آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں ٹیکس چوری اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے، سپریم کورٹ

Published on January 19, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 446)      No Comments

Panama

اسلام آباد (یواین پی) سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی مزید سماعت کل (جمعہ ) تک ملتوی کر دی۔ وزیر اعظم نوازشریف کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل آج مکمل ہو گئے ہیں اور کل جماعت اسلامی کے وکیل اپنے دلائل کا آغاز کریں گے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پاناما کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
پاناما کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ایڈوکیٹ شاہد حامد نے مریم نواز کے نام خریدی گئی جائیداد کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کر دیں ۔ دستاویز ات میں جائیداد خریداری کی تاریخیں اور قانونی دستاویزات شامل ہیں ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا زمین والد نے بیٹی کے نام خریدی تھی جس پر وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ مریم نواز نے بعد ازاں زمین کی قیمت ادا کی تو زمین کا انتقال ہوا ۔ والد نے بیٹی کے نما زمین خریدی ۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیس کو مد نظر رکھ کر ہی زیر کفالت کی تقریف کو سمجھنا ہو گا ۔ زیر کفالت ہونے کی تعریف انکم ٹیکس قوانین اور عوامی نمائندگی ایکٹ میں نہیں ۔
پاناما لیکس کے ہنگامے میں حکومت پاکستان کی بھی دو آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے۔سپریم کورٹ میں پانامالیکس پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے انکشاف کیاکہ ریاست پاکستان کی بھی دو آف شور کمپنیاں ہیں ، ہوٹل روز ویل نیویارک اور کریٹ ہوٹل پیر س حکومت پاکستان کی ملکیت ہیں اور یہ دونوں ہی آف شورکمپنیوں کے ذریعے رجسٹرڈ ہیں اوراس کا مقصد ٹیکس بچانا ہے جس پر عدالت کا کہناتھاکہ آف شورکمپنیاں بنانا جرم نہیں لیکن ٹیکس چھپانا جرم ہے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نیب آرڈیننس میں بے نامی جائیدادوں کی تعریف تو ہے لیکن زیر کفالت کی نہیں ۔ مخدوم علی خان نے جوا ب دیا کہ بے نامی جائیداد سے متعلق عدالت کے متعدد فیصلے موجود ہیں ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عمومی طور پر والد زیر کفالت بچوں کو جائیداد خرید کر دیتے ہیں ۔مخدوم علی خان نے کہا کہ ہر ٹرانزیکشن کو بے نامی نہیں کہا جا سکتا ۔ بے نامی ٹرانزیکشن کی قانون میں باقاعدہ تعریف موجود ہے ۔وزیر اعظم کے وکیل نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بامی جائیداد سے متعلق ایک فیصلے کا حوالہ بھی دیا ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب آپ نے خود کہا کہ جائیداد مریم کے نام پر رکھی گئی ۔ مریم کو تحفے میں رقم دی گئی جو اس نے والد کو بعد میں واپس کی ، تحفے میں دی گئی رقم کی واپسی کے بعد جائیداد مریم کو مل گئی ۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ اس سے لگتا ہے مریم نوا ز والد کی زیر کفالت ہیں ۔مریم نواز کے مالی حالات میں 2011ءکے بعد بہت تبدیلی آئی ۔ مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ مریم نواز 2010ءمیں بھی والد کے زیر کفالت نہیں تھیں ۔ مریم نواز کسی کی زیر کفالت نہیں اور مالی طور پر خودمختار ہیں ۔زمین والد نے بیٹی کے نام خریدی۔لندن فلیٹس ٹرسٹ ڈیڈ پر شاہد حامد دلائل دینگے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی شخص بھائی کے نام جائیداد خریدتا ہے تو کیا وہ بھائی کے زیر کفالت ہے ۔زیر اعظم قانون کے مطابق رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قانون میں یہ ہے ایسی جو بھی جائیداد ہے اس کو ظاہر کیا جا نا چاہئیے۔ 20کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کو بھی دیکھنا ہو گا ۔ اس کیس میں پوری قوم متعلقہ ہے کیونکہ فریق وزیر اعظم ہیں ۔آرٹیکل 225کے تحت الیکشن میں کامیابی کو چیلنج کرنے کی معیاد مختصر ہے ۔معیا د ختم ہونے کے بعد آرٹیکل 184/3اور 199کے تحت آئینی عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی وجہ سے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض نہیں کیا ۔ جسٹس اعجا ز افضل نے استفسار کیا کیا آئینی مقدمے میں کووارنٹو رٹ کو لایا جا سکتا ہے ؟ آئینی مقدمے میں رٹ آف کووارنٹو میں وزیر اعظم کو کیسے نااہل کیا جا سکتا ہے ۔ کیا 184/3کے مقدمے کو کوارنٹو میں تبدیلی کیا جا سکتا ہے ؟ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کیس کو وارنٹو کا نہیں بلکہ اہلیت کا ہے ۔بیس کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کو بھی دیکھنا ہو گا ۔
جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ معاونت کی جائے کہ کیا کیس پر کووارنٹو کے تحت سماعت کی جا سکتی ہے یا نہیں ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیس میں دونوں فریقین کا موقف ایک ہے ۔بے نامی کے معاملے پر نیب کی تعریف متعلقہ ہو سکتی ہے ۔ ہمارے سامنے معاملہ الیکشن کا نہیں بلکہ نواز شریف کی بطور وزیر اعظم اہلیت کا ہے ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ وزیراعظم کے وزیر اعظم ہاﺅس ہولڈ کرنے کو چیلنج کیا گیا ہے جس پر وزیر اعظم کے وکیل نے جواب دیا کہ محمود اختر کیس میں ارکان اسمبلی کو نااہل کیا گیا تھا ، وزیر اعظم کو نہیں ۔ نوازشریف کی نااہلی بطور رکن اسمبلی ہو سکتی ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں ، ٹیکس چوری اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے ۔جب تک کسی دستاویز یا کتاب کی تصدیق نہ ہو جائے فیصلے کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا جس پر وزیر اعظم کے وکیل نے جواب دیا کہ دوسری جانب سے کتابوں کے حوالے دیئے گئے ہیں ، میں بھی کتاب عدالت کے سامنے رکھتا ہوں ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہ کتاب میں مصنف کی رائے پر یقین نہیں کر سکتے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے تحف اخباری خبریں شواہد نہیں، 184/3کے تحت اخباری خبر کو عدالت مختلف انداز میں دیکھتی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ مقدمہ ہائی کورٹ میں زیر التواءہو اور سپریم کورٹ میں آجائے تو کیا کہیں گے ۔ 1993ءمیں نوازحکومت کے خاتمے کا مقدمہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں سنایا گیاتھا۔ آرٹیکل 99کے تحت ہائیکورٹ کا فیصلہ ہو تو پھر بھی ایسا کیس سپریم کورٹ سن سکتی ہے ؟ جوجداری کیس میں کتاب کے مصنف کو بھی بلانا پڑتا ہے تاکہ ہر لفظ کی تصدیق ہو سکے ۔
وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ برسوں تک کیسز ہائیکورٹ میں زیر التواءہوں تو سپریم کورٹ سماعت کر سکتی ہے ۔ عدالتی فیصلوں کے تحت اخباری خبریں شواہد نہیں ۔ قانون شہادت کے تحت اخباری خبروں کو قانون کے تناظر میں دیکھا جا تا ہے ۔184/3کے تحت اخباری خبر کو عدالت مختلف انداز سے دیکھتی ہے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ 184/3کے کچھ مقدمات میں سپریم کورٹ نے اپنے اختیار کو وسیع کیا ۔ ان مقدمات میں شواہدد کا جائزہ لے کر حقائق تک پہنچایا گیا ۔ ”آپ 184/3کے تحت اختیارات محدود اور ہم وسیع ہونے کی بات کر رہے ہیں “۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیے مخدوم صاحب آپ 40سال پرانے مقدمات کا حوالہ دے رہے ہیں ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ ”آپ ہمیں شرمندہ کر رہے ہیں “۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ امید ہے عدالت قانون کی حدود میں کھڑی ہو گئی ، نصرت بھٹو کیس اور لوکو موٹو کیس کے حوالہ جات بھی ہیں ۔بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت نئی مثالیں قائم کر چکی ہے ، پلوں کے نیچے سے کافی پانی گزر چکا ہے ۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ 184/3کا اختیار عدالت قانون کے مطابق استعمال کریگی ۔ کیس بن سکتے ہیں یا نہیں اس پر دلائل دونگا ۔ جس پر عدالت نے کہا کہ آرٹیکل 78کے تحت دستاویز یا کتاب کو تصدیق تک فیصلے کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ حقائق متنازعہ ہوں تو عدالت بے بس نہیں۔متنازعہ حقائق پر انکوائری اور حقائق تسلیم ہو جائیں تو فیصلہ ہو جاتا ہے۔مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس چھپایا نہیں بچایا جاتا ہے ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress主题