حضرت فاطمتہ الزھرارضی اللہ عنھا

Published on January 26, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 438)      No Comments

تحریر۔۔۔ رشید احمد نعیم ،پتوکی Rasheed
حضرت فاطمہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سب سے محبوب صاحبزادی ہیں۔ آپؓ کا لقب زہرا ہے ۔آپؓ بعثت نبویصلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔آپؓ کی والدہ حضرت خدیجتہ الکبرٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والی سب سے پہلی خاتون تھیں۔حضرت عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جنتی خواتین میں افضل ترین خدیجہ،فاطمہ،مریم اور آسیہ ہیں‘‘۔ایک اورحدیث میں آپ کو تمام عورتوں کی سردار بھی کہا گیاہے۔حضرت فاطمہؓ کم عمری سے ہی نہایت زیرک اور حق پرست تھیں۔مکی دور کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک روز نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے قریب نماز ادا کرنے میں مصروف تھے کہ کفار نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچانے کا منصوبہ بنایا ۔’’عقبہ بن معیط‘‘نامی سردار جودیگر سرداران قریش کے ساتھ وہاں موجود تھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز ادا کرتے دیکھ رہا تھا ،وہاں سے اٹھا اور اونٹ کی اوجھڑی اٹھا لایا ۔اونٹ کی وزنی اوجھڑی اس نے سجدے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر رکھ دی ۔اس دوران کسی نے حضرت فاطمہؓ کو اس واقعہ کی خبرکردی،یہ سن کر آپؓ خانہ کعبہ پہنچیں اور روتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے اپنے والد کی پشت سے وہ اوجھڑی ہٹائی ،اورقریش کے ان سرداروں کے لیے بددعا فرمائی۔نبوت کے ابتدائی زمانے کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دن رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم بازار سے گزرہے تھے کہ ایک گستاخ کافر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اقدس میں مٹی ڈال دی اوراپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھاگ نکلا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں گھر واپس آگئے۔حضرت فاطمہؓ نے جب آپصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دیکھی تو رونے لگیں۔وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم  کا سر دھوتی جاتیں اور فرط غم سے روتی جاتیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسلی دی اور فرمایا ’’بیٹا صبر کرو!۔اللہ تمہارے باپ کا حامی وناصر ہے ۔وہ تمہارے والد کو قریش کی دست درازیوں اور ایذاء رسانیوں سے محفوظ رکھے گا۔حضرت فاطمہؓ کی شادی آپ کے چچازاد بھائی حضرت علیؓ سے ہوئی ،جنہوں نے بارگاہ رسالت میں ہی پروش پائی تھی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام نکاح پر حضرت فاطمہؓ کی خاموشی کو ان کی رضا مندی سمجھ کر قبول فرمالیا ۔حضرت علیؓ نے اپنی زرہ بیچ کر مہر ادا کیا۔نیز شادی کے سامان اور گھر کی ضروری اشیاء کا انتظام کیا۔غرض حضرت فاطمہؓ کا نکاح انتہائی سادگی سے سرانجام پایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر خصوصی طور پران دونوں کے لیے دعا فرمائی۔حضرت فاطمہؓ نے نہایت سادہ اور پر مشقت زندگی بسر فرمائی۔گھر کے تمام کام خود سرانجام دیتیںیہاں تک کہ چکی بھی خود پیستیں،جس کی وجہ سے آپؓ کے ہاتھوں میں آبلے پڑ جاتے تھے۔گھریلو ذمہ داریوں میں مدد کے لیے آپؓ نے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ایک لونڈی کا مطالبہ کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بیٹی !میں تمہیں ایسی بات نہ بتاوٗں ،جو لونڈی اور غلام سے بہتر ہو؟آپ بولیں’’میرے پیارے ابا جان! فرمائیے وہ کیا بات ہے ؟‘‘۔آپ ﷺنے انہیں نصیحت فرمائی کہ جب رات کو آرام کرنے لگو تو 33 بارسبحان اللہ33بارالحمداللہ33اللہ اکبرپڑھ لیا کروکیونکہ یہ لونڈی یا غلام سے بہتر ہے۔