حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بینک اکاونٹ

Published on December 2, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 476)      No Comments

javed
تحریر۔۔۔ جاوید صدیقی
آج میرے کالم کا عنوان حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بینک اکاونٹ اور ہمارے سیاستدانوں کے اکاؤنٹس ہے۔۔!! معزز قائرین!سعودی عرب کے ایک بینک میں خلیفہء سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آج بھی کرنٹ اکاونٹ ہے، مدینہ منورہ کی میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر باقاعدہ جائیداد رجسٹرڈ ہے ۔۔۔!! آج بھی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بجلی اور پانی کا بل آتا ہے۔۔۔، مسجد نبوی کے پاس ایک عالی شان رہائشی ہوٹل زیر تعمیر جس کا نام عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوٹل ہے۔۔۔!! یہ وہ عظیم صدقہ جاریہ ہے جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صدق نیت کا نتیجہ ہے۔۔۔!!جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں پینے کے صاف پانی کی بڑی قلت تھی، ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا تھا، اس کنویں کا نام “بئر رومہ” یعنی رومہ کنواں تھا۔۔۔۔!! مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔۔۔، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دے ۔۔! ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں چشمہ عطاء کرے گا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔۔۔۔!! کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا اس لیے یہودی نے فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔۔، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تدبیر کی کہ یہودی سے کہا پورا کنواں نہ سہی ، آدھا کنواں مجھے فروخت کر دو، آدھا کنواں فروخت کرنے پر ایک دن کنویں کا پانی تمہارا ھو گا اور دوسرے دن میرا ہو گا، یہودی لالچ میں آ گیا ۔۔، اس نے سوچا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دن میں پانی زیادہ پیسوں میں فرخت کریں گے اس طرح زیادہ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا۔ ۔۔!!اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا ۔۔!! حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دن مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دے
دی۔ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کے لیے بھی ذخیرہ کر لیتے۔ یہودی کے دن کوئی بھی شخص پانی خریدنے نہیں جاتا۔۔!! یہودی نے دیکھا کہ اس کی تجارت ماند پڑ گئی ہے تو اس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باقی آدھا کنواں بھی خریدنے کی گزارش کی۔۔!! اس پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راضی ہو گئے اور پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا ۔۔ اس دوران ایک آدمی نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کنواں دوگنا قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی۔۔!!حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھ اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے،اس نے کہا میں تین گنا دوں گا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے اس سے کئی گنا کی پیش کش ہے، اس نے کہا میں چار گنا دوں گا،حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے، اس طرح وہ آدمی رقم بڑھاتا گیا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی جواب دیتے رہے، یہاں تک اس آدمی نے کہا کہ حضرت آخر کون ہے جو آپ کو دس گنا دینے کی پیش کش کر رہا ہے۔۔؟؟ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میرا رب مجھے ایک نیکی پر دس گنا اجر دینے کی پیش کش کرتا ہے۔۔!! وقت گزرتا گیا اور یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بن گیا۔!! عثمانی سلطنت کے دور میں اس باغ کی دیکھ بال ہوئی، بعد از سعودی کے عہد میں اس باغ میں کھجوروں کے درختوں کی تعداد پندرہ سو پچاس ہو گئی ۔۔۔!! یہ باغ میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر رجسٹرڈ ہیں۔۔!! وزارتِ زراعت یہاں کے کھجور، بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بینک میں جمع کرتی رہی یہاں تک کہ اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہو گی کہ مرکزی علاقہ میں ایک پلاٹ لیا گیا جہاں فندق عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیاگیا ہے۔ اس ہوٹل سے ایک اندازے کت مطابق کم از کم سالانہ پچاس ملین ریال آمدنی ہوتی ہے،جس کا آدھا حصہ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم ہوتا ہے اور باقی آدھا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بینک اکاونٹ میں جمع کردیا جاتا ہے۔۔۔!! اندازہ کیجئے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انفاق کو اللہ تعالیٰ نے کیسے قبول فرمایا اور اس میں ایسی برکت عطاء کی کہ قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ بن گیا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے ساتھ تجارت کی،جنھوں نے اللہ تعالیٰ کو قرض دیا ، اچھا قرض، پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں کئی گنا بڑھا کر لوٹا دیا. سبحان اللہ۔!! معزز قائرین ! دنیا کی پہلی اسلامی ریاست مدینۃ المنورہ تھی اور اب دوسری اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔!! اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ کو کس طرح ہونا چاہیئے ظاہر ہے ریاست کے آئین و قوانین کے تحت مکمل ڈھلا ہونا چاہیئےلیکن کیا ایسا ہی ہوتا آرہا ہے ہمارے پیارے وطن عزیز پاکستان میں، ممکن ہے میرے قائرین کا جواب نہیں میں ہوگا!! اس کی سب سے بڑی وجہ خود پاکستانی عوام بھی ہیں جو کرپٹ، بدعنوان اور لوٹ مار کرنے والوں کو پانا سربراہ منتخب کرتے ہیں، عوام جانتی ہے کہ ان کا ماضی اور حال کیا ہے پھر بھی اپنی
ذاتی خاہشات اور مفادات کے تحت بار بار منتخب کرکے ریاست پاکستان کو برباد کرنے سے نہیں باز آتے۔۔۔!! مذہبی اسکالرز ہوں یا مذہبی سیاسی رہنما ان تمام لوگوں کی ترغیب آخر کار کیوں نہیں اثر انگیز ہوتی؟؟ ؟ہمارے علما و مشائخ کرام کے درس کیوں نہیں با اثر ہیں ؟؟؟ خود ہمارے سیاسی رہنما کیوں بھٹکے ہوئے ہیں کیا وہ مسلمان نہیں ؟؟ کیا وہ اللہ اور حبیب محمد مصطفیٰ ﷺ سے عقیدت و احترام اور محبت کا رشتہ نہیں رکھتے ؟؟؟ تو پھر وہ کیوں بھول گئے ہیں کہ ہمیں نظام ریاست خود ہمارے نبی کریم ﷺ نے عمل کرکے دیکھایا یہی نہیں بلکہ آپ ﷺ کی اطبا کرتے ہوئے صحابہ اجمعین نے بھی اپنے اپنے دور اقتدار میں نبی کریم ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عظیم ترین ریاست کے نظام کو مروج کیا اور دنیا کے تین سے زائد براعظموں پر اسلامی ریاست کو قائم کی اور ایسی ریاست کا نظام چلایا کہ جس میں ہر مذہب ،ہر مسلک، ہر انسان اپنے اپنے حقوق سے مالا مال تھا اور پر امن زندگی گزار رہا تھا، تاریخ اسلام ہو یا دنیا کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مسلم سپہ سالار و خلفا ؤںنے اعلیٰ ترین اقتدار سنبھالا۔۔۔!!دورحاضر میں پی پی پی ،پی ایم ایل این، ایم کیو ایم ، اے این پی، جے یو آئی ایف و دیگر سیاسی جماعتوں پرز کرپشن، لوٹ مار اور بدعنوانی کے الزامات لگے ہوئے ہیں ، الزامات تو ایک طرف ان کے دور حکومت میں بندر بانٹ، اقربہ پروی اور لاقانونیت کا بازار بڑے عروج پر رہتا ہے ،گزشتہ چند سالوں میں پاک افواج نے دہشتگردی پر قابو تو پالیا لیکن دہشت گردی کی اصل جڑ کرپشن، لوٹ مار، بدعنوانی،بندر بانٹ، اقربہ پروی اور لاقانونیت کی جانب ایک نظر تک نہیں دیکھا، ہمارے سیاستدانوں کو نہ دین اسلام سے لگاؤ ہے اور نہ ہی وہ ایسی قونین بنانے اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کی شان و آن پر فرق آئے، انہیں تومظلوموں پر ظلم و بربریت، غرور و تکبر کے دائرہ میں رہنا ہی پسند ہے ۔۔!! پاکستانی ایک طبقہ ایسا ہے جو ایسے سیاستدانوں کے برخلاف ہے ان کے مطابق ان سب کا مکمل بائیکاٹ کردینا چاہیئے اور سب سے پہلے اقتدار میں رہنے والوں کا احتساب کرنا چاہیئے ان کے ساتھ اداروں کے سربراہ جو ان کی شفارشوں سے تعینات کیئے گئے ہیں انہیں بے دخل کردینا چاہیئے بصورت دیگر پاکستان اسلامی ریاستوں میں بد سے بدترین اور بدنام رہے گا، یہ ذمہ داری عوام اور پاک افواج کی بھی آتی ہے کہ وہ پاکستان کی بقا کیلئے ہر قدم اٹھائیں۔۔۔۔!! معزز قائرین! ہم سب کو فخر کرنا چاہیئے کہ ہم مسلم ہیں اور ہمیں اپنے نبی کریم ﷺ کی اطبا اسی طرح کرنی چاہیئے جس طرح خلفائے راشدین نے کی تھی تاکہ ہم دنیابھر میں آزاد خودمختار با عزت قوم بنکر سامنے آئیں ، اب تک تو ہم غلام ہیں یہودی و عیسائیوں کے ، ان کے حکم کے بغیر کوئی پالیسی نہیں بناتے، ہمارے حکمران، ہمارے سیاسی لیڈران نبی کریم ﷺ کی اطبا کے بجائے برطانیہ اور امریکہ کے حکمرانوں کی اطبا کو اہمیت دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ دنیا پرست حکمران خود تو خود اپنے کارکنان کیلئے بھی جہنم رسید کررہے ہیں، خود تو اللہ کی پکڑ میں ہونگے عوام کو بھی دھکیل رہے ہیں ۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress Blog