پیار کے تصور کو فروغ دینے کی ضرورت

Published on December 3, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 279)      No Comments

\"Siddiq
ہماری اس مہم کا مقصد بچوں میں یہ آگاہی پیدا کرنا ہے کہ جن کھلونا ہتھیاروں سے وہ کھیلتے ہیں یہ صرف کھلونے نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بچوں کا برین ڈویلیپ کررہے ہیں اصل ہتھیاروں سے ملتے جلتے اور مشابہہ کھلونے استعمال کرنے والے بچے ان لوگوں کو ہیرو سمجھنا شروع کردیتے ہیں جو اصل ہتھیار چلاتے ہیں۔کچے ذہن رکھنے والوں بچوں کو کھلونا پسٹل، گن،رائفل وغیرہ معاشرے میں ناہمواری اور انتشار کا سبب بنتے ہیں کیونکہ پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں کھلونا ہتھیار کی فروخت اور مانگ میں بے پناہ اضافہ معاشرے کے منفی پہلو اور رویے کی جانب واضح اشارہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی جو آجکل بدامنی ،لاقانونیت، دہشت گردی، بھتہ خوری ،ٹارگٹ کلنگ کا گڑھ بن چکا ہے اس شہر بے امان میں بچوں کے کھلونا ہتھیاروں کے خلاف ایک این جی او ’’ پرسکون کراچی ‘‘کی جانب سے ایک انوکھی مہم شروع کی گئی وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جمعرات کے روز اس مہم کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس بھی منقعد کی گئی جس کا عنوان’’ہتھیارنہیں پیار‘‘تھا۔ اس مہم میں منفرد انداز میں ہتھیار نما کھلونوں کو تلف کرنے کیلئے پلاسٹک اور دیگر میٹریل کی مدد سے بنائے گئے کھلونوں کو شرکاء نے اپنے ہاتھوں سے توڑا اور پھر ان پر روڈ رولر چلاکر اس مہم کا آغار کیا گیا۔ مہم کے شرکا ء نے اس عمل کے بعد با آواز بلند قومی ترانہ بھی پڑھا اور پھر ’’ہتھیار نہیں پیار‘‘ کا پرشگاف نعرہ بھی فضا ؤں میں بکھیرا۔اس منفرد مہم کیلئے ٹیم نے سرکاری و پرائیویٹ سکولوں کا وزٹ بھی کیا اوور بچوں سے کھلونا ہتھیار لے کر ان کو دوسری قسم کے کھلونے تحفے میں دیئے۔علاوہ ازیں کھلونا پستول ، چاقو، بندوق وغیرہ بیچنے والوں کو بھی اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ آئندہ اس قسم کے کھلونے فروخت نہ کریں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس تنظیم کے اس عمل کو ہر سطح پر سراہا گیا اور مثبت انداز میں پذیرائی ملی اور بعض شہریوں نے بھی رضاکارانہ طور پر اس مثبت عمل کو پھیلانے میں تعاون کا یقین دلایا۔کراچی جیسے شہر میں تشدد کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے تدارک اور معصوم بچوں میں بڑھتے ہوئے تشدد کے رحجان کو کم کرنے یا ختم کرنے این جی او کردار ایک خوشگوار سنگ میل ثابت ہوگااور امید واثق ہے کہ اس مثبت عمل سے کراچی شہر کے افراد کو امن سکون خوشی ملنے کا قوی امکان پیدا ہوگا۔
بچوں میں تشدد کے رحجان کے بڑھنے کی رفتار نہایت حدتک بڑھ چکی ہے اور رحجان بے حسی اور نامناسب رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ کل تک بچوں کو ڈرایا جاتا تھا کہ چھری سے مت کھیلو۔ انگلی کٹ جائے گی۔ اس آگاہی اور تنبیہ پر بچے ڈر جاتے تھے لیکن آج کا بچہ چھری کیا پستول دیکھ رہا ہے گولی چلتی دیکھ رہا ہے خون بہتا دیکھ رہا ہے اور ان مناظر میں اس کیلئے ڈر کہیں نہیں۔ چنانچہ وہ عادی ہوتا جارہا ہے۔ ماحول میں رچتا بستا جارہا ہے۔ روزمرہ کے معمولات میں خود کو ملوث کرتا جارہا ہے۔اس سے بھی آگے وہ فلموں، ڈراموں شوز اور ویڈیوگیمز میں دکھائی جانیوالی قتل کی واردات کی منصوبہ بندی کی بغور دیکھ اور سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اس کا اثر بھی براہ راست قبول کررہے ہوتے ہیں۔دانستہ یا غیر دانستہ طور پر تشدد کے چھوٹے بڑے تمام مناظر ان کے ذہنوں پر نقش ہو رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے اپنے گھروں میں بچوں کی تعلیم کو تو بے پناہ حساسیت دی جاتی ہے کہ سکول سے چھٹی نہ ہوجائے کالج مس نہ ہوجائے۔ مارکس کم نہ رہ جائیں لیکن تربیت کا کوئی ذریعہ اور نظام نہیں دکھائی دیتا۔کہ ان کے اذہان کو پرتشدد کارروائیوں کے خلاف تیار کیا جائے ان سے نفرت کرنے کی ترغیب دی جائے۔اگر ہم اپنے بچپن کا بنظر غایت جائزہ لیں تو ہمیں ہمارے والدین اور بڑے ایسی کہانیاں اور واقعات سناتے اور بتاتے تھے کہ جو انسانی اقدار و اخلاقیات کے درس سے بھرپور ہوتی تھیں۔ انسانی عزت و احترام جان و مال کی قدر و قیمت سے آشنائی کا موثر ذریعہ ہوتی تھیں۔ایسا ماحول دردمندی، بھائی چارگی، دوستی ، محبت، رحم اور اتفاق و اتحاد کے جذبات پیدا کرتا تھا لیکن اب ایسا ماحول ناپید ہوچکا ہے۔آج کا بچہ اپنے بڑوں اوروالدین سے کم ، ٹی وی و انٹرنیٹ زدہ ماحول سے زیادہ سیکھ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں تشدد کے جذبات اور رحجانات شدت کے ساتھ پنپ رہے ہیں۔پھر جب آٹھویں کلاس کا طالب کسی کو قتل کرتا ہے۔ میٹرک کے طلباچیک پوسٹ پر پولیس اہلکار کے روکنے پر پسٹل سے فائر کرکے اسے ہلاک کردیتے ہیں۔سکول میں چاقو اور خنجر کا بلادریغ استعمال ہوتا ہے تو تعجب نہیں ہوتا بلکہ تاسف اورافسوس سے اپنی اور معاشرے کی بے حسی اور بے ثباتی پر کڑھتے رہتے ہیں۔مغرب زدہ معاشروں میں تو اس قسم کی پریکٹس ہوا کرتی تھی لیکن اب مشرقی روایات کے حامل معاشرے بھی بری طرح سے اس لپیٹ میں آچکے ہیں۔ لہذا ان تنظیموں کے ساتھ ساتھ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ماحول سے اپنے بچوں کو بچائیں۔منفی ماحول اور رویوں کے مضر پہلوؤں کا احاطہ کریں کیونکہ جب تک والدین بچوں میں انسانی صفات پیدا کرنیوالی کا ماحول اور معاشرہ تخلیق نہیں کریں گے تو حالات مزید ابتر ہوتے جائیں گے اور پھر تباہی و بربادی سے ان کوئی نہیں بچا سکے گا۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Themes