مخلوطیت نچلی سطح پر

Published on December 3, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 403)      No Comments

\"khalid
ترک پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر نے اعتراف کیا ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کو مخلوط تعلیم کی اجازت دیناسنگین غلطی تھی۔پارلیمنٹ میں پر جوش خطاب کرتے ہوئے صادق یعقوب نے کہامغرب کی طرز پر اپنے تعلیمی اداروں میں مخلوط نظام تعلیم نافذ کرناسنگین غلطی تھی تاہم اب اس غلطی کا ازالہ کیا جائے گا۔لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کیا قدم اٹھانے والے ہیں۔واضح رہے کہ گذشتہ دنوں ترک وزیر اعظم طیب اردگان نے بھی تعلیمی اداروں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کی مخالفت کی تھی ۔
اٹھاریوں ترمیم میں جوصوبوں کو خود مختاری دی اس کے مطابق تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کر دیا گیا ۔تعلیم کا شعبہ جب تک وفاق کے پاس تھا اس کے باجودایلیٹ کلاس، پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں میں ایک جیسا نصاب رائج نہیں تھاجس کے خلاف سال میں ایک دو مرتبہ دکھے ہوئے دل کی کہیں نہ کہیں کوئی صدا بلند ہو جاتی تھی یا کوئی حکومتی تازہ دم سیاست دان یہ بیان داغ دیتا تھا کہ ہم یکساں نظام تعلیم لائیں گے۔
وفاق سے چھوٹتے ہی پنجاب حکومت نے اپنے صوبے کو برطانیہ کے قریب ترین سمجھتے ہوئے پہلی کلاس سے ہی انگریزی کولازمی قرار دے دیاجس سے بہتر نظام تعلیم میں اضافہ ہوا یا نہیں ۔پرائمری سے قبل ہی سکول چھوڑنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا۔اس ضمن اگر کام صرف انگلش تک ہی محدود رہتا تو شائد غریب محنت کش کا بچہ سر دیئے رکھتا لیکن یہاں کے دیسی اور بدیسی ماہرین تعلیم نے اسلامیات اور اردو کے علاوہ تمام کتب انگلش زبان میں پڑھائے جانے کے احکامات صادر کر دیئے۔یہاں حکومت کا موقف بھی یہی ہو گا کہ ایک طرف تو آپ ایلیٹ کلاس اور سرکاری سکولوں کے یکساں نصاب کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف اس کو ہدف تنقید بھی بناتے ہیں ۔لیکن جناب اگر نصاب یکساں کرنا ہے تو پھر بھوک بھی توبرابر بانٹو ۔انگریزی کو ترقی کا زینہ سمجھنے کی بجائے رابطہ کی زبان سمجھا جائے اورغریب کے بچے کو اتنی ہی انگریزی سکھائی جائے جتنی اسے ضرورت ہے۔پا کستان شاپر پارٹی کے ووٹر ’’غریبو ‘‘ نے ان اقدامات کو سانپ کے اپنے انڈے خود کھانے سے تعبیر کیا ہے ۔اس کے خیال میں’’ حکومت خوش ‘‘ کے اس حملے میں غریب کا جو بچہ پانچویں جماعت کی پاسنگ آوٹ پریڈ تک پہنچ گیا پھر اس کے لئے ستے خیراں ہیں ۔ورنہ پھر باپ کی گدھا گاڑی میں بندھا گدھا یا یا چنگ چی کا ہینڈل تو اس کے شدت سے منتظر ہوتے ہیں ۔
پنجاب حکومت کے ۳۱ مئی ۲۰۱۲ء کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق پانچ سو میٹر کے اندر واقع بچوں اور بچیوں کے سکولوں کو ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیاجس پر عمل در آمد بھی شروع ہو چکا ہے ۔ان سکولوں کو ’’ماڈل پرائمری سکول‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور ان سکولوں میں روز اول سے ہی مخلوط تعلیم دی جائے گی۔اس کے علاوطالبات کے تعلیمی اداروں میں مرد اساتذہ اور مردانہ کالجوں میں خواتین اساتذہ کی تقرری کو ایک معمول کا حصہ بنایا جا رہا ہے اور نہ صرف کالجوں بلکہ اسکولوں میں بھی ایسے اقدامات پر عمل در آمد ہو گا۔