حضرت فاطمہؓ نے اصرار کرنے کی بجائے انتہائی سعادت مندی سے فرمایا کہ ’’میں اللہ اوراس کے رسول کی رضا پر راضی ہوں۔تسبیح کے یہ کلمات’’ تسبیحات فاطمہ‘‘کے نام سے معروف ہیں۔اپنی محبوب بیٹی کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال ودولت اور آسائشات کو پسند نہیں فرمایا۔ گویا حقیقی محبت کا پیمانہ یہ نہیں کہ جس سے محبت ہو،اس کے قدموں میں تمام دنیاوی نعمتیں ڈھیر کر دی جائیں،بلکہ محبت کا تقاضاہے یہ کہ محبوب ہستی کی آخرت سنوارنے کے لیے حتی المقدور کوشش کی جائے۔ آپؓ عادات واطوار اور حلیہ میں اپنے والد محترم سے مشابہت رکھتی تھیں،نیز بے حدسخی اور فیاض تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضر ت فاطمہؓ سے خصوصی لگاو ٗتھا۔وہ اپنے والد محترم کو دیکھتے ہی احتراما کھڑی ہو جاتیں۔اسی طرح حضرت فاطمہؓ جب آپ کے گھر تشریف لے جاتیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کھڑے ہوکر شفقت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی پیشانی پر بوسہ دیتے۔رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ کو اپنی تمام اولاد سے بڑھ کر چاہتے تھے۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ،جو چیز اسے اذیت دے ،اس سے مجھے اذیت ہوتی ہے اورجو بات اسے پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے‘‘۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کے دوران ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پاس بٹھا کرسرگوشی میں کچھ فرمایا،جسے سن کر وہ رونے لگیں۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ان سے آہستہ آواز میں کچھ فرمایا ،جسے سن کر وہ مسکرانے لگیں۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت عائشہؓ کے دریافت فرمانے پر حضرت فاطمہؓ نے بتایاکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’اے فاطمہ! میرے وصال کا وقت قریب آگیا ہے اورمیرے گھروالوں میں سے تم سب سے پہلے مجھ کو ملو گی اور میں تمہارے لیے کتنا بہترین پیش روہوں۔‘‘اس موقع پر میں رو پڑی توآپصلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ’’کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ تم تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار بنو؟اس بات پر میں ہنس پڑی ‘‘۔حضرت فاطمہؓ کو اللہ تعالی نے حضرت حسنؓ اور حسینؓ جیسے بے مثال بیٹے عطا فرمائے۔آنحضرت ﷺکا ارشادہے کہ ’’جس نے حسن اور حسین سے محبت کی ،اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بعض رکھا ،اس نے مجھ سے بعض رکھا۔ حضرت فاطمہؓ کو اللہ تعالی نے دو بیٹیاں حضرت زینبؓ اور ام کلثومؓ بھی عطا فرمائیں۔حیا ایمان کا لازمی جز وہے ۔خصوصا ایک عورت کا تو زیور ہی حیا ہے ،آپؓ میں ایمان کا یہ حصہ بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔آپؓ حد درجہ حیا دار اور گوشہ نشین خاتون تھیں ۔ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے عورت کی بہترین صفت کے بارے میں پوچھا تو حضرت فاطمہؓ نے جواب دیا کہ ’’عورت کی سب سے اعلی وارفع خوبی یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیرمرد کودیکھے اور نہ کوئی غیر مرداسے دیکھے۔آپؓ نے وفات سے پہلے اپنی تدفین کے بارے میں جو ہدایات فرمائیں،ان میں پردے کا خیال رکھنے بارے میں باتیں بھی تھیں۔حیا کا اس سے اعلی درجہ کیا ہوسکتا ہے کہ انسان موت کے بعد بھی اپنے پردے کا خیال سے غافل نہ ہو۔حضرت فاطمہ الزھراؓ کی وفات ہجرت کے گیارویں سال ماہ رمضان میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے چھے ماہ بعد ہوئی،آپؓ کا انتقال رات کے وقت ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق انہیں رات کے وقت ہی دفن کیا گیا ۔ٖؓ

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Blog