کڑوا سچ

Published on September 24, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 667)      No Comments

Toseef
تحریر ۔۔۔ شیخ توصیف حسین
ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اپنے استاد ملا احمد جیون کا یہ سوچ کر بہت زیادہ عزت و احترام کرتے تھے کہ باادب بانصیب اور بے ادب بد نصیب ایک دفعہ آپ نے اپنے استاد ملا احمد جیون کو اپنے شاہی محل میں بلایا اور اُن کی خدمت میں کوئی گنجائش نہ چھوڑی جب آپ کے استاد واپس گھر آنے لگے تو آپ نے انھیں شاہی محل کے دروازے پر رخصت کرتے ہوئے اپنی جیب سے نکال کر ایک چوانی دی جسے لیکر استاد خوشی خو شی واپس اپنے گھر آ گیا جن کے جانے کے بعد آپ اپنے حکومتی معاملات میں اس قدر کھو گئے کہ آپ تقریبا بارہ سال تک اپنے استاد سے نہ مل سکے آپ کا وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ ایک دن آپ کے وزیر نے آپ کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے استاد محترم علاقے کے بہت بڑے زمیندار بن چکے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو اُن پر لگان لگا دے یہ سن کر آپ حیران و پریشان ہو کر سو چنے لگے کہ میرے استاد محترم جن کی عزت تو میں دل و جان سے کرتا ہوں وہ تو ایک سیدھے سادھے اور ایماندار انسان ہے وہ ان چند سالوں میں اپنے علاقے کے بڑے زمیندار کیسے بن گئے قصہ مختصر آپ نے صورت حال جاننے کیلئے اپنے استاد محترم کو اپنے پاس بلا لیا لیکن اُن سے اس بارے میں پوچھنے کی جرات نہ کر سکے لیکن اسی دوران آپ کے استاد محترم نے از خود بڑے زمیندار ہونے کی کہانی آپ کو سناتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو چوانی مجھے رخصت کرتے وقت دی تھی وہ چوانی بڑی با برکت تھی اس چوانی سے میں نے اپنی زمین جو کہ بنجر پڑی تھی کیلئے کھاد وغیرہ خریدی جس کے نتیجہ میں میری بنجر زمین پر اتنی فصل ہونے لگی کہ میں دیکھتے ہی دیکھتے علاقے کا بہت بڑا زمیندار بن گیا اور آج میں اس زمین کا لگان دینے کیلئے بالکل تیار ہوں یہ سن کر آپ بہت خوش ہوئے اور اپنے استاد محترم سے کہنے لگے کہ آپ جانتے ہیں اس با برکت چوانی کی حقیقت کو کہ وہ میرے پاس کیسے آئی ہوا یوں کہ ایک رات موسلا دھار بارش ہوئی تو میں اپنی رعایا کے حالات جاننے کیلئے چاندنی چوک پر پہنچ گیا جہاں پر اتم چند نامی ہندو نے اپنا مکان تعمیر کروایا تھا اس موسلا دھار بارش کی وجہ سے اُس کے مکان کی چھت سے بارش کا پانی ٹپک ٹپک کر مکان کے اندر جمع ہو نے لگا تو وہ گھبرا کر مکان سے باہر نکل آیا باہر نکلتے ہی اس ہندو نے مجھے دیکھا اور کہنے لگا کہ اگر آپ میرے مکان کی چھت پر مٹی ڈال دے تو میں اس کا معاوضہ آپ کو دے دوں گا یہ سن کر میں نے ہندو کے مکان کی چھت پر مٹی ڈالنا شروع کر دی مٹی ڈالنے کے بعد جب میں واپس آنے لگا تو اُس ہندو نے وہی چوانی مجھے دی تھی جو میں نے آپ کو رخصت کرتے وقت دی تھی تو اس بات سے واضح ہو گیا کہ محنت و مزدوری اور ایمانداری سے کمائی گئی ایک چوانی بھی با بر کت بن کر انسان کی تقدیر کو بدل دیتی ہے جبکہ دوسری جانب ڈریکولا کا روپ دھار کر ملک و قوم کا خون چوسنے والے افراد خواہ وہ اربوں اور کھر بوں روپے کے مالک ہی کیوں نہ بن جائے ذلت و رسوائی کے ساتھ ساتھ ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو کر بالآ خر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں جن کے رخصت ہو جانے کے بعد مظلوم افراد انھیں ان لفظوں سے یاد کرتی ہے کہ چلو اچھا ہوا کہ اپنے وقت کا فرعون دنیا سے رخصت ہو گیا جو حرام کی کمائی کے حصول