کسی دور میں تعلیم بالغاں کا آغاز ہو ا لیکن اس تجربے سے یہی بات عیاں ہوئی کہ بوڑھے طوطے نہیں پڑھ سکتے اس لئے ان کو وہی کام کرنے دیا جائے جو وہ کر سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے کونسا پڑھ لکھ کر افسر بننا تھا ۔اس کے بعد ایک دور میں نئی روشنی سکول اپنی ’’روشنی ‘‘ بکھیر کر عشق کے اندھیرے کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن یہ منصوبہ بھی کوئی سوائے ’’تاریخ ‘‘ کے کچھ اور رقم نہ کر سکا۔مخلوط نظام اور انگریزی ذریعہ تعلیم سے پاکستان کے دیہاتی علاقے جن میں تعلیم کی اشد ضروت ہے وہاں شرح خواندگی میں آنے والے دنوں میں تنزلی کا شکار ہو گی۔کسی دور میں خواتین یونیورسٹیوں کا قیام شدو مد سے جاری تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سے والدین اپنی بچیوں کو یونیورسٹی لیول پر بھی مخلوط تعلیم کے حق میں نہیں تھے چہ جائیکہ کہ کلاس اول سے ہی مخلوط نظام تعلیم رائج کر دیا جائے یہ سوچے یا سمجھے بنا کہ اس نظام سے خانگی اور معاشرے پر کیسے اثرات ظاہر ہوں گے۔پرائیویٹ سکولز میں مخلوط نظام تعلیم کیا گل کھلا رہا ہے سوشل میڈیا کی ویب سائٹس ایسی خبروں اور دیڈیو زسے بھری ہوئی ہے۔
وفاقی اورصوبائی حکومتوں کا کتابوں کی مفت فراہمی اور فیس معافی ایسے اقدامات ہیں جو کہ قابل تحسین ہیں کیونکہ ماضی میں بہت سے ایسے لوگ جو شائد اس معاشرے کی رہنماہوتے جو کہ صرف کتابوں اور تعلیمی اخراجات پورے نہ ہونے کی وجہ سے جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم ہو گئے ۔
بابائے قوم نے ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تحفہ دیتے ہوئے اس بات کی نوید سنائی تھی کہ اب ہمیں مکمل مذہبی آزادی ہو گی۔لیکن کیا اس آزادی کا مطلب مخلوطیت ہے اگر ہماری بنیاد اسلام ہے تو ہمیں اپنے دین اورقر آن پاک کے بتائے ہوئے رستہ پر ضرور چلنا چایئے وہ رستہ جس پر ہماری فلاح ہے ۔
وہ ترکی جس کا معاشرہ یورپ کے رنگ میں رنگے جانے پر مسرت اور خوشی کا بے پایا ں اظہار کرتا ہے۔ان کے یہ رنگ ان کی فلموں ،ٹی وی ڈراموں اور معاشرت میں جابجا نظر آتے ہیں ان کی پارلیمنٹ میں مخلوط نظام تعلیم پر ان کے ڈپٹی سپیکر اور وزیر اعظم کے بیانات ایک نئی صبح کی نوید دے رہے ہیں ۔اس قبل کہ ہم ایک طویل تجربے سے گزریں اور مستقبل میں پاکستان کی پارلیمنٹ سے بھی مخلوط نظام تعلیم پر آواز اٹھے ہمیں پہلا قدم اٹھانے سے پہلے ہی اپنی فہم و دانش کی نظر سے منزل کی جانب سے اٹھتے ہوئے گرد و غبار سے پرے دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ترکی سے جہاں ہم نے ٹی وی ڈرامے ،میٹرو بس سروس اور صفائی کے شعبے میں رہنمائی لی ہے وہاں اس مخلوط نظام تعلیم کے بارے میں بھی اٹھتی ہوئی آوازوں پر کان دھریں کیونکہ سیانوں کا قول ہے جگ بیتی سے ہی سبق سیکھ لینا چایئے اسے آپ بیتی نہیں بنا نا چایئے۔
یہ بات کبھی نہیں بھولنی چایئے کہ کوڑے کے اوپر ریڈ کارپٹ بچھا آپ وقتی طور پر تو اس کی خوشنمائی سے کسی تو متاثر کر سکتے ہیں لیکن اس سے اٹھنے والے تعفن سے ذیادہ دیر محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں ۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Blog