹ پاتھوں پر کئی نشئی ملتے ہیں۔ہر نشئی اپنی ایک الگ کہانی رکھتا ہے کہ وہ اس حال کو کیسے پہنچا ہے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو زمانہ طالب علمی میں غلط صحبت یا پھر اس نامراد عشق میں ناکامی کی وجہ سے اس لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان میں اکثر کی تعداد امیر گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے اس نشہ کی وجہ سے وہ اپنے خاندان کو تباہ کرتے ہیں وہاں اپنا مستقبل بھی برباد کر لیتے ہیں اپنی پر تعیش زندگی کے اندر وہ کسی کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے مگر اس لت میں مبتلا ہو کر وہ ایسی جگہوں پر پڑے ہوتے ہیں جس کو دیکھنے کو دل نہیں کرتا ہے۔وہ دنیا و مافہا سے بے خبر ہی اگلی دنیا کے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں اب کے وارث ان کو کفن تک نہیں دیتے۔یہ منشیات کا ناسور ہمارے معاشرے میں اتنا سرایت کر چکا ہے کہ امیر گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیاں اس کو بطور فیشن اپناتے ہیں جیسا کہ آج کل شیشہ کیفے بھی بڑے شہروں میں عام ہیں اگر کوئی خبر اس حوالے سے میڈیاٗ پر آجائے تو پھر نامکا ایکشن ہو جاتا ہے حتمی اور نتیجہ خیز نہیں ہائی سوسائٹی کے لوگ اسکو اپنی فیشن لائف کا حصہ سمجھ بیٹھے ہیں اب اس لعنت کو ایک نیا نام دے دیا گیا ہے اور وہ نام ہے پائپ پینا؟
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ برائی ہمارے سامنے ہو رہی ہے بجائے اس کے اسکو روکا جائے ہمارے اکابرین نجی محافل میں خود اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور پاکستان میں پرمٹ کے نام پر شراب کی فروخت سرعام جاری ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سب پتہ ہے مگر خدا جانے کیا مصلحت ہے کہ ان خلاف فیصلہ کن کاروائی کیوں نہیں کی جاتی شائد ہمارے مردہ ضمیر حکمران جو کہ امریکہ سے ڈالر لینے کے لیے ڈرون حملے کروا رہیں وہ اس لعنت کو نہ روکنے کا بھی حصہ وصول کر رہے ہوں صرف سابقہ صدر جنرل ضیاء الحق (شہید) نے اسلامی سزائیں نافذ کر کے اس پر کنٹرول کیا تھا مگر ان کے بعد اب یہ پھر عروج پر ہے قانون ہونے کہ باوجود منشیات فروشوں کے خلاف صرف اس حد تک کاروائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنا حصہ باقاعدگی کے ساتھ قانون کے محافظوں کی جیبوں میں پہنچاتے رہیں اگر مثال کے طور پر کاروائی کی بھی جاتی ہے تو صرف خانہ پری کرنے کے لیے پولیس ان کے کیس میں اپنا حصہ وڈیروں سے لیکر ایسی پچیدگیاں ڈال دیتی ہے کہ اگلے ہی دن ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں اور تو اور خود قانون نافذ کرنے والے اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو یکے بعد دیگرے منظرے عام پر آکر اپنے محکمے کی نااہلی کی قلعی کھول دیتے ہیں اس نشے کو بڑھانے میں غیر مسلم ملکوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے تاکہ مسلمان قوم کے افراد کو اس لت میں مبتلا کرکے ترقی کی راہ سے ہٹایا جا سکے۔نوجوان نسل جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں کسی بھی قوم کا بہترین سرمایہ ہوتی ہے اس کو نشے کی لت میں ملوث کرکے معاشرے میں مختلف برائیوں کو عروج بخشا جا چکاہے کئی بد قسمت اس نشہ کی لعنت میں ملوث ہو کر اپنے پرائے کی تمیز بھی کھو بیٹھتے ہیں اور وہ کام کر دیتے ہیں جس سے خدا تعالیٰ کا غضب بھی ہمارے اُوپر ناز ل ہوتا ہے مگر ہم بجائے کویہ سبق سیکھنے کے اُلٹا اسی کام کو عروج پر لیجاتے ہیں گاؤں کی سطح پراس کام کو وڈیروں کی وجہ سے دوام ملتا ہے اور چونکہ پاکستان میں پولیس صرف ان وڈیروں کی ہی مانتی ہے سو ان کی وجہ سے ایک پُرامن معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے میرے اپنے علاقے میں اس لعنت کے ٹھکانوں پر پولیس صرف رسمی کاروائی ہی کرتی ہے اور یہ بات حقیقت پر مبنی ہے اگر قانون کی صیح روح پر عمل کیا جائے تو ایسے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے میں اور اس معاشرے کے تمام معزز زمہ دران اپنے منتخب نمائیندوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ خدا را وہ اپنی چودراہٹ کو اس ذریعے سے دوام نہ بخشیں بلکہ اس کو ختم کرکے ہزاروں بچوں کا مستقبل محفوظ کریں باوجود اس کے ملک میں اینٹی نارکوٹکس کا ادارہ کام کر رہا ہے مگر اسکی کاکردگی بھی صفر ہے

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Themes