آزاد کشمیرکی ذمہ دار، باوقار حکومت کا مشیر رائے شماری؟

Published on December 17, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 805)      No Comments

\"logo\"
چوبیس اکتوبر1947ء کو ریاست جموں و کشمیر میں حریت پسند کشمیریوں پر مشتمل تحریک آزادی کشمیر کی نمائندہ حکومت کے طورپر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے قیام کا اعلان کیا گیا۔آزاد کشمیر کے عبوری آئین (آزاد جموں و کشمیر گورنمنٹ ایکٹ)1970ء میںآزاد کشمیر میں صدارتی طرزحکومت دیا گیا۔صدر کا انتخاب براہ راست ،معیاد عہدہ چار سال۔کابینہ کو وزراء کی صدارتی کونسل کا نام دیا گیا ۔ایکٹ1970ء کی سیکشن9کے تحت صدارتی کونسل اسمبلی کے منتخب ارکان میں سے تین وزراء پر مشتمل تھی ۔آزاد جموں و کشمیر گورنمنٹ ایکٹ1970ء کی سیکشن7کے تحت صدر کے ہمرا ہ ایک مشیر حکومت، حکومت پاکستان کی منظور ی سے،سیکشن8کے تحت مشیر رائے شماری۔ سیکشن8کے مطابق ’’صدر مشیر سے مشورہ کر کے ،ایک مشیر رائے شماری کا تقرر کرے گا،جو ریاست جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کرانے کے سلسلے میں حکومت کو مشاورت فراہم کرے گا‘‘۔تقرری کی صورت مشیر رائے شماری وزراء کی صدارتی کونسل کا ایڈیشنل ممبر ہو گا۔
ایکٹ1970ء میں صدارتی اختیارات پر پابندی کے امور میں (a)اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حکومت پاکستان کی ذمہ داریاں(b)آزاد جموں و کشمیر کے ڈیفنس ،سیکورٹی سے متعلق پاکستان کی ذمہ داریاں۔سیکشن13کی سب سیکشن(2)صدر مشیر کے ذریعے حکومت پاکستان سے رابطہ رکھے گا ،سب سیکشن(1) میں مندرج تمام معاملات کے بارے میں۔سیکشن19کے مطابق اسمبلی کے قانون سازی کے عنوانات میں،(a)آزاد جموں و کشمیر کے علاقے کے لئے(b)تمام سٹیٹ سبجیکٹ کے بارے میں چاہے وہ کہیں بھی ہوں(c)حکومت کے تمام افسران کے بارے میں چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔اسمبلی صدارتی اختیارات پر قدغن والے پہلے دو امور کے علاوہ کرنسی کے بارے میں بھی قانون سازی نہیں کر سکتی۔سیکشن25کے تحت ہائیکورٹ اور سیکشن24-Aکے تحت جوڈیشل بورڈ کے نام سے کورٹ آف اپیل۔بنیادی حقوق بھی ایکٹ1970ء کا حصہ تھے۔
انیس سو چوہترکے عبوری آئین میں آزاد کشمیر میں پارلیانی نظام حکومت دیا گیا۔میرے خیال میں یہ ایک اہم ریسرچ ورک ہے کہ آزاد کشمیر کے ایکٹ1970ء اورایکٹ1974ء کا اس طور موازنہ کیا جائے کہ آزاد کشمیر کے مخصوص حیثیت اور اہمیت کے پیش نظر کون سا نظام آزاد کشمیر کے لئے زیادہ بہتر ہے اور وہ کون کون سے امور،اختیارات ہیں جوایکٹ 1970ء میں آزاد کشمیر کو حاصل تھے اور اب ایکٹ1974ء کے تحت حاصل نہیں ہیں۔ایکٹ1974ء سے آزاد کشمیر کے چیف ایگزیکٹیو کے لئے ایڈاوائزر کا عہدہ نکال دیا گیا،تاہم مشیر رائے شماری کا عہدہ قائم رکھا گیا ہے ۔ایکٹ1970ء میںآزاد کشمیر کا صدر(چیف ایگزیکٹیو) حکومت پاکستان سے اپنے مشیر کے ذریعے رابطہ رکھتا تھا ۔1974ء کے ایکٹ میں اس مشیر کا عہدہ ختم کر کے اس کی جگہ آزاد جموں و کشمیر کونسل کا قیام عمل میں لایا گیااور قانون سازی کے51اہم موضوعات سے متعلق اختیارات آزاد کشمیر اسمبلی سے کشمیر کونسل کو منتقل کر دیئے گئے۔آزاد کشمیر کے عبوری آئین کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آزاد کشمیر کاعبوری آئین وزیر اعظم پاکستان کے ایک نوٹیفیکیشن سے منسوخ ہو سکتا ہے۔
آزاد کشمیر میں شروع سے ہی مختلف انتظامات کے تحت حکومت قائم رکھی گئی۔آزاد کشمیر حکومت کو ہر معاملے میں وزارت امور کشمیر کی صورت حکومت پاکستان سے اپنے فیصلوں کی منظوری لینا پڑتی تھی۔آزاد کشمیر کے آئینی ،انتظامی وغیرہ تمام اختیارت وزارت امور کشمیر کے جائینٹ سیکرٹری کے ذریعے چلائے جاتے رہے۔1970ء کے ایکٹ کے ذریعے پہلی بار ایک آئینی انتظام کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے آزاد خطے میں ایک ذمہ دار اور باوقار حکومت قائم ہوئی۔ ایکٹ 1970ء کے تحت تین چار امور کو چھوڑ کر باقی تمام امور آزاد کشمیر اسمبلی کے پاس تھے۔اسمبلی اور حکومت آئینی و انتظامی طور پر با اختیار تھے۔