کی خا طر ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل رہا یہی کافی نہیں جبکہ اس کے اہلخا نہ اس لوٹی ہوئی دو لت کے حصول کی خا طر ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں پھر اُس رخصت ہونے والے کا نام نہ تین میں لیتے ہیں اور نہ ہی تیرہ میں جو کہ ایک انتہائی افسوس ناک پہلو ہے اور اس سے بھی بڑھ کر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان حالات کو بخو بی جاننے کے باوجود آج بھی اس پر آ شوب معاشرے میں لا تعداد بااثراور بااختیار افراد حرام و حلال کی تمیز کھو کر ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر کے اپنی عاقبت خراب کرنے میں مصروف عمل ہیں یہ میں ابھی تحریر کر ہی رہا تھا کہ اسی دوران میرا ایک دوست آ گیا اور مجھ سے مخا طب ہو کر کہنے لگا کہ آپ ہمیشہ اعلی افسران کو تنقید کا نشانہ بناتے ہو کبھی آپ نے اس نفسا نفسی کے شکار معاشرے کے ان بعض افراد کو دیکھا ہے جو اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ دالنے کیلئے اعلی افسران کو زبر دستی نذرانہ پیش کرتے ہیں اور اگر کوئی اعلی آ فیسر ان کے نذرانے کو ٹھکراتا ہے تو یہ اس کی نہ صرف بلکہ جان کے دشمن بن جاتے ہیں جس کے واضح ثبوت یہ ہیں کہ متعدد اعلی افسران ان بااثر قانون شکن عناصر کے ہاتھوں جام شہادت نوش فر ما چکے ہیں اُس نے کہا مذید یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس پر آ شوب معاشرے کے متعدد افراد حرام کی کمائی کے حصول کی خا طر اپنی حقیقی جواں سالہ بیٹیوں بہنوں اور بیویوں کو فحاشی کے اڈوں پر بٹھانے کے ساتھ ساتھ منشیات فروشی کہ جس کی زد میں آ کر نجانے کتنے گھرانوں کے چراغ گل ہو چکے ہیں کھلے عام کر رہے ہیں اگر حقیقت کے آ ئینے میں دیکھا جائے تو یہ ناسور جو کہ مذہب اسلام کے نام پر ایک بد نما داغ ہیں کا دائرہ پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے یہی کافی نہیں ان ناسوروں کی وجہ سے چوری ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں عام ہو کر رہ گئی ہیں چھوڑو ان باتوں کو آپ اس معاشرے کے تمام مکاتب و فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے دین اور مولوی صاحبان کو دیکھ لو جو داڑھی رکھنا تو سنت رسول سمجھتے ہیں لیکن حضور پاک کے باقی ماندہ کردار کو اپنانا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں بس یہی کیفیت اس معاشرے کے تاجر صاحبان کی بھی ہے جو حکم خداوندی کو ٹھکراتے ہوئے ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی قلت کرتے ہیں اور بعد ازاں اس ذخیرہ کو منہ مانگے داموں فروخت کر دیتے ہیں بس یہی کیفیت چھوٹے تاجروں کی بھی ہے جو حکومت کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے اشیائے خوردنوش کی رقوم الائچی کے بجائے ڈاچی بنا کر وصول کرتے ہیں آپ اس معاشرے کے دھوبی حجام اور مو چی کے علاوہ درزی کو دیکھ لیں وہ بھی کسی سے کم نہیں ان کا بھی یہی منشور ہے کہ دہاڑی لگاؤ اور مال کماؤ باقی رہ گئے اس معاشرے کے ڈاکٹرز اور سیاست دان ان کو تو خداوندکریم نے کھلی چھٹی دے دی ہے کہ تم ڈریکولا کا روپ دھار کر جتنا چاہو غریب اور بے بس افراد کا خون چوس لو اس کا حساب تو میں آپ سے یوم آ خرت کو لوں گا اپنے دوست کی ان باتوں کو سننے کے بعد میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگا کہ مجرم کون ہیں اس نفسا نفسی معاشرے کے ناسور افراد یا اعلی افسران یا پھر سب کے سب دمام مست قلندر ہیں

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress Blog