عدل و انصاف کا فقدان تباہی کا سبب

Published on November 17, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 447)      No Comments

logo-final
تحریر۔۔۔شفقت اللہ
حکایت شیخ سعدی ؒ ہے کہ ایک شخص حلب کے بازاروں میں صدا لگا رہا تھا کہ دولت مندوں !اگر تم لوگوں میں انصاف ہوتا اور ہمیں صبر کی توفیق ہوتی تو دنیا سے سوال کی رسم ہی اٹھ جاتی ۔حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں عدل و انصاف کا معیار اس قدر قائم کر دیا گیاتھا کہ کوئی سوالی نہیں باقی تھا اور خزانے بھی بھر چکے تھے آپؓ کا مشہور قول ہے کہ جس سلطنت میں عدل قائم ہو وہاں کے جانور بھی انسانوں کو نقصان نہیں پہنچاتے ۔ مذہب اسلام کی تعلیمات تو انتہائی سادہ اور پر سکون زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ ہیں لیکن ہم نے خود ہی اپنی زندگی کی مشکلات بڑھا رکھی ہیں جن باتوں سے ہمیں پرہیز کرنے کی بارہا تلقین کی گئی ہم انہیں کی اپنائیت میں اپنی ساری طاقتیں بروئے کار لاتے ہیں لیکن کچھ حاصل نہیں کر سکتے ۔قرآن کریم میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ تمہارے لئے مال اور اولاد فتنہ ہیں بجائے اس کے کہ ہم ان فتنوں سے بچیں ہم اور انہیں کی طرف بھاگتے ہیں اور اولاد کی خاطر اپنا دین و مذہب کو بھول کر ہر اس سطح پر گر جاتے ہیں جو انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ ایمان والوں کی ناکامی کی اگر اس دنیا میں کوئی وجہ رہی ہے تو وہ سوائے انحرافِ ’’نہیَ وَ عنِ المْنکَر ‘‘کے کچھ نہیں ۔ا س کے باوجود ہم کچھ سیکھ نہیں پائے اور ابھی بھی انہیں راستوں پر چل رہے ہیں جو ہمیں تباہی کے دہانے پر لے جارہے ہیں نہ کہ ترقی کے راستے پر ۔ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کا مقصد اور نظریہ اگر کوئی تھا تو وہ یہی تھا کہ مسلمان آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کو یقینی بنا سکیں اور اپنی آخرت سنوار کر اللہ کے دربار میں سرخرو ہو سکیں ،اسلامی شریعہ کا نفاذ یقینی بنا کر مکمل اسلامی زندگی گزاریں لیکن اس ملک پر اول دن سے ہی ایسے عناصر کا قبضہ ہو گیا جو سوائے مادیت کہ کسی چیز کو اپنا ایمان نہیں سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے آج اس ملک کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔مختلف ادوار میں بہت سے لوگ آئے اور انہوں نے اس ملک کو کیک کی طرح کھایا اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں سے اس ملک کو نوازا تھا ان کا ضیاع کیا اور ابھی بھی لوٹنے میں سر گرم ہیں ۔اگر ہم ملک کی ستر سالہ تاریخ میں تمام اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو معاملہ صرف ایک بات پر آ کر رک جاتا ہے اور وہ کرپشن ہے !کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جس میں مبتلا ہوئے بغیر اب اداروں کی بقاء مشکل ہو گئی ہے ۔استحصال جیسی اس بیماری نے سب سے پہلے ملک کے ان اداروں پر حملہ کیا جو بنیادی سہولیات کے مؤجب تھے مطلب یہ کہ اگر آپ کو اس ملک میں زندہ رہنا ہے تو آپ کا استحصال میں ہی آپ کی بقاء ہے اس سبق کو میرے جیسے غریب اور ان پڑھ لوگ تو نہیں سمجھ پائے اور ہمیشہ ایک بات کا جاپ کرتے رہے کہ عدل کرو ،انصاف دو ! لیکن امراء اور طاقتور لوگوں نے اچھی طرح اپنی روح میں اس بات کو بسا لیا جس کی مثال ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ملک میں آج تک جو بھی ترقی کا منصوبہ لگایا گیا اس کو ناکام کرنے کیلئے پہلے ہی تمام انتظامات کرلئے گئے اور آج یہ وقت ہے کہ سارے ملک میں جو منافع بخش کاروبار تھے ان کی نجی کاری کر کے سود اتارا جا رہا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو ملک میں ماہانہ کی بنیادوں پر ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے وہ کس کھوہ میں جاتا ہے ؟