یہ کالم لکھنے کا محرک یہ تھا کہ آخر مشیر رائے شماری کہاں گیا؟ ایکٹ1974ء میں بھی مشیر رائے شماری کا ذکر انہی الفاظ میں کیا گیا ہے جو ایکٹ1970ء میں درج تھے۔مسلسل دوسرے عبوری آئین میں درج آزاد کشمیر حکومت کا مشیر رائے شماری سراسر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے قیام کے مقاصد اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق متنازعہ قرار دی گئی (23اکتوبر1947ء تک قائم) ریاست جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے تناظر میں رکھا گیا ہے۔مشیر رائے شماری متعین کرنے کا ایک بڑا مقصد اس بات کا اظہار بھی ہے کہ حکومت پاکستان واقعی رائے شماری کرانا چاہتی ہے۔اس سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ آزاد کشمیر کی اس نیک نیتی کا اظہار بھی ہو سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے متنازعہ ریاست جموں و کشمیر(جموں ،وادی کشمیر،کرگل لداخ ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) کے مستقبل کے فیصلے کے بارے میں مخلص اور پرعزم ہیں۔اس سے یہ مدعا بھی ظاہر ہو سکتا ہے کہ ریاست کشمیر میں رائے شماری حکومت آزاد کشمیر کا سب سے بڑا مقصد ہے۔آزاد کشمیر میں تعمیر و ترقی کے مختلف موضوعات،تعلیم وغیرہ کے لئے تو وزیر ہیں لیکن اس کے باوجود انہی موضوعات پر مشیر رکھے جاتے ہیں لیکن جو مشیر رائے شماری عبوری آئین1974ء میں بیان کیا گیا ہے اور آزاد کشمیر حکومت کا بنیادی کامقصد بھی یہی ہے،اس مشیر رائے شماری کے تقرر میں نہ جانے کیا امر مانع ہے۔مشیر رائے شماری کا مقصد یہ بھی کہ حکومت کو اس بارے میں مشورے دے سکے کہ رائے شماری کے حوالے سے کون کون سے اقدامات اور فیصلے ضروری ہیں اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی ماہرانہ مشاورت فراہم کرے۔یہ بات دلچسپ ہی نہیں افسوسناک بھی ہے کہ آزاد کشمیر کے عبوری آئین1970ء اور عبوری آئین 1974ء میں مشیر رائے شماری کاضروری عہدہ ہونے کے باوجود شروع سے اب تک کسی ایک کو بھی اس عہدہ پر نہیں لگایا گیا۔یوں مشیر رائے شماری کا آئینی عہدہ اپنے قیام کے دن سے ہی مسلسل خالی چلا آرہا ہے اور ہماری حکومتوں کے قول و فعل کے کھلے تضاد کو بے نقاب بھی کر رہا ہے۔
یہ کسی طور مناسب نہیں لگتا ہے کہ آزاد کشمیر کی جو حکومت تمام ریاست جموں و کشمیر کی نمائندگی کے طور پر وجود میں آئی،وہ حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھے اس وقت کا انتظار کرے کہ جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ قرار دی گئی ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے گی تو اس وقت مشیر رائے شماری کا تقرر کیا جائے گا۔یہ بات نہایت اہم ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کے مشیر رائے شماری کا تقرر کیا جائے اور اس اہم عہدے پر ایسی شخصیت کا تقررکی جائے جو تما م پاکستان،دنیا میں گھوم پھر کر کشمیر کاز کے لئے کام کرے۔یہ ضرورت پاکستان کی پارلیمانی کشمیر کمیٹی سے پوری نہیں ہو سکتی۔رہی بات آزاد کشمیر میں ذمہ دار اور بااختیار حکومت کے قیام کی ،تو یہ دو طرفہ معاملہ ہے ،ایک طرف اختیارات دینے میں عدم دلچسپی ہے اور دوسری طرف سیاسی اخلاقی گراوٹ کے عریاں نظارے۔ کہنے کو تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کیا آزاد کشمیر میں بااختیار، ذمہ دار اورباوقار حکومت ہے؟ ۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Premium WordPress Themes