رضیہ سلطان 50 برسوں میں پہلی مسلمان خاتون وزیر

Published on March 17, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 419)      No Comments

12
نئی دہلی(یو این پی)انڈین ریاست پنجاب میں کانگریس نے ریاستی انتخابات میں 117 میں سے 77 نشستوں پر کامیابی حاصل کی لیکن اس سے وزیراعلیٰ پنجاب کپٹن امریندر سنگھ کو کابینہ کی تشکیل میں مشکلات کا سامنا بھی ہے۔ اگرچہ وزیراعلیٰ کے کرسی کے امیدوار سابق وزیراعلیٰ راجندر کور بھٹل اور کانگریس کے سابق ریاستی سربراہ سنیل جکھر کو انتخابات میں شکست کا سامنا ہوا لیکن دیگر کئی تجربہ کار سیاست دان کابینہ میں جگہ بنانے کی تگ و دو میں ہیں۔ جمعرات کو نو میں سے آٹھ وزرا کی حلف برداری کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ ملیر کوٹلہ سے منتخب ہونے والی رکن اسمبلی رضیہ سلطان کی شمولیت بہت لوگوں کے لیے ایک خوشگوار حیرت تھی۔ رضیہ سلطانہ تیسری بار رکن اسمبلی بنی ہیں جبکہ گذشتہ 50 سال میں پنجاب میں وزارت کا قلمدان سنبھالنے والی پہلی مسلمان خاتون ہیں۔ 50 سالہ رضیہ سلطان امریندر سنگھ کی گذشتہ حکومت میں چیف پارلیمانی سیکریٹری کے عہدے پر تعینات تھیں۔ یہ عہدہ وزیر ریاست کے برابر ہے تاہم اس کے پاس کسی وزیر جیسے اختیارات نہیں ہوتے۔ سنہ 2007 میں امریندر سنگھ کی حکومت کو شکست ہوئی تھی تاہم رضیہ سلطانہ نے کانگریس کے ہی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ 2012 کے گذشتہ انتخابات میں رضیہ سلطانہ ناکام رہی تھیں۔ رضیہ سلطان کے شوہر ڈائریکٹر جنرل آف پولیس محمد مصطفیٰ ہیں اور اس وقت ڈی جی پی پنجاب ہیومن رائٹس کمیشن تعینات ہیں۔ رضیہ سلطانہ سیاست میں خاصی سرگرم ہیں۔ انھوں نے حالیہ انتخابات میں اپنی حریف جماعت شرومنی اکالی دل کے محمد اویس کو 12700 ووٹوں کے فرق سے شکست دی جبکہ عام آدمی پارٹی کا امیدوار تیسرے نمبر پر رہا۔ ان کے حلقے میں ووٹنگ کی شرح 17۔85 فیصد رہی جو کہ ریاست میں اوسط شرح 4۔77 فیصد سے کہیں زیادہ تھی۔ رضیہ سلطان کو ریاست کے وزیر کے عہدہ دیا گیا ہے جبکہ پہلے مرحلے میں کابینہ میں دو ہندو وزرا کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ امریندر سنگھ نے واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ معاشرے کی تمام اکائیوں کو اپنے ساتھ لے کر چلیں گے۔ اگرچہ ریاست میں مسلمانوں کی تعداد 93۔1 فیصد ہے اور وہ مسلم اکثریتی حلقے سے منتخب ہوئی ہیں، ان کی کابینہ میں شمولیت ایک مثبت اشارہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ رضیہ سلطان کا انتخابات میں حصہ لینا اور وزارت حاصل کرنا بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے بھی ایک پیغام ہے جس نے سنہ 2014 کے لوک سبھا کے انتخابات اور حالیہ اترپردیش کے انتخابات میں کوئی مسلمان امیدوار میدان میں نہیں اتارا تھا۔ اس ضمن میں بی جے پی کا موقف تھا کہ انھیں کوئی ’مناسب‘ امیدوار نہیں ملا۔ بہرحال، ملیر کوٹلہ کی شناخت تقسیم ہند اور آزادی سے لے کر فرقہ وارانہ امن کے ایک چھوٹے سے جزیرے کے طور پر رہی ہے۔ یہ واضح ہے کہ تقسیم ہند کے وقت پنجاب کے بیشتر حصوں میں ہندوسکھ اور مسلمانوں کے درمیان خوں ریزی ہوئی تاہم ملیرکوٹلہ میں ایسے کوئی واقعات پیش نہیں آئے۔ اسی طرح بابری مسجد کی مسماری کے بعد بھی ملیرکوٹلہ میں پرتشدد واقعات رپورٹ نہیں ہوئے۔ بدقسمتی سے حالیہ انتخابات میں کچھ شرپسند عناصر نے مسلمانوں کی مقدس کتاب کے اوراق پھاڑ کر پھیکنے سے تقریق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس سے کچھ تناؤ پیدا ہوا اور اس کی وقت رکن اسمبلی فرزانہ عالم کے گھر کے باہر بھی حملہ کیا گیا۔ یہ واضح تھا کہ اس کارروائی کے پیچھے جو لوگ تھے وہ ملیرکوٹلہ کی تاریخ اور روایات سے ناواقف تھے جہاں کبھی بھی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں دیکھی گئی۔ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے دو افراد کو گرفتار کیا جو مبینہ طور پر دہلی میں عام آدمی پارٹی کے ایک رکن اسمبلی کے ساتھ رابطے میں تھے۔ رکن اسمبلی نریش یادو کو پنجاب پولیس نے اس واقعے کا ’ماسٹرمائینڈ‘ قرار دیا اور ان کی قابل ضمانت وارنٹ جاری ہوئے اور انھیں حراست میں لے لیا گیا، اور اب عدالت کا سامنا کر رہے ہیں۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Themes