کہ ہمیں ملکی اور معاشرتی ترقی کیلئے پھر سے آئی ایم ایف کے قرض کا سہارا لینا پڑتا ہے؟؟اسی طرح ملک میں کتنے ہی پراجیکٹ چل رہے ہیں اور بن چکے ہیں جن کی بنیاد آئی ایم ایف سے قرض لے کر رکھی گئی تھی سبھی خسارے میں جا رہے ہیں جن میں لاہور میٹرو بس اور قائداعظم سولر پارک و نندی پور پاورپراجیکٹ کی حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اب اور قرض لینے اور اتارنے کیلئے ایک تو کرنسی کو انتہائی گھٹیا کر دیا ہے کہ جس سے ملک افراط زر کی جانب جا رہا ہے اور پھر اوپر سے ملک کے مختلف اثاثوں کو گروی رکھنے کے ساتھ ساتھ سی پیک منصوبے کو بھی ناکام کرنے کی سازش کر رہے ہیں کیونکہ جب اتنا قرض لیا جا چکا ہو گا تو سی پیک سے عوام کو پھر بھی کچھ حاصل نہیں ہونے والا وہ منصوبہ تمام عمر قرض ہی اتارتا رہے گا اور ملکی معیشت کبھی مضبوط نہیں ہو پائے گی۔اور جب کوئی کرپشن کا کیس سامنے آ ہی جاتا ہے تو اس پر ایک کمیشن کا سانپ بٹھا دیا جاتا ہے کچھ عرصہ بعد جب وہ سانپ کچھ اگلتا ہے تواسے ناگ منی بنا کر عوام کی نظروں اور پہنچ سے دور خفیہ خانوں میں چھپا لیا جاتا ہے ان خفیہ خانوں کی اگر تحقیقات کروائی جائیں تو عوام کا اربوں ڈالر نکل سکتا ہے جو ملکی معیشت کے استحکام کیلئے کافی ہے ۔کیا یہ ممکن ہے؟؟اگر ہم دنیا کے حالات کا مطالعہ کریں اور مختلف بادشاہوں اور صدور کے دورحکومت کا جائزہ لیں تو ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ترقی یافتہ قوموں میں صرف ایک چیز مشترک تھی اور وہ یہ کہ ان ریاستوں میں عدل و انصاف کا معیار قائم تھا قانون سب کیلئے ایک تھا چاہے وہ کسی وزیر کا بیٹا ہوتا اور چاہے کسی مزدور کا اگر گناہ کیا ہے تو سزا بھی ایک جیسی ہی ملے گی چین میں آج بھی کرپشن اور رشوت کی سزا موت ہے چاہے وہ ایک روپے کی ہی کیوں نہ ہو!کچھ عرصہ قبل سعودی عرب میں جرم ثابت ہونے پر شہزادے کا سر قلم کر دیا گیا اور دنیا کو دکھا دیا گیا کہ کس طرح عدل کا قیام ممکن ہے !اگر ہم قرآن کی روشنی میں سبق سیکھنے کی کوشش کریں تو اس سے بڑی کوئی بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی واضح تلقین کی ہے کہ اپنی اولاد کیلئے بھی کوئی غلط راستہ سے انکی ترقی کیلئے تگ و دو نہ کرو اور حدیث کا مفہوم بھی ہے کہ اگر کوئی شخص ناحق کام میں اپنی قوم کا ساتھ دے اس کی مثال ایسی ہے کہ گو یا کوئی اونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور تم بھی اس کی پونچھ پکڑ کر اس کے ساتھ جا گرو ۔حضرت عمرؓ کے قول کے مطابق اگر سوچیں تو آج پورے میں ملک میں لوگ مر رہے ہیں قتل کرنے والے بھی مسلمان کہلاتے ہیں اور قتل ہونے والے بھی اللہ اکبر کی آواز بلند کرتے ہیں نام نہاد مسلمان ہی ایک دوسرے کا استحصال کرنے میں مگن ہیں یہ بات توواضح ہو گئی کہ ہمارے اس ملک میں عدل قائم نہیں ہو سکا جسکا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں اور اگر ہم بھی ایسے ہی بے صبر رہے اور انصاف کیلئے آواز بلند نہ کر پائے تو ہماری اگلی نسلیں بھی اسی طرح ذلیل و خوار ہوں گی جس طرح آج ہم خوار ہو رہے ہیں ۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